الزام تراشی کا کلچر

پاکستان کی اعلیٰ عدالت کے جج اور چیف جسٹس اکثر حکمرانوں کو کبھی واضح طور پر اورکبھی مخمل میں لپیٹ کر، کبھی کسی طرح کبھی کسی طرح ان کی کوتاہیوں ، غلطیوں اور اہم امور پر ان کی عدم دلچسپیوں کی نشاندھی کرتے رہتے ہیں۔ ہفتہ 7مئی کو پاکستان کی اعلیٰ عدالت کے چیف جسٹس محترم انور ظہیر جمالی نے قانون کی تعلیم کے موضوع پر کراچی میں سیمینار سے خطاب میں ملک کے اساسی ایشوز کی جانب توجہ دلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی فرائض نبھا نا نہیں چاہتا، قانون پر عمل درآمد صرف عدلیہ کی ذمہ داری نہیں ، الزام تراشی کا کلچر پروان چڑ رہا ہے، بنیادی اور اہم معاملات پر متفقہ لائحہ عمل تیار نہ کرنا ملک کا سب سے بڑ المیہ ہے‘۔ جناب چیف جسٹس کہا کہنا تھا کہ ’ہم نے بحیثیت قوم منفی سوچ کی روش اپنا رکھی ہے جس کی بناء پر بنیادی معاملات پر متفقہ فیصلے نہیں ہوپتے۔ آج ملک میں ایک دوسرے پر الزام لگانے کا چلن عام ہے ہر شخص حقوق کی بات کرتا ہے لیکن اپنی ذمہ داریاں اور فرائض نبھا نے کو تیار نہیں‘۔ جناب چیف جسٹس کی باتوں میں ایک اہم پیغام تھا انہوں نے قوم کے ہر فرد کو تو پیغام دیا ہی لیکن ان کی باتوں میں حکمرانوں کے لیے خاص پیغام پوشیدہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت ہمارے سیاست داں سوائے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے کچھ اور نہیں کر رہے ۔ ایک سیاست داں دوسرے پر بغیر ثبوت اور شواہد کے الزام لگانے میں دیر نہیں لگا رہا، جو جی میں آتا ہے ایک دوسرے پر الزام کھلے عام لگا ئے جارہے ہیں۔ جب ان سے ثبوت کی بات کی جاتی ہے تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔ فرماتے ہیں ثبوت دینا حکومت کا کام ہے ،گویا ان کا کام صرف مخالفین پر بے پر کے الزام لگانا ہے ، ان کی جانب سے ثبوت حکومت فراہم کرے، گویا حکومت کو کوئی اور کام نہیں ، ہماری حکومت کون سا کسی سے پیچھے ہے وہ بھی ، سیاست کے اس تالاب میں سب ہی ایک جیسے ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے درست فرمایا کہ’ مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے ملکی آبادی پر توجہ دینا ہوگی‘۔ جب کہ صورت حال یہ ہے کہ حکومت کی توجہ ملک کے عوام کے علاوہ ہر چیز پر ہے، لوگ مر تے ہیں تو مریں، انہیں مہینوں تنخواہیں نہ ملیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، پڑھ لکھ کر نوجوان بے روزگار پھرتے ہیں ، کوئی پروا نہیں،نہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی فکر، نہ لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی پروا، مہنگائی کا جن بے قابو ہورہا ہے ہوتا رہے ، عوام کی بھلائی کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں، مردم دشماری کو کسی نہ کسی ہیلے بھانے ملتوی کرتے رہنا ، مردم شماری ہوگی تو نئے اعداد و شمار سامنے آجائیں گے ان اعداد و دشمار کے مطابق کام کرنا پڑے گا اس لیے مردم شماری ہی نہ ہونے دو تاکے کام ہی نہ کرنا پڑے۔ ملک قرضوں تلے دبے چلے جارہا ہے، عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے لینا ، خواہ شرائط کچھ بھی ہوں ، متعلقہ وزیر کی خصوصیت اوراعلیٰ صلاحیت تصور کی جاتی ہے۔ جب بھی قرض کی قسط منظور ہوتی ہے تو وزیر ِ خزانہ شاباش وصول کرتے ہیں۔ قرض کے حوالہ سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں،بلکہ ہر کالم نگار اس موضوع پر لکھتا رہا ہے۔ یاد کریں 2013ء کی انتخابی مہم ، میاں صاحب اپنی انتخابی تقریروں میں گلا پھاڑ پھاڑ کر اعلان کیا کرتے تھے کہ وہ حکومت میں آکر غربت کا خاتما کردیں گے، غریب کو مشکلات سے نجات دلائیں گے، ملک کو قرضوں سے نجات دلائیں گے ، کشکول توڑ دیں گے، بھیک نہیں مانگے گے، اپنے وسائل پر بھروسہ کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ تین سال کی حکمرانی میں یہ تمام باتیں کہیں دکھائی نہیں دیں۔ میاں صا حب کہا گیا آپ کا منشور، کیا ہوئے آپ کے وعدے غربت کو ختم کرنے کے، غریب کی مشکلات کو دور کرنے کے، کہاں گیا آپ کا وعدہ کہ آپ کشکول توڑ دیں گے۔ آج سب کچھ ویسا کا ویسا ہی ہے۔ نہ غربت ختم ہوئی، نہ غریب کی مشکلات میں کمی آئی، نہ کشکول ہاتھ سے چھوٹا ، نہ قرض لینے کے عادت گئی، نا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی عادت گئی ۔ وزیر خزانہ قرض حاصل کرنے کے ایکسپرٹ ’ماہر حصولِ قرضہ جات ‘ بن چکے ہیں ۔ انہوں نے ایسے گُر سیکھ لیے ہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک قرض کی منظوری میں ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکر قرض کی اگلی قسط کی منظوری دے دیتے ہیں۔کیونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جو قرض وہ دے رہے ہیں وہ کئی گنا ہوکر واپس انہیں کے پاس آجائیگا، وزیر خزانہ ، اپنے سمدھی وزیر اعظم پر ایک اور احسان داغ دیتے ہیں کہ دیکھو سمدھی جی میں اس باربھی قرض حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیااور شاباش وصول کرتے ہیں۔

قوم کو یاد ہوگا کہ ایک مرتبہ گورننس کو بہتر بنانے کامشورہ ہمارے حکمرانوں کی نازک طبیعت پر کتنا گراں گزرا تھا ۔اس بیان پر حکومتی ترجمان کی جانب سے بیان آیا تھا کہ ’ادارے آئین کی حدود میں رہیں‘ ، گویا اچھی گورننس کا مشورہ دینے والوں کواپنی حدود میں رہنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ افواج پاکستان نے حکومت سے صرف اتنا کہا تھا کہ حکومت اپنی حکمرانی میں بہتری لائے۔ہمارے حکمراں کسی کی اچھی بات کو اپنے لیے تنقید تصور کرتے ہیں۔ اعلیٰ عدالت کے سابق چیف جسٹس نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ دیا تھا ، حکومت نے اس پر کیا کیا؟ موجودہ چیف جسٹس نے بھی اس امرپر افسوس کا اظہار کیا کہ’ قیام پاکستان کو سات دہائیاں ہونے کا آئیں مگر اب تک قومی زبان سرکاری زبان اور ذریعہ تعلیم کے طور پر نافذ نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے عدالتی نظام کو بھی جلد از جلد قومی زبان اردو میں منتقل کرنا اور پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی قانون کی تعلیم قومی زبان میں دیئے جانے کا اہتمام کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس صاحب کے خیالات سے اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں، اس سے قبل بھی اعلیٰ عدالت کی جانب سے ہی اردو کے حق میں فیصلہ آیا تھا، اب بھی اعلیٰ عدالت نے اردو کے نفاذ کی بات کی ، عمل درآمد ذمہ داری ہے حکومت کی اور ہماری حکومت ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسا کھیل کھیلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ملک کی ترقی کا پہیہ رکا رہتا ہے باقی سب کام ہورہے ہوتے ہیں۔ آجکل پاناما لیکس نے حکومت کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے،کبھی دھرنے، کبھی جلوس، کبھی جلسے حکومت کو کچھ کرنے ہی نہیں دیتے۔ مشورہ دینے والے ہیں کہ مشورے ریے جارہے ہیں، حکومت کے لیے سب مشورے بے سود اور بے کار ہیں ۔ سیاست داں پہلے اپنے بھلے کی سوچتا ہے، پھر کچھ اور۔چیف جسٹس محترم انور ظہیر جمالی کی اس بات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں الزام تراشی کا کلچر تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا کے کردار کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ الیکٹرنک میڈیا پر زیادہ ذمہ داری اس لیے ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر کہی ہوئی بات، نشر شدہ خبر، دکھائی جانے والی صورت حال کا اثر بہت جلد ہوتا ہے۔ حالت کیسے ہی کیوں نہ ہوں حکمرانوں پر بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ ملک میں بڑھتے ہوئے الزام تراشی کے کلچر کو روکے، از خود اس کا حصہ نہ بنے، سیاست داں بھی عقل و شعور اور سمجھداری کا ثبوت دیں، سستی شہرت، وقتی مشہوری کی خاطر مخالفین پر بے سروپا الزامات لگانے سے گریز کریں۔ حقیقت ایک نہ ایک دن عیاں ہوہی جاتی ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438028 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More