پاکستان سے ہزاروں کلو میٹر دور جا کر اپنے
اور اپنے پیارے پاکستان کے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لیے دن رات محنت کرنے
اور قیمتی زر مبادلہ پاکستان بھیجنے والے پاکستانی کیا سوچتے ہیں اور
پاکستان کے موجودہ حالات کو کس تنظر میں دیکھتے ہیں اس حوالے سے سعودی عرب
،دبئی میں مقیم چند پاکستانیوں کے جذبات اور احساسات قلمبند کیے ہیں امید
ہے کہ حکومت وقت اور اپوزیشن راہنما انہیں ’’پلے ‘‘ بانھنے کی کوشش کریں گے
۔ہمارے ایک بہت ہی مہربان دوست شیخ محمد اقبال صاحب ہیں ،کافی سالوں سے
بیرون ملک میں ہیں۔ وہاں کاروبار کرتے ہیں اور قیمتی زرمبادلہ پاکستان بھیج
کر قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔وقتا فوقتا پاکستان آتے رہتے ہیں ۔
دوسرے ہم وطنوں کی طرح وہ بھی وطن عزیز کے بارے میں تشویش میں مبتلا رہتے
ہیں اور وہ دیگر محب وطن پاکستانیوں کی طرح جمہوریت کے تسلسل کے ذریعے کسی
بہتری کی تلاش میں رہتے ہیں۔ شیخ اقبال راول صاحب اب کی بار پاکستان آئے تو
مجھے بھی میرے گھر واقع شرقپور شریف سے اپنے ساتھ گاڑی میں لاہور لے آئے ۔
دوران سفر انہوں نے انگنت سوالات میرے آگے ڈھیر کردئیے اور بعض میری باتوں
کے انہوں نے بھی جوابات دئیے۔شیخ محمداقبال (راول) کی باتیں سن کر مجھے
احساس ہوا کہ بیرون ملک جا بسنے سے وطن کی محبت ختم نہیں ہو سکتی ،بلکہ جس
قدر اس سے دور ہوا جائے یہ اسی قدر بڑھتی ہے،ایک موقع پر میں نے ان سے کہہ
بھی دیا کہ چھوڑئیے اقبال صاحب ! آپ کو کیا لگے ہمارے پاکستان سے؟ آپ تو
اسے اس کے حال پر چھوڑ کر دیار غیر میں جا بسے ہیں میری اس بات نے گویا
انہیں زخمی کردیا ہو کہنے لگے انور عباس انور صاحب ! بندہ روزگار کی تلاش
میں پاکستان کے ہی کسی دور دراز کے شہر جیسے لاہور سے کراچی،پشاور سے کراچی،
اور کراچی سے کوئٹہ چلا جاتا ہے اپنی فیملی جس مین اس کی والدہ ،والد اور
بہن بھائی بھی ہوتے ہیں سب کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے اور اپنے خاندان کے بہتر
مستقبل کے لیے کچھ عرصہ کے لیے ان سے دور ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں
کہہ وہ اپنی ماں ، باپ بہن بھائیوں کو بھول گیا ہے انہیں دل سے نکال باہر
پھینکا ہے، جس طرح یہ ممکن نہیں اسی طرح ہم لوگ وطن عزیز اور ہم وطنوں سے
دور چلے آتے ہیں لیکن جتنی فکر اس وطن عزیز کی ہمیں دیار غیر میں ہوتی ہے
آپ تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمیں وطن سے ہزاروں کلو میٹر دور رہ کر بھی
وطن عزیز کی عزت و ناموس کا خیال رہتا ہے کہ کہیں ہمارے کسی قول و فعل سے
ہماری دھرتی ماں کے ماتھے پر بدنامی کا داگ نہ لگ جائے لیکن آپ لوگ اس کے
اندر رہتے ہوئے اس کی تقدیس کا رتی بھر احساس نہیں کرتے ۔ آپ کو تو رات کو
جی بھر کر بیٹ بھرنے سے غرض ہوتی ہے چاہے یہ بیٹ کیسے بھی بھرے۔
میں نے شیخ اقبال راول سے دریافت کیا کہ بیرون ملک ہمارے سیاستدان خصوصا
حکمرانوں کے بارے میں کیسی رائے پائی جاتی ہے۔نغیر کسی سوچ میں پڑے گویا
ہوئے کہ میاں شہباز شریف کے متعلق اچھی رائے قائم ہے۔ ان کے بارے میں وہاں
کے میڈیا اور عوام کی رائے ہے کہ وہ ہارڈ ورکر ہیں،،ان کے دل میں وطن اور
عوام کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود ہے۔ ان کے دل میں ایک تڑپ ہے وہ
پاکستان کو عالمی افق پر لیجانے کے خواہشمند سمجھے جاتے ہیں سب سے بڑی بات
جو میں کہنا چاہتا ہوں کہ غیر ملکیوں کی رائے ہے کہ شہباز شریف کرپٹ نہیں
ہے باقی سیاستدانوں کے متعلق کوئی اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ہاں شہباز شریف
کے حوالے سے میں کہوں گا کہ انہوں نے میٹرو بس تو چلا دی ہے میٹرو ٹرین کا
منصوبہ بھی پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ کا باعث بنے گا لیکن میٹرو بس
جیسے اہم ترین میگا ہراجیکٹ کے لیے Q (قطار) نہیں بنا سکے اور نہ ہیں اپنے
شہریوں میں اس حوالے سے آگاہی دے سکے ہیں۔ انہوں نے میاں شہباز شریف سے
مطالبہ کیا کہ وہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی کامیابی کے لیے قطار یا لائن
میں لگنے کو یقینی بنائیں ۔کیونکہ ایسے منصوبے اس وقت ہی کامیابی سے ہمکنار
ہو سکتے ہیں جب قطار بنا ئی جاسکے میٹرو بس سروس کی کامیابی اسی میں ہے کہ
لوگوں کو ٹکٹ کے لیے قطار میں کھڑا کیا جائے،ورنہ اتنے میگا پراجیکٹ کو فیل
کرنے کے لیے عوام کا دھکم پیل میں لگنا ہی کافی ہے۔شیخ محمد اقبال راول
صاحب واپس آسٹریلیا جا چکے لیکن ان کی فکر انگیزباتیں عمل کی متقاضی ہیں۔
درباروں ،مزاروں کے لنگر خانوں سے لیکر بنکوں میں پانی بجلی اور گیس کے
بلوں کی ادائیگی تک تمام شعبہ ہائے زندگی میں ہم ایک دوسرے کے حقوق کو
پامال کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش میں ہیں۔
سعودی عرب سے محترم علی رضا لکھتے ہیں پنجاب کے وزیر اعلی میاں شہباز شریف
کو ترقیاتی منصوبے بناتے وقت دیہاتی آبادی کو بھی اپنی توجہ کا مرکز و محور
بنانا چاہیے نا کہ بڑے شہرے ہی پنجاب کے قومی سرمائے سے مستفیض ہوتے رہیں ،
وہ کہتے ہیں کہ اس سے اختلاف رائے نہیں کیا جا سکتا کہ مسلم لیگ نواز کی
جیت میں بڑے شہروں کے ووٹو ں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ
نہیں کہ دیہاتی آبادی کو یکسر نظرانداز کیا جاتا رہا۔دبئی سے ہمارے قاری
اعجاز احمد بھٹی لکھتے ہیں پاکستان کے سیاستدانوں کی کانب سے ایک دوسرے کی
ٹانگیں کھینچنے اور ایک دوسرے پر انتہائی غلیظ الزامات لگانے کی خبروں سے
یہاں پردیس میں ہمارے دل رنجیدہ ہوتے ہیں دیگر ممالک خصوصا بنگلہ دیشی اور
بھارتی دوست ہمیں طعنے دیتے ہیں اور ہمارا مذاق اڑاتے ہیں کہ آپ کے وزیر
اعظم کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا جا رہاہےلہذا میری اپنے قابل احترام اور ذی
وقار سیاستدانوں سے عرض ہے کہ وہ الزامات لگانے سے قبل سوچ سمجھ لیا کریں-
کنیڈا سے سید مجاہد علی نقوی لکھتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں کو اپنے
ذاتی مفادات سے بالا تر ہو کر ملکی مفادات کے لیے سوچنا چاہیے، میٹرو بس
اور میٹرو ٹرین بہت اچھے منصوبے ہیں لیکن ایسے منصوبے پاکستان کے سب شہروں
کے رہنے والوں کے لیے ہونے چاہئیں ۔ سید مجاہد علی نقوی کا یہ بھی کہنا ہے
کہ حکومت کو مہنگائی کی جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے انہیں دکھ اس بات
کا بھی ہے کہ حکومت پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کے فوائد عوام کو پہنچانے میں
کامیاب نہیں ہو سکی اس حوالے سے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ نجی ٹرانسپورٹر
وہیں کرائے وصول کر رہے ہیں جو آج سے ڈیڑھ دو سال قبل وصول کیے جا رہے تھے
۔ انہوں نے مثال پیش کی کہ لاہور سے شرقپور شریف کا کرایہ آج سے ڈیڑھ دو
سال قبل بھی چالیس روپے وصول کیے جاتے تھے اور آج بھی چالیس روپے ہی لیے
جاتے ہیں۔سید مجاہد علی نقوی نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ٹرانسپورٹرز کو
حکومتی فیصلوں پر عمل کرنے کا پابند بنایا جائے ……
سعودی عرب سے ہی سردار ساجد محمود عاجز جن کا تعلق آزاد کشمیر کے دور
افتادہ علاقے سے ہے لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کو کشمیر کی آزادی کے
لیے کچھ کرنا چاہیے تاکہ اس مسلے کو حل کیا جا سکے سردار ساجد محمود عاجز
کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کو بھارت سے اس وقت تک تجارت نہیں کرنی چاہیے جب
تک بھارتی درندے کشمیر کو آزاد نہیں کردیتے…… دیار غیر میں سختی محنت کرکے
اپنے خون پسینے کی کمائی جسے ہم زرمبادلہ کہتے ہیں پاکستان بھیجتے ہیں لیکن
جب وہ یہاں آتے ہیں تو انہیں بہت دکھ دینے والے اور تکلیف دہ لمحات سے
گزرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ تو دیار غیر میں بیٹھ کر وطن عزیز کو ایسا وطن
بنانے کی آرزو رکھتے ہیں جہاں کسی قسم کی ناانصافی نہ ہو، کسی کے حقوق
پامال نہ ہوں لیکن جب وہ یہاں چند ہفتوں یا دنوں کے لیے آتے ہیں تو وہ
دیکھتے ہیں کہ ان کے ہم وطن دوسروں کے حقوق کو اپنی خواہشات کے پاؤ ں تلے
روندتے وقت ہم تمام اخلاقی،قانونی اقدار کو اپنے دماغ سے کھرچ دیتے ہیں ،
اس وقت ہمیں نہ تو دین اسلام کا درس یاد رہتا ہے اور نہ ہی بڑے بزرگوں کی
نصیحتیں،یاد رہتا ہے تو بس اپنا الو سیدھا کرنا۔اسی طرح ہمارے سیاستدان
حضرات نے ہر سرکاری محکمہ کو اپنے باپ کی جاگیر میں تبدیل کر رکھا ہے، سکیل
ایک سے سکیل 22 تک کے سرکاری اہلکاروں اور افسران کی تقرر و تبادلہ میں
داخل اندازی کرنا اقتدار کے رسیا سیاستدانوں نے وطیرہ بنا رکھا ہے۔ اگر
سیاستدان ایسے کاموں میں ملوث نہیں ہوتے تو بھی ان کے ٹیلی فون آپریٹرز
،پرائیویٹ سکریٹری صاحبان ’’اپنے باس‘‘ کے نام پر سرکاری کاموں میں مداخلت
جا ری رکھے ہوئے ہیں اس عمل سے سرکاری محکموں کی کارکردگی بری طرح متاثر
ہوتی ہے حکومت خصوصا وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب کو اس طرف دھیان دینے
کی ضرورت ہے۔ |