کوئی لیکس نظام بدل سکتی نہیں ……حوصِ دنیا کا لالچ کچھ کرنے نہیں دیتا

آج کل صبح صادق سے لے کرغروب آفتاب تک چائے کی پیالی سے لے کررات کے کھانے تک صبح کی سیرسے لے کر بستر نیند تک اور غرض کے ہرشعبہ ہائے ز ندگی میں صرف ایک ہی ایشو نے اس قوم کو اپنے سائے میں لیا ہوا ہے ۔یوں لگتا ہے جیسے ماضی سے لے کر حال اور حال سے لیکر مستقبل تک ایک ہی مسئلہ ا یک ہی عنوان زیر بحث ہے اور وہ مسئلہ ہے پانامہ لیکس یہ وہ لیکس ہے جس نے ماضی کی بے شمارلیکس کو پیچھے چھوڑدیا ہے ۔

پانامہ لیکس نے حکو متی ایوانوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے ہر طرف اس کی بازگشت کابہت چرچا ہے حاکمِ وقت کو انگلی اُٹھنے پررعایا کو اعتماد میں لینے کے لیے خطاب فرما ہو ناپڑا جب کہ بہادر افواج کے سپہ سالار نے پانامہ لیکس انکشافات کے بعد تاریخ سازفیصلے یا احکامات صادر کئے اوربات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ابھی تو بات شروع ہوئی ہے اور اِسے بہت دور تک جانا ہے ۔

ابھی تک پانامہ لیکس پرتبصرہ نگاری کرنے والے دو حصوں میں تقسیم ہیں کچھ اِسے حقیقت شناس اور کچھ اِسے ناقدین کی سازش کاپیش خیمہ قرار دیتے ہیں رائے زنی کا حق ہر کسی کو حاصل ہے اور ہر کوئی کسی پراپنی رائے کو تھوپ نہیں سکتا۔

اسلامی تاریخ اور خلفائے راشدین کے حکومتی نظام کو ایک ایسے ریاستی نظام میں رائج کرنے یاچندپیرائے کو عمل پیرا بنانے کی خواہش رکھنا کوئی بری بات نہیں مگر یہ سوچنا بھی ضرو ری ہے کہ
……٭ کیا ہم ایک لمحے کے لیے سڑک پر رکنا گورا کرتے ہیں جب ریاستی قانون رکنے کا حکم دیتا ہو ؟
……٭کیا ہم قطار میں ترتیب نزولی سے کھڑاہونا عزیز جانتے ہیں یاقانون کے برعکس ترتیب سعودی کواپنانا؟
……٭کیاہم ذاتی مفاد کی خاطر میرٹ کی دھجیاں بکھیرناعین فرض نہیں سمجھتیاگرچہ ہم دوسروں کیلئے میرٹ کا رٹا رٹایا سبق بولتے نظر آتے ہیں؟

اگر عوام اپنا قبلہ درست کر لیں اور عین سامنے والے پر اٹھانے والی انگلی کے ساتھ دیگر چار انگلیوں کی اہمیت سے کنارا کشی نہ کریں تونیم اسلامی ریاست کو مکمل اسلامی ریاست کے نقشے میں ڈھالا جاسکتا ہے ۔
اب سارا قصور رعایا کا ہی نہیں اور نہ ہی اسے موردالزام ٹھرانا مناسب ہے ۔
’’غلام کو غلامی پسند نہ ہو تو کوئی آقا پیدا ہو نہیں سکتا‘‘ واصف علی واصف

رعایا تو حاکمِ وقت کی غلام ہوا کرتی ہے اسی لیے تو نہ چاہتے ہوئے قانون کے محافظ حقیقی فرائض سے پہلو تہی کرتے ہوئے اپنے حاکموں کے نمائشی پروٹوکول پر اپنی تما م توجہ مرکوزرکھتے ہیں اور اس کے عوض دادِ تحسین وصول کرتے ہیں۔ فرائض سے پہلو تہی کا انجام ہیبت ناک مسائل کو جنم دیتا ہے ایک جانب حاکم وقت کو حقیقی فر ائض بھولنے اور دوسری جانب اقتدار اعلی کے اصل خالق سے دور کر دیتا ہے یہ وہ خرابی ہے جو ایک اچھے درد دل رکھنے والے حاکم وقت کو مرتد بنا دیتی ہے اور وہ اقتدار کی بھول بھلیوں میں پڑ ھ کر خود کو رعایا سے دور کرلیتا ہے اور یوں مسائل رعایا کا یوں پیچھا کرتے ہیں جیسے موت زندگی کا ۔

پانامہ لیکس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا تا حال قیاس آرائیاں ہیں لیکن کرپشن اور لوٹ مار کے دروازے پر قفل لگنا چاہیے تاہم ایسا قفل نہیں جو دوبارہ کھل سکے وگرنہ ماضی میں کئی بار قفل لگے اور کھلے ہیں ۔اگر ایسے ہی قفل لگانا مقصود ہیں تو نہ لگائیے ۔

آج کے عام شہری کی زندگی کے اسباب تاریخ ِ اسلام کے دور میں رہنے والے شہری کے اسباب کے لحاظ سے کوسوں زیادہ ہیں ۔ آ ج کے جدید دور میں ایک عام آدمی کے رموزو اوقاف کی جانچ پڑتال اتنی سہل نہیں جتنی ماضی کے عام آدمی کی تھی کچھ اسی طرح آج کے اور ماضی کے حکمرانوں کی روز ایام کی بسر اوقات کا نظام بھی کافی بدل چکا ہے اس لئے اب ہمیں حقیقت کا ادارک بھی کرنا ہوگا۔

خلفائے راشدین کے دور میں اسلام کا غلبہ تھا مگر آج کفر و شرک کا غلبہ ہے اور مسلما ن مغلوب ہیں اس وقت مسلمان غالب تھے اس لئے ریاستی نظام مکمل طور پر آزاد تھا آج اسلامی ریاست کے نظام کو چلانے کیلئے مغرب کے دیئے ہوئے کئی ایسے نظاموں کو رائج کرنا حاکم وقت کی مجبوری ہے کہ جسے وہ نہ چاہتے ہوئے بھی رائج کرتا ہے کیونکہ مغلوبیت کے دور میں بہت ساری خواہشات انسان پر غالب نہیں آسکتیں بلکہ بہت ساروں کی خواہشات غالب ہوتی ہیں اسلئے اپنی خواہش مغلوب ہی رہتی ہے اسلئے ایسا کرنا کافی دشوار ہوتا ہے آج کے دور کو خلفائے راشدین کے دور سے نہ ملایا جائے ۔آج ہماری ریاستوں کا نظام یہود و ہنود کے قبضے میں ہے ہمارا بیکنگ نظام سار ا مغربی قوتوں کے قبضے میں ہے ،دفاعی نظام میں بھی ہمیں انکی مدد درکار رہتی ہے ،حتی کہ ہمیں رفاہی کاموں کو پروان چڑھانے کیلئے بھی ان سے مدد حاصل کرنا پڑتی ہے تو پھر ا س دور کا تقابل اس دور سے کیسے کیا جا سکتا ہے جب ہم غالب تھے اور آج ہم مغلوب ہیں۔اگر ہمیں اس دور کی مثالیں دینا ہیں تو پھر ہمیں اپنے اندر جھاکنا بھی ہوگا وطن عزیز کی کونسی سیاسی جماعت ہے جو ان طاغوتی قوتوں سے مد د طلب نہیں کرتی ۔تمام سیاسی جماعتیں اپنی سیاست کا محور مغربی آقاؤں کو سمجھتی ہیں ۔سب کا قبلہ ایک ہی ہے بس سب نے دروازے علیحدہ علیحدہ رکھے ہوئے ہیں اسلئے عوام کو بہلانے پھسلانے سے بہتر ہے کہ تمام جماعتیں حقیقت آشکار ہوں اور عوام بھی ان کے بہکاوے میں نہ آئیں ۔
بقول شاعر:
قرض دے کر غریب ملکوں کو
چھین لیتا ہے روحِ آزادی
آج زیرِ عتاب ہے اس کے
ہر بڑا شہر ہر حسین وادی
مدتوں سر اٹھا کے چل نہ سکا
اس کے کھاتے میں جس کا نام آیا
صاف دامن بچا گیا ہم سے
جب بھی مشکل کوئی مقام آیا
بحرت ہند آج تیری موجیں بھی
اسکی توپوں کے سائے میں ہیں خاموش
کوئی طوفان کیو ں نہیں اٹھتا
کیا ہوا آج تیرا جوش و خروش

طاغوتی قوتوں کے سب آلہ کار ہیں کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ طاغوتی قوتوں کے جال سے آزاد ہے سبھی اس جال میں پھنسے ہوئے ہیں ۔طاغوتی قوتوں کو اب نظر آتا ہے کہ ایشیائی خطہ غالب ہونے والا ہے اس لئے وہ اس خطے کو بحرانوں کا شکار بنانا چاہتی ہیں عوام کو حقیقت شناس ہونا پڑے گا اگر آپ خلفائے راشدین کے دور کی بات کرتے ہیں تو ویسا ہو کر بھی دکھائیں لگژری گاڑیوں اور جدید طرین طیاروں میں سفر کرنیوالے اگر اﷲ کے محبوب بندوں کو مثال بنا کر سیاسی سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں تو پھر محل نما گھر غریبوں کی بہبود کیلئے وقف کر دیں اور گلی محلوں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہیں اورگزر اوقات ایسی ہو کہ صبح کا کھانا ہو تو دوپہر کا کھانا نہ اور رات کا کھانا ہو تو صبح کا ناشتہ نہ ہو تو پھر سمجھ آتا ہے کہ یہ کوئی ویژن ہے مگر یہ کیا ویژن سب ایک جیسے ہیں اور ہر کوئی تاک میں بیٹھا ہے کہ یہ جائے تو میں آؤں۔

عوام یہ جان لیں کہ موجودہ نظام میں جب تک ہم آئی ایف سمیت دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے مقروض ہیں تو پھر کسی صورت ہم یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ یہ نظام بدلے گا عوام اگر حقیقی نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں تو پھر سب سے پہلے تمام سیاسی جماعتوں کی مرکزی ،صوبائی،ضلعی ،تحصیلی اور گلی محلے کی قیادت سے کہیں کہ وہ عوام کی خوشحالی کی خاطر صرف پانچ مرلے کا گھر رکھیں اور باقی سب قومی خزانے میں جمع کروا دیں ۔اگر یہ سیاسی جماعتوں کے اوپر سے لے کر نیچے تک رہنما عوام سے مخلص ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ جو مال انہوں نے جمع کررکھا ہے یہ مال نہیں ہے بلکہ وبال ہے تو پھر آپکی اس چھوٹی سے گزارش کو مان لیں اور سارا مال قومی خزانے میں جمع کروا دیں تو پھر خلفائے راشدین کے دور کی مثالیں دیں تو سمجھ آتا ہے لیکن بے عمل ہو کر اس طرح کی مثالیں دینا بس ذاتی خواہشات کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں ۔

قارئین ……!! حکمران اگر خلفائے راشدین کی مثالیں ہی دیتے ہیں تو اس واقعہ کو بھی بغورپڑھ لیں اور پر ہی عمل کر لیں تو انقلاب خود بخود ہی آسکتا ہے کسی سونامی یا کسی لانگ مارچ کی ضرورت نہیں ۔

’’ایک دن امیرالمعومنین حضرت عمربن الخطاب ؓؓؓ جنت البقیع،جو اہل مدینہ کا قبرستان ہے کہ پاس سے گزرے اور فرمایا۔اے قبر والو اسلام علیکم ہمارے پاس جو خبریں ہے وہ یہہیں تمہاری بیویوں نے نکاح کر لیے تمہارے گھروں میں دوسرے لوگ رہائش پزیر ہوگئے۔‘‘

’’ خاطف غیبی سے جواب،آیا ہمارے پاس جو خبریں ہیں: جو اعمال آگے بھیجے تھے وہ ہم نے پالیے جوکچھ خرچ کیا تھا اس کا نفع مل گیا اور جو کچھ ہم چھوڑ آئے تھے اُس کا ہمیں خسارہ ہوا(کنز الایمان)

اگر ہم مسلمان ہیں اور ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد یہ سب کچھ ہمارے کام نہیں آئے گا تو پھرہمیں یہ سب کچھ چھوڑ دینا چاہئے اتنا مال جمع کر کے نہ جانے ہم کتنے گھروں کو فاقہ کشی میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اور کتنے گھر والوں کو بے گھر کر چکے ہیں۔

قارئین……!! اگر آپکا یقین ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نہ سہی چند ایک ہی آپ کی اس گزارش کو ماننے کیلئے تیار ہیں تو چلیں انہی کو کہیں کہ عوام کے سامنے آکر ایسی مثال قائم کریں مگر ایسا کوئی بھی نہیں کرے گا کیونکہ سیاست تو اب کاروبار ہے اور کوئی کاروبار میں نقصان نہیں چاہتا تو اگر ایسا ہے تو پھر جتنی مرضی پاناما لیکس آتی رہیں کچھ نہیں ہوگا کیونکہ کوئی لیکس اس ملک کا نظام نہیں بدل سکتی اس نظام کو جب بھی کروٹ ملے گی تو خوف خدا اور حوص دنیا سے انکار کرنیوالے کے ہاتھوں سے کروٹ ملے گی ۔میری دعا ہے کہ ایسی شخصیت اﷲ کی ذات ہمیں میسر کر دے تاکہ عوام کے اندر موجود امید کا دیا مزید روشن ہو جائے اور کفر و ہنود کو اپنی سازشوں میں شکست فاش ہو۔
Asghar Ali Abbasi
About the Author: Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 21180 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.