یہ مساوات اور میرٹ کو ترجیح دینے والے
معاشرے کی کہانی ہے۔جہاں پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کی زوردار انتخابی مہم
بھی ان کے سابق برادرنسبتی کو شکست سے نہ بچا سکی۔ ان کی زہریلی مہم، بے
شمار دولت بھی ان کے کچھ کام نہ آ سکی۔ ارب پتی کا بیٹا اورجمائما کا بھائی
زیک گولد سمتھ بر سر اقتدار کنزرویٹو پارٹی کے امیدوار تھے۔ لیکن لندن کے
عوام نے انہیں کیوں مسترد کردیا۔ یہ لندن کا امیر ترین یہودی خاندان ہے۔
عمران خان اس خاندان کے سابق داماد رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے سابق برادر
نسبتی کے لئے لند ن میں انتخابی مہم چلائی۔ ان کے لئے چندہ جمع کیا۔ ان کے
گھر رہائش اختیار کی۔ ان کو ووٹ دینے کی اپیلیں جاری کیں۔ کارنر میٹنگز میں
شرکت کی۔ عمران خان نے ایک پاکستانی کے مقابلے میں ایک ایسے یہودی امیدوار
کو ترجیح دی۔ جس نے کھل کر کردار کشی کا سہارا لیا۔یہی نہیں بلکہ اس کے مد
مقابل پاکستانی نژاد امیدوارپر مسلم انتہا پسندی ، دہشت گردی کا الزام
لگادیا۔ انہیں مسلم ریڈیکل قرار دیا۔ پھر بھی پاکستانی محنت کش کے بیٹے نے
کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیئے۔ اس کا کریڈٹ لندن کے ووٹر کو جاتا ہے۔
ارب پتی یہودی کو شکست فاش سے دوچار کرنے والے صادق خان ایک غریب خاندان سے
تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد نے پاکستان سے لندن ہجرت کی۔ 25سال تک لندن میں
بس ڈرائیور رہے۔ یہ محنت کش عظیم لوگ ہوتے ہیں۔ محنت و مشقت کرنے میں کوئی
ہتک نہیں۔ یہاں کوئی چھوت چھات نہیں۔ورنہ کامیابی کا کوئی تصور نہیں کیا جا
سکتا۔ صادق خان کو فخر ہے کہ ان کے والد بس ڈرائیور تھے۔ وہ کوئی بڑے
جاگیردار، زمیندار نہ تھے۔ کسی کا خون پینے والے نہ تھے۔ حرام کمائی پر
پرورش نہیں پائی۔ بلکہ محنت کی۔ خون پسینہ ایک کیا۔ کبھی ہمت نہ ہاری۔ صادق
خان نے ایک مثال قائم کر دی ہے۔ یہ لندن کے عوام کی میرٹ پسندی ہے۔ انہوں
نے دولت کے مقابلے میں قابلیت کو ترجیح دی۔ ایک طرف پاؤنڈ کی بارش تھی۔ اور
دوسری طرف غربت ۔مگر عوام نے دولت کو مسترد کر دیا۔
صادق خان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا۔ کراچی کو اپنا مسکن
بنایا۔ پھر لندن ہجرت کی۔ یہاں نوجوانی میں ہی ایک لاء فرم میں شراکت
داربنے۔ وکالت میں نام کمایا۔ انہیں ہمیشہ فخر رہا کہ وہ ایک بس ڈرائیور کے
بیٹے ہیں۔ غیرت مند قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر صادق خاندان کسی پسماندہ
ملک میں اس طرح الیکشن لڑتے تو ان کے لئے کامیابی کا تصور بھی غلط تھا۔
پہلے تو انہیں کسی قومی پارٹی کا ٹکٹ ملنا ہی مشکل تھا۔ بلکہ ناممکن بات
تھی۔ یہاں تو پارٹی امیدواروں کی اہلیت ہی دولت ہوتی ہے۔ یہی معیار ہے۔
کوئی جاہل ہو، معاشرے کا انتہائی گھٹیا شخص ہو ، اگر دولت مند ہے اور ٹکٹ
کے لئے قیادت کو کروڑوں روپے دے سکتا ہے تو پھر اس کا ٹکٹ کنفرم ہے۔ دوسری
طرف رات دن پارٹی پر مرنے والا ہے۔ جلسے جلوس اس کے دم خم سے ہیں۔ نعرے
بازی میں اس کا کوئی چانی نہیں۔ اپنا سب کچھ اس نے پارٹی پر قربان کر دیا۔
مگر یہ کوئی معیار نہیں۔ اگر اس کے پاس ٹکٹ خریدنے کا پیسہ نہیں تو پھر وہ
نا اہل ہے۔ ترقیافتہ معاشروں میں سب اس کے برعکس ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان کی
منزل دولت مندی نہیں۔ وہاں کارکن کی عزت ہے۔ لندن کے عوام نے ثابت کر دیا
کہ ان کے سامنے میرٹ ہی کی اہمیت ہے۔ دولت کو وہ ٹھکرانے میں زرا دیر نہیں
لگاتے۔ اس کے لندن کے عوام کا ہمیں شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔
لندن کے عوام نے صادق خان کے سیاسی مخالفین کی ایک نہ سنی۔ انہیں گمراہ
کرنے کی کوشش کی گئی۔ صادق خان کا تعلق دہشت گردوں کے ساتھ جوڑا گیا۔ انہیں
دہشت گردوں کا سرغنہ قرار دیا گیا۔ صادق خان ہم جنس پرستی کے بھی حامی رہے
ہیں۔ وہ لبرل ہیں۔یہ موقف اسلام سے متصادم ہے۔ کیوں کہ قدرت کو چیلنج نہیں
کیا جا سکتا۔گو کہ ان کا اپنا گھر بھی نہ تھا۔جنوبی لندن کے ٹوٹنگ علاقہ
میں کونسل فلیٹ میں رہائش تھی۔ سرکاری سکول میں تعلیم حاصل کی۔ صادق خان کے
بارے میں ہندو، سکھ، تامل ووٹروں کو پیغامات دیئے گئے کہ وہ خطرناک ہیں۔ جب
وہ انسانی حقوق کے وکیل تھے، انھوں نے انتہا پسندوں کا بھی دفاع کیا۔ عمران
خان نے بھی صادق خان پر الزامات لگانے میں کسی کنجوسی سے کام نہ لیا۔ عمران
خا ن کے الزامات بھی ہتک آمیز تھے۔ یہ نسلی تعصب کو ہو ادے رہے تھے۔ عمران
خان نے پاکستان کی سیاست لندن میں استعمال کی۔ یہی دولت کی سیاست۔ برادری
ازم کا پرچار۔ اپنی سابق بیوی کے بھائی، اپنے بچوں کے ماموں، برادرنسبتی کو
ایک ذہین اور اہل پاکستانی پر ترجیح دی۔ قومی مفاد کے بجائے رشتہ دارکا
ساتھ دیا۔ یہ ہر کسی کی اپنی مرضی ہے کہ وہ جس کی چاہے حمایت یا مخالفت کرے۔
تا ہم عمران خان ابھرتے ہوئے قومی رہنما ہیں ۔ اس لئے وہ زیر بحث آ گئے۔
برادری ازم، علاقہ پرستی بھی کرپشن ہے۔ یہ نسل پرستی ہے۔ یہ انسان کو اندھا
کر دیتی ہے۔ ایسے شخص کو اپنی زات برادری، علاقے، قبیلے، فرقے والا ہی اچھا
نظر آتا ہے۔ دوسراکتنا ہی اہل ہو، اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ یہی عقل کے اندھے
لوگ ہوتے ہیں۔ جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہیں۔ وہ دوسروں کی اچھائیوں کو
قبول نہیں کرتے۔ یہ متعصب اور بدترین لوگ ہوتے ہیں۔ جو دوسروں کی اچھائیوں
کو بھی برائی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ نفرتیں پھیلاتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیں
ہر جگہ مل جائیں گے۔ مگر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم دوسروں پر تنقید کرنے
کے بجائے اپنی اصلاح کریں۔ خود سدھر جائیں۔ شروعات اپنے نفس سے کریں۔ پھر
اپنے اہل خانہ، دوست احباب، محلے کو دیکھیں۔
ہم غیر مہذب کیوں بنتے ہیں۔ کیوں کہ ہم میں برداشت کی کمی ہے۔ ہم میں اتنی
ہمت اور غیرت نہیں ہوتی کہ ہم رواداری کی بات کریں۔ دوسرے کی بات غور سے
سنیں۔ دوسرے کی رائے کو بھی اہمیت دیں۔ ہمارے اندر بھی ڈکٹیٹر بیٹھا ہوا ہے۔
ہم حقائق سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ مگر لندن کے عوام نے صادق خان کو
پسند کیا۔ ان کا خاندانی پس منظر بھی انہیں معلوم تھا۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ
پسماندہ فیملی ہے۔ والد لندن کی سڑکوں پر بس چلا رہے ہیں۔ مگر یہ ترقیافتہ
معاشرے ہیں۔ یہ صفائی والے، دھوبی، محنت کش، نائی، موچی، ترکھان، مستری کو
عزت دار، خاندانی سمجھتے ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ آگے جا رہے ہیں۔ترقی کر رہے
ہیں۔ خوشحالی اور کامیابی کی طرف جا رہے ہیں۔ اب زمین سے آگے دوسرے سیاروں
پر بسنے کی فکر میں ہیں۔
لندن پر 8سال سے کنزر ویٹو پارٹی والے حکومت کر رہے تھے۔ اب لیبر سٹی ہال
میں داخل ہو چکے ہیں۔ لیبر کو سکارٹ لینڈ، انگلینڈ اور ویلز میں شکست ہوئی۔
مگر لندن میں انھوں نے میدان مار لیا۔پہلا جنوبی ایشیائی اور پہلا مسلمان
لندن کا میئر بن کر یہاں کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔آج یورپ
اور مغرب میں مسلمانوں کے خلاف نفرتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ ہی
نہیں بلکہ اس قبیل کے بہت لوگ سر گرم ہیں۔ایسے میں صادق خان کی ان حالات
میں کامیابی انتہائی اہم ہے۔ یہ ہوا کا ایک تازہ جھونکا ہے۔ جس سے فضا مہک
اٹھی ہے۔ توقع ہے کہ وہ اب لندن کے شہریوں کی یکساں بلا امتیاز خدمت کریں
گے۔ |