جنرل بخشی کی کھری کھری اوربھارت نوازوں کی بے بسی

16اپریل 2016ء کو سہ پہرپانچ بجے سے لیکر چھے بجے تک ’’ذی نیوزٹیلی ویژن چینل‘‘ پر ایک مباحثے کا آغاز ہوا جس میں خاتون اینکر کے علاوہ کانگریس اور بی جے پی کے نمائندوں کے علاوہ بھارتی فوج کے رٹائرڑ جنرل بخشی اور پی ڈی پی کے محمد دلاور میر شامل تھے ۔موضوع تھا ہندواڑہ ہلاکتوں کے نتیجے میں پیدا شدہ نئی صورتحال ؟جنرل بخشی نے ہندواڑہ میں فوج کے ہاتھوں نہتے شہریوں پر فائرنگ کا یہ کہتے ہو ئے دفاع کیا کہ مشتعل ہجوم نے بینکر کو آگ لگا کر دو فوجیوں کو زندہ جلانے کی کوشش کی تو کیا وہ اپنے دفاع کے لئے گولی نہیں چلاتے ؟اس کے علاوہ جنرل بخشی نے یہ بھی کہا کہ کشمیر میں ’’بالائے زمین جہادی‘‘حالات کو خراب کرنے کی تاک میں بیٹھے ہو تے ہیں اور ان جیسے واقعات کو جنم دیکر وہ بھارتی فوج کو بدنام کرتے ہیں ۔جنرل بخشی نے مباحثے میں شریک پی،ڈی،پی رہنما محمد دلاور میر پر نشانہ سادھتے ہو ئے کہا کہ حکومت اس لئے حالات خراب کرنے والے عناصر پر ہاتھ نہیں ڈالتی ہے کہ گذشتہ اسمبلی چناؤ میں انہی عناصر نے پی ،ڈی،پی کی بھرپور مدد کی اور اب انھیں کھلی ڈھیل دیکر ان کا احسان چکا رہی ہے ۔جنرل بخشی نے این ،آئی،ٹی اشو پر بھی کشمیری طلباء اور پولیس کو ذمہ دار قرار دیتے ہو ئے کہا کہ کشمیر کے جتنے کے طالب علم ہندوستان کی ستائیس ریاستوں میں زیر تعلیم ہیں انھیں یہاں کوئی پریشان نہیں کرتا ہے بلکہ انہیں یہاں ہم ہر جگہ تحفظ فراہم کرتے ہیں ۔کانگریسی نمائندے کو چند ایک منٹ سے زیادہ بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی مگر بی ،جے،پی نمائندے نے ’’ہونا چاہیے اور نہیں ہونا چاہیے‘‘کی تکرار کے سواء کوئی با معنی بات نہیں کی ۔

محمد دلاور میر نے ہندواڑہ سانحہ کو این ،آئی،ٹی کے ساتھ نتھی کرتے ہو ئے جب جنرل بخشی سے پوچھا کہ آخر آپ کو ہر جگہ اور ہر سانحہ کے پیچھے ’’جہادی عناصر‘‘ہی کیوں نظر آتے ہیں تو جنرل صاحب غصے سے لال پیلا ہو کر دلاور میر پر برس پڑے اور انتہائی درشت لہجے میں فرمانے لگے ’’مسٹر دلاور میر جس دن فوج کشمیر سے ہٹ جائے گی اسی دن یہ لوگ آپ سب کو مار دیں گے ،یہ صرف فوج ہے جن کے بل بوتے پر آپ کشمیر میں ٹکے ہو ئے ہو‘‘۔دلاور میر جنرل صاحب کے اس زہریلے تیر سے سنبھل نہیں پائے اور ان سے اس اچانک خوفناک سچائی کا سامنا کرنے میں ’’نہ ہاں اور نہ ناں‘‘میں جواب بن پائے ۔دلاور میر ہی نہیں بلکہ پوری ہندنواز کشمیری لیڈر شپ اس سچائی سے دل ہی دل میں معترف ضرور ہے پر اس کا ایک رٹائرڈ نامور فوجی جنرل کی زبانی اس طرح براہ راست نشریات میں سننے سے انھیں سبکی ہی نہیں ہوئی بلکہ اس نے ان کو ایک طرح کی جھنجھلاہٹ میں بھی مبتلا کردیا ۔حق یہ ہے کہ آن آئر براہ راست نشریات میں شاید کسی اتنے بڑے ذمہ دار شخص نے کبھی بھی ہندنواز لیڈر شپ کے منہ پر اتنی سچی اور حقیقت پر مبنی بات کہتے ہو ئے انھیں ان کی اوقات یاد دلائی ہو ۔

جنرل صاحب کے ان ارشادات میں کئی اہم باتیں قابل بحث ہیں ۔پہلی بات یہ کہ کیا کشمیر کے حالات ہر وقت ’’بالائے زمین جہادی عناصر‘‘ہی بگاڑ دیتے ہیں ؟ہندواڑہ ہی کے تازہ سانحہ کو لے لیجئے !کیا اس کی تخلیق میں کسی بھی طرح جہادی عناصر ملوث ہیں ؟یہ الفاظ اپنی پاک دامنی پر آپ ماتم کناں ہیں۔ایک نابالغ طالبہ بیت الخلاء بشری تقاضے کے لئے داخل ہو گئی اس نے باہر فوجی کو کھڑا دیکھ کر شور مچایا ،آس پاس موجود طلباء اور دوکاندارجمع ہو گئے اور انھوں نے بھاگتے فوجی کو پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہو ئے لڑکی کو پولیس کے حوالے کرنے کی کوشش کی ۔جہاں پولیس کی نااہلی نے صورتحال کو خوفناک حد تک بگاڑا اور موقع پر دو نوجوان گولیاں لگنے سے شہید ہو گئے اتنا ہی نہیں کھیت میں کام کرتی ایک معمر خاتون ٹائر گیس شل لگنے سے زخمی ہو کر جان بھر نہ ہو سکی وہ بھی شہید ہو گئی ۔نتنوسہ میں پر امن احتجاج کرنے والے لوگوں پر گولیاں چلا کر ایک طالب علم کو شہید جبکہ تین کو زخمی کردیا گیا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان سبھی سانحات میں جن جہادی عناصر کی جنرل صاحب بات کرتے ہیں وہ کہاں سے اس میں در آئے ؟جنرل صاحب جیسے زیرک انسان کو یہ بھی یاد ہوگا کہ 2008ء ،2009،اور 2010ء کے خونین برسوں کے خوفناک رخ تک لے جانے میں بھی کسی جہادی زیر زمین یا بالائے زمین فرد کو کوئی ہاتھ نہیں تھا ۔2008ء میں ریاست گیر احتجاجی لہر تخلیق کرنے میں امرناتھ شرائین بورڈ کو غیر قانونی طور پر زمین فراہم کرنے میں ڈاکٹر ارن اور حکومتِ کشمیر کی خاموش تائید ذمہ دار تھی !کوئی جہادی فرد نہیں ۔ 2009ء میں آسیہ و نیلوفر کیس کو کشمیر پولیس نے غلط طریقے سے ہینڈل کیا نتیجہ یہ نکلا کہ وادی دوسرے سال پھر اُبل پڑی یہاں بھی ڈھونڈنے سے کوئی جہادی عنصر نظر نہیں آتا ہے ۔ 2010ء میں مژھل فرضی انکاؤنٹر نے وادی کشمیر میں آگ لگادی تو بھروقت علاج کے بجائے پولیس اور انتظامیہ حماقتوں پر حماقتیں کرتی رہی نتیجہ آج ہمارے سامنے ہیں ۔ 2013ء میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے ’’خون کے پیاسے بھارتی اجتماعی ضمیر کے اطمینان ‘‘کے لئے بے گناہ کشمیری مسلمان ا فضل گورو کو پھانسی پر لٹکا کر کشمیریوں کا پورا سال برباد کر دیا ۔ 2014ء سیلاب کے نذر ہو گیا ۔2015ء میں کئی ہلاکتوں اور زخموں کے باوجود ہلکا سا اطمینان نصیب ہوامگر 2016ء میں پہلے گورنر راج پھر ہندواڑہ ہلاکتیں ،کیا ان سانحات کی تخلیق میں کہیں بھی جہادی عناصر ملوث ہیں ؟یا یہ حسب روایت ہر سانحہ میں کشمیریوں کو بد نام کرنے کی قدیم مہم کی ایک کڑی ہے ؟

ہندواڑہ سانحہ میں ایک معصوم لڑکی کوبد نام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا ! اس طرح کے مسائل بھارت بھر میں پیش آتے ہیں ۔ان کی عزت نفس اور تقدس کے تحفظ میں کسی بھی ادارے سے کوئی غلطی سرزد نہیں ہوتی ہے برعکس اس کے جب بھی کشمیراور کشمیریوں کی بات آتی ہے تو معاملہ ’’قومی مفاد‘‘کا روپ دھار کر ہر باعزت بے عزت اور ہر متنفس ناقابل برداشت قرارپاتا ہے آخر کیوں؟لڑکی کا بیان کیوں ریکارڈ کیا گیا جو بغیر کسی مجسٹریٹ کے لینا جرم ہے ۔پھر اس کو سوشل میڈیا پر کیوں لوڈ کیا گیا؟اور بلا روک ٹوک اور شناخت چھپائے تمام ٹیلی ویژن چینلز کو کیوں بھیجا گیا ؟لڑکی کی ماں کے بقول لڑکی سے بالجبر یہ بیان دلوایا گیاآخر کیوں؟کشمیر پولیس کی شرافت و تہذیب سے یہاں کون واقف نہیں ہے آخر کس قانون کے تحت ’’قانون کے رکھوالے‘‘ہی ایسا کرتے ہیں ؟فرض کیجیے اگر یہی کچھ کوئی جہادی،حریتی یا اسلام پسند تو درکنار مین اسٹریم لیڈر یا فرد کرتا اور اس پر اتنا بوال آتا تو ’’کشمیریوں کے تحفظ کے نام نہاد علمبردار‘‘ادارے اور بھارت بھر کی ٹیلی ویژن چینلز کیا کرتی ؟یقیناََ لگاتار خبروں اور تجزیوں نے کہرام مچایا ہوتا۔ المیہ دیکھئے ہندواڑہ میں ایک واقعہ میں ملوث اہلکاروں کی نشاندہی کے بجائے پورا زور اس میں لگایا جارہا ہے کہ کسی طرح یہ ثابت ہو جائے کہ ’’ہنگامہ ‘‘برپا کرنے میں ’’بالائے زمین جہادی عناصر‘‘کا ہاتھ تھا اور جو لوگ گولیوں سے جان بحق ہو گئے وہ گولی سے مارے جانے کے قابل تھے!اسے بڑھکر شہداء کے ورثاء کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی ناکام اور نامراد کوشش اور کیا ہو سکتی ہے ؟۔

ذی نیوز کے گھنٹہ بھر کے پروگرام میں ششدر کردینے والی بات جنرل بخشی کی یہ تھی کہ ’’مسٹر دلاور میر جس دن فوج کشمیر سے ہٹ جائے گی اسی دن یہ لوگ آپ سب کو مار دیں گے ،یہ صرف فوج ہے جن کے بل بوتے پر آپ کشمیر میں ٹکے ہو ئے ہو‘‘ اس بات کوجنرل بخشی کی ’’سہو لسان‘‘بھی قرار نہیں دیا سکتا ہے اس لئے کہ دلاور میر کے حیرت بھرے توجہ دلانے کے باوجود بھی جنرل بخشی غصے میں اپنے بات پر قائم رہے ۔حقیقت بھی یہی ہے کہ کشمیر کی ہندنواز سیاست دانوں کی پشت پر فوج ہے اور جس روز یہ پشت پناہی ختم ہوگی ان کے لئے کشمیر میں ٹکنا ناممکن ہوگا، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اتنی بڑی حقیقت اتنے بڑے چینل پر سننے کے باوجود بھی مین اسٹریم سیاستدان اس کو تسلیم کرتے ہو ئے کبھی خالص کشمیری بن کر ’’کشمیر اور کشمیریوں ‘‘کے مفادات کے لئے کسی مشترکہ ایجنڈا پر کام کریں گے ؟ کبھی نہیں ۔کیوں؟ اس لئے کہ انھوں نے اپنا سب کچھ اقتدار اور کرسی پر قربان کردیا ہے ۔یہ لوگ ہر چھے برس بعد نمودار ہو کر حیلوں بہانوں سے ووٹ بٹورتے ہو ئے اگلے چھے برس کے لئے کشمیر یوں کے لئے غائب ہو جاتے ہیں ۔ الیکشن کے قریبی دور میں انھیں کشمیر ،مسئلہ کشمیر ،کشمیریت،افسپا کی آڑ میں ظلم ،پبلک سیفٹی ایکٹ،ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ،حریت لیڈروں پر قدغن ،مذاکرات کی ضرورت ،قیدیوں کی رہائی ،لاپتہ افراد کی باز یابی ،کشمیر کی ڈانواڈول معیشت ،کشمیر کو سوئزر لینڈ بنانے کے خواب ،کشمیریوں کی پامال شدہ عزت نفس اور اس کی بحالی کے میٹھے بول یاد آتے ہیں ۔جوں ہی یہ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے جاتے ہیں تو پھر نہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کوئی آواز سنائی دیتی ہے اور نہ ہی عوام کے غالب رجحان کو تسلیم کرنے کی سچائی کے سامنے سرِ تسلیم خم !جنرل بخشی سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے مگر دلاور میر سے ان کی کہی ہوئی بات ایک سو فیصد سچ ہے۔
altaf
About the Author: altaf Read More Articles by altaf: 116 Articles with 84155 views writer
journalist
political analyst
.. View More