٭ہمیں اپنی اسلامی شناخت چھپانے کی ضرورت نہیں

٭پیشہ کوئی بھی ہو رزق حلال سے ہی بچوں کی کفالت کرنی چاہیے ٭لوکل ٹرینوں میں پھیری کرنے والے محمدشہزاد کے بلند عزائم
حلال روزی ہمیشہ بابرکت اورانسانوں کوآسودگی اور فارغ البالی سے ہمکنار کرنے والی رہی ہے اس کے برعکس وہ روزیاں جو حلال نہ ہوںالجھنو ںاور پریشانیوں کا باعث بنتی ہیں آج انسانوں کے اندرحرص وطمع کا امنڈتا ہوا طوفان جو ہرطرف دکھائی دے رہا ہے اس کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یقینا یہ بھی ہے کہ ہم رزق حلال کے حصول کی کوشش ہی نہیں کرتے کوشش توجانے دیجئے ہم اس بات کی فکر بھی نہیں کرتے کہ جو رزق ہم کما رہے ہیں وہ حلال ہونا چاہیئے بھی یا نہیں۔ایسے بگڑے ہوئے معاشرے میں جب کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو کوئی انکش لگانے یا بازپرس کرنے والانہ ہو اس کے باوجود آج بھی ایسے لوگ اچھی خاصی تعداد میں مل جائیں گے جن میں ابھی بھی ایمان کی رمق موجود ہے جو اپنے بچوں اور متعلقین کے لیے بے شمار پریشانیوں کے باوجود رزق حلال بہم پہنچانے میں جٹے ہوئے ہیں۔آئیے ہم آپ کی ایک ایسے ہی نوجوان محمد شہزاد سے ملاقات کرواتے ہیں جو لوکل ٹرینوں میں پھیری کر کے مختلف اشیاء فروخت کرتے ہیں اورمعمولی نفع پر زیادہ اشیاء سیل کرنے کے قائل ہیں وہ گاہکوں کو اپنے اخلاق اور خوش کن طرز گفتگو سے اپنی جانب متوجہ کرلینے کے ہنر سے اچھی طرح واقف ہیں۔۳۲؍سالہ محمد شہزاد محمد عثمان کا تعلق مغربی یوپی کے غوث پور کوتوالی سے ہے جوضلع بجنور میں واقع ہے خوبصورت باریش چہرہ اور متناسب قدوقامت والے محمد شہزاد بادی النظر میں کسی دینی ادارے کے مدرس یا طالب علم لگتے ہیں۔چار بچوں اور والدین کی کفالت ان کے ذمہ ہے جسے وہ بہت خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔پندرہ برسوں سے اس پیشے سے وابستہ محمد شہزاد اپنی زندگی اور لوکل ٹرین کے مسافروں کے درمیان ہونے والے مختلف النوع تجربات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شروع کے دنوں میں انہیں داڑھی اور مسلمان ہونے کے عوض بڑی پریشانیاں اٹھانی پڑتی تھیں اکثر غیر مسلم حضرات نہ جانے کیوںان کے حلیئے سے بدکتے تھے اوربعض اوقات ان کی ترچھی نگاہیں جسم وجاں میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں اور یہ سب کچھ محض احساس پرمبنی ہوتا تھا بس محسوس کرلیںاور لب سی لیں لیکن دھیرے دھیرے اخلا ق حسنہ اور خوش گفتاری کا جادو سب پر فاتح بن بیٹھا ۔آج وہی مسافرمیٹھی نگاہوں اور پیار بھرے ماحول میں باتیں کرتے ہیں۔کاروباری طور پر پوری طرح سے مطمئن نظرآنے والے شہزاد کے عزائم بچوں کے تعلق سے بہت بلندنظرآتے ہیں وہ اپنے بچوں کو دینی اور بنیادی تعلیمات سے پوری طرح روشنا س کراناچاہتے ہیں۔کیوںکہ انہیں یقین کامل ہے کہ ا سطرح سے وہ بچوں میں شعوروآگہی ،حق پرستی دین داری اور تہذیب وعقل کے ساتھ بہترین طرز معاشرت کی خصوصیات پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جن کی فی زمانہ بہت زیادہ ضرورت ہے۔شہزاد صبح ۱۰؍بجے ہی کام پرنکل جاتے ہیں اوراکثررات کے گیارہ بارہ بجے تک لوٹتے ہیں روزانہ بارہ تیرہ گھنٹے مسلسل کام کے بعد وہ جو کچھ حاصل کرتے ہیں ان کے مطابق وہ سب کے سب رزق حلال ہی ہوتا ہے جس سے وہ خود اپنی اور اپنے تمام متعلقین کی کفالت کرتے ہیں ۔خیروبرکت اور اللہ کے کرم کا یہ حال ہے کہ اس ہوش ربا گرانی کے باوجودوہ کچھ نہ کچھ پس انداز بھی کرلیتے ہیں۔بیوی بچے سبھی افراد وطن میں ہیں اپنے ساتھ رکھنے کے لیے سردست گھر بہت ضروری ہوتا ہے جو موجودہ صورتحال میں اورخاص کر ممبئی جیسے شہر میںسب سے مشکل مرحلہ ہے او ربچت کے نقطۂ نظر سے بھی دیکھا جائے توممبئی میںقیام کے بعدبچت تقریباً معدوم ہوجاتی ہے۔ملک کی موجودہ صورتحال سے وہ قطعاً مطمئن نہیں ہیں جس کا ذمہ دار وہ سیاسی لیڈران اور انتظامیہ کو گردانتے ہیں ان کے مطابق اگر یہ لوگ سچائی کی را ہ اختیار کرلیں اور عدل وانصاف کے قیام پر کمر بستہ ہو جائیں تویہ ملک ایک بار پھر سونے کی چڑیا بن سکتا ہے۔ان کے مطابق عدل وانصا ف کی برتری کے لیے اسلامی نظام قانون سے تعاون حاصل کرنے کی ضرورت ہے کیوںکہ سابقہ تمام تجربات اوران کی ناکامی اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے کہ اسلامی قوانین ہی ان تمام جرائم اور معاشرتی بدعنوانیوںکا خاتمہ کر سکتے ہیں کیوںکہ اسلامی قوانین میں موجودہ صورتحال سے مردانہ وار مقابلہ کرنے کی بھرپورطاقت وصلاحیت موجودہے۔کاروباری سطح پر کامیابی یاناکامی کے تعلق سے انہوںنے کہاکہ آج مسلمانوں میں یہ نظریہ بھی پنپ رہا ہے کہ وہ کاروباری سربلندی کے لیے اپنی اسلامی شناخت چھپاتے ہیں انہیں اس عقیدہ کومزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ روزی دینے والا صرف اللہ ہے اوربس ۔ہمیں لالچ میں اندھا ہونے کی ضرورت نہیں او رنہ ہی اپنی اسلامی شناخت چھپانے کی یہ کمزور عقیدہ ہمیں دینی اور معاشرتی دونوںسطح پر تباہ وبرباد کر سکتا ہے۔
vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 106226 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.