کیونکہ یہی تو بریکنگ نیوز ہے

ابھی ہم پانامہ لیکس کے مضمرات سے فارغ نہیں ہوئے تھے کہ نجی نیوز چینل کے اینکر کہلائے جانے والے بھائی صاحب نے اسمبلی میں پستول نکال کر اسٹنگ آپریشن کو کا میاب بناکر سب کو ماموں بنا دیا ۔ اظہار رائے کی آزادی کے دن مقامی ہوٹل میں کچھ اسی قسم کا سمینار منعقد ہوا جس میں صحافیوں کے اخلاقی حدود اور مالکان اخبارات کے حوالے سے بھاشن دیئے گئے ، لیکن اس میں ایک بات بھی سمجھ نہیں آئی کہ الیکڑونک میڈیا میں پروگرام ڈائریکٹر ہوتا ہے اور پھر مالکان کی مرضی کے بغیر تو کچھ کیا بھی نہیں جا سکتا تو ان سے کون کوئی کچھ کیوں نہیں پوچھتا۔ اس اینکرکو کوئی شاباشی دے رہا تو کوئی لعن طعن کر رہا ہے ۔ لیکن مسئلہ یہ ہوا ہے کہ اب ہمارا گھر میں داخلہ بند ہوگیا ۔ گھر میں داخلے سے پہلے چھوٹو ، ( چھوٹو گینگ والا نہیں ) ہمارا چھوٹو ، کہتا ہے کہ آپ کا قد لمبا ہے آپ قمیض کی اوپر والی جیب چیک کریں ، میاں چھوٹو یہ کیا ہورہا ہے ، جواب ملتا کہ ہوم منسٹری کی جانب سے سخت ہدایات ہیں کہ آپ رات گئے تک نیٹ کے آگے بیٹھے رہتے ہیں ، تو یقینی طور پر کچھ نہ کچھ چھپا کر لا کر کھاتے ہونگے ، اب میرے لئے مسئلہ سیاہ چن بن چکا تھا کیونکہ ہوم منسٹر کیساتھ ساتھ بے محکمہ ہوم منسٹر کو خوش کرنے کیلئے گوری کرنے والی کریم لایا تھا ادھر میری جان پھنسی ہوئی تھی میں نے درمیانے کو کہا کہ گورا کدھر ہے اس نے کہا کہ سانولے کے پاس ، اب میری کمک کیلئے بھی کوئی نہیں تھا میں نے چھٹ سے پرس نکالا اور اس میں سے ایک کاغذ جس کا رنگ میرے چہرے کی طرح سرخ ہوچکا تھا ، ان کے سامنے رکھا ، انھوں نے بڑی بریٰ نظروں سے دیکھا کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں ۔ میں مچل کربولا ، دیکھو یار اس میں قائد اعظم نے ابھی ابھی نئی ٹوپی پہنی ہے اس پر غور کرو اور تلاش کرو کہ قائد اعظم کہاں کہاں ہیں ، میں کوئی رشوت تھوڑی دے رہا ہوں ، اگر درست درست تم نے بتا دیا تو یہ تمھارا انعام ، چھوٹو ہوشیار تھا اس نے کہا کہ بھائی چارے کیلئے ضروری ہے کہ ایسے کاغذدو ہوں ، ہم انہماک سے کام کرسکیں گے۔ مرتا کیا نا کرتا کے مصداق ایک اور نوٹ جیب سے نکلا اور اچانک آواز آئی ہاں بھئی کلئیر ہے ۔ جواباََ اس سے زیادہ تیز اجتماعی آواز لگائی گئی کہ کلئیر ہے جانے دو اب تو یہ زد عام ہوگیا ہے ۔ ہماری اس حرکت کو وزیر بے محکمہ دیکھ چکی تھیں ، کیونکہ گوری گوری کریم لانے کا حکم ان کا تھا ۔وزیر با محکمہ بے خبر تھی اس لئے وہ خود گوری ہیں اس لئے ان کو ضرورت پیش نہیں آتی لیکن ان کی مسکان دیکھکر دل کوئلہ کڑاہی ہوگیا ، لیکن مجبوری ہے ایک میان ہے اور دو تلواریں ۔بات اصل میں اظہار رائے کی ہو رہی تھی ، اب کیا خاک اظہار رائے ہو سارے فلسفے ساری دلیلیں فیل ہوجاتی ہیں جب فیل بان آتا ہے ۔ چینلز میں اچھی سی خوشبو لگا کر زبان جتنی گندی استعمال کرو تواس کا نام اظہار رائے رکھا جاتا ہے۔ نیوز ایسی لگتی ہے کہ بھارتی فلم دبنگ کا پارٹ فور ہو ۔ کبھی کبھی دل والے دلنہا لے جائیں گے تو کبھی اینکرز خواتیں کترینہ کیف نظر آتی ہیں ، کبھی ایسا لگتا ہے کہ اگر بریکنگ نیوز میں چیخے چلائے بغیر خبر سنا دی تو پڑوسی چینل والے ہنسیں گے کہ مالکان نے تنخواہ نہیں دی ہوگی ۔ اگر بیپر دینا ہو تو پھر یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہاتھ میں مائیک نہیں بلکہ ایٹم بم کا سوئچ ہو جس کے دبانے کی دیر ہے اور سب کچھ دھڑام سے آگرے گا ۔ سب سے پہلے کے چکر میں تصاویر آن ائیر کرتے ہوئے چینل کا نام لکھوا نظر آتا ہے جو صاف بتاتا ہے کہ اگر نام لکھا ہوا نہیں ہوا تو دوسرا چینل چوری کرلے گا ۔ ایک چینل دوسرے چینل کو چور سمجھ کر کوئی ویڈیو بھی ملنے پر اسی ہی کرتا ہے ۔ نیوز چینلرز میں ڈرامے بھی آتے ہیں پولیس والے اداکار بنے نظر آتے ہیں تو ایک دن تو میں حیران رہ گیا کہ ایک خاتون اینکرنما پرسن ملزم کو مارے جا رہی تھی کہ ہائیں اب کرے گا تو ایسا ، فیس بک پر لڑکیوں کو جھوٹ بولے گا ، جھوٹ بول کربلائے گا ۔ نا جانے کیوں ایسا لگا کہ وہ خاتون اینکر بھی چوٹ کھائے بیٹھی تھی ، اسلئے سارا غصہ اتارنے لگی ۔ بڑے رینک کے افسر نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا کہ بتا اور کیا کیا کیاہے ۔ پھر بریک آجاتا ہے ، ہمیں نہیں پتہ چل پاتا کہ اس نے کیاکیا کیا تھا ۔ لیکن یہاں جان مصیبت میں پڑ گئی ہے ۔ اس اینکر نما انسان نے کیا تماشہ کھڑا کردیا کہ اب گھر میں اچانک آواز لگتی ہے کہ بریانی آگئی ، خوشی خوشی آگے بڑھتے ہیں تو گوشت نہیں ، پوچھتے ہیں کہ یہ کسی بریانی؟۔ تو جواب ملتا ہے کہ اسٹنگ آپریشن ہے ، گوشت تلاش کرو ۔ اب گوشت تلاش کہاں سے تلاش کریں ۔آلو بھی ہی گذار کرنا پڑ جاتا ہے تو اچانک دوسرے کمرے سے آواز آتی ہے کہ یہ رہی ران یہ رہا سینہ ۔ چاول میں موجود نہیں تھا لیکن فریج میں چھپا کر رکھا گیا تھا اب دونوں وزرا کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے ، ہم چپ چاپ سادہ لباس والوں کے ساتھ نکل جاتے ہیں کہ جا کر سنیما میں فلم دیکھتے ہیں ۔گھر کا شو کئی سالوں سے چل رہا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا یہی مثال کچھ ہمارے میڈیا کی ہے کہ پریس لکھتے ہیں ، اب کوئی ان سے اگر کہہ دے کہ چھپائی کا رخانے میں ہو تو ناراض ہوجائیں گے ، تقریب کا بائیکاٹ کردیں گے لیکن کھانے کے موقع پر راضی ہوجائیں گے کہ آئندہ خیال رکھنا ۔ کسی نے پارلیمانی صحافی کی اصطلاح استعمال کرڈالی ، تو کسی نے اعتراض کیا کہ کیا ہم غیر پارلیمانی ہیں ، لیکن مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مارشل لا لگنے کے بعد یہ پارلیمانی صحافی کہلاتے کیا ہونگے۔ کسی نے کہا کہ سندھ اسمبلی میں کھانا اچھااور سستا مل جاتا ہے ، وزیروں سے سفید لفافے بھی کوئی نہ کوئی لے لیتا ہوگا ، اب اس میں کیا ہے یہ تو کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ یہی تو بریکنگ نیوز ہے۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 399 Articles with 263946 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.