ذمہ دار کون

کہنے کو تو ہم ایک آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں مگر ہم میں سے ہر ایک شخص بہتر جانتا ہے جس قدر ہمیں کرپٹ سیاستدان ملے ہیں۔ آج کل کے اس تیز رفتا رترقی کے دور میں ہمارے پیارے ملک پاکستان میں دو وقت کی روٹی کمانا اور کھانا بھی مشکل سے ،مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے ملک میں کوئی ایسا سیاستدان اور لیڈر نہیں ہے جو عوام کی بہتری کی سوچ رکھتا ہو ۔ روزانہ کی بنیاد پر بہت سی جانو ں کا ضیاع معمول کی صورت اختیار کر چکاہے ، وطن عزیز کے کئی گھرانے تو ایسے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا واحد کفیل بھی دہشت گردی کی زد میں آکر موت کی آگوش میں چلے جاتے ہیں ۔ جس قدر آج کل ہلاکتیں ہو رہی ہیں کوئی سیاستدان یا لیڈر ایسا نہیں جو ان کا دیر پا حل تلاثں کر سکے ۔ پورے پاکستان میں حالات کیا ہیں وہ ایک عام آدمی کو تو بخوبی متاثر کرتے ہیں مگر اعلی ایوانوں میں براجمان لیڈروں تک کبھی نہیں پہنچ سکتے ۔ پاکستان کا کوئی ایسا علاقہ نہیں ہے جہاں کچھ سکون ہو ۔ ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہے مگر کسی کو فکر نہیں ہے سب اپنی اپنی کرسیوں پر اطمینان سے براجمان ہیں ۔ مجھے یہ تحریر کرتے ہوے انتہائی افسوس ہو رہا ہے کہ آج تو وہ وقت آ گیا ہے کہ ساتھ والے گھر سے جنازہ نکل رہا ہو تو لوگ آرام سے اپنے روزمرہ معمولات میں مشغول رہتے ہیں ۔ کسی کو فکر نہیں ہوتی کہ کیا ہو ا۔چند افراد جمع ہوتے ہیں دکھاوے کے لئے چند لمحات کیلئے آنکھوں میں چند آنسو لا کر ایسے ثابت کرتے ہیں کہ اس مرنے والا کا دکھ اس دنیا میں سب سے زیادہ ہمیں ہی ہے،پورے پاکستان میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جس دن کسی نہ کسی علاقہ میں دہشتگردی نہ ہوئی ہو ، کسی جگہ ٹریفک حادثہ نہ ہو یا کسی علاقے میں لڑائی جھگڑے سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا ہو مگر پھر وہی چند روز سوگ منانے کے بعد سب اپنے معمولات میں مصروف ہو جاتے ہیں بجائے اس کے کہ کوئی توجہ طلب حل نکالا جائے ہم سب باتوں کے پہاڑ بنانے میں مصروف عمل نظر آ تے ہیں ۔ مگر ان کے حل کے لئے کوئی تھوس اقدامات نہیں کرتے ۔پھر بھی ہماری زبانوں پر صرف اور صرف یہی الفا ظ ا کثر رہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان کچھ نہیں کرتے کسی کام کے نہیں ۔مگر آج تک کسی نے یہ سوچا ہے کہ ان سیاستدیانوں کو ایوان اعلی تک پہنچاتا ہم خود ہے ؟کیا یہ سیاستدان خود بخود آکر عوام پر مسلط ہو جاتے بلکہ ہم ہی ہیں جو انکو منتخب کر کے اپنے سروں پربٹھالیتے ہیں ۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہم خود ہی ماپ تول میں کمی کرتے نظر آتے ہیں ۔خالص چیز دوسروں تک پہنچانا ہمیں گوارہ نہیں ہوتا۔ کھانے کی چیزوں میں تو شروع سے ہی ملاوٹ چلی آ رہی ہے مگر اب تو افسوسناک امر یہ ہے کہ آج کل تو ہم نے ادویات میں بھی ملاوٹ شروع کر دی ہے ، ہر جگہ پر ہم اپنا پیٹ بھر نے کا ہی سوچتے ہیں اور پھر بڑے آرام سے کہتے ہیں کہ ہمارے سیاستدان کرپٹ ہیں ، سیاستدانوں کو عوام کی پرواہ نہیں ہے کبھی ہم میں سے کسی نے سوچا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ، ہم نے آخرت میں اﷲ کے حضور جوابدہ بھی ہونا ہے، ہم انفرادی اعمال کی سزا و جزا ہمیں بھی ملتی ہے ۔ ہم کرپشن ، ملاوٹ اور منافع خوری سے باز نہیں آتے ۔ ہمیں دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنے آپ کی اصلاح کرنا ہو گی ۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے حکمران اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیں تو اس سے پہلے ہمیں انفرادی طور پر اپنے فرائض بخوبی س انجام دینا ہو گا ، جس روز پم خود انفرادی چور پر کرپشن ملاوٹ اور منافع خوری سے توبہ کر لیں گے اس دن سے ہمارے حکمران بھی اپنے فرائض بخوبی سرانجام دیں گے ، ذاتی اصلاح کے بعد ہم میں وہ جرات بھی پیدا ہو جائے گی کہ دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بھی بات کر سگے ، خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو اور ۔ہمیں معاشرے میں اچھے کام کرنے اور ایک اچھا شہری ہونے کی توفیق عطا فرمائیں آمین
Zakeer Ahmed Bhatti
About the Author: Zakeer Ahmed Bhatti Read More Articles by Zakeer Ahmed Bhatti: 23 Articles with 15464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.