اپوزیشن جماعتوں کا نفاق حکومت کی کامیابی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانامہ کی آگ مزید تیزی پکڑتی جارہی ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ اب یہ معاملہ سیاسی بیان بازی کی نذر ہوتا جارہا ہے۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن کے اسلام آباد میں واقع گھر پر حزب مخالف کی جماعتوں کے2اور3مئی کو جاری رہنے والے اجلاس کے بعد ایک متفقہ اعلامیہ جاری ہواجس کے مطابق احتساب کا عمل جلد شروع ہوگا اور اس عمل کا آغاز وزیراعظم اور اْن کے خاندان کے خلاف تفتیش سے ہوگااجلاس میں اس اعلامیہ نے ملک بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے اور ہر کوئی کشمکش کا شکار ہے کہ اب نیا کیا ہونے والا ہے اپوزیشن جماعتوں کے ہونے والے اجلاس پر روشنی ڈالی جائے تو جو نکات سامنے آئے ہیں ان کی تفصیل یوں ہے کہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹرمزآف ریفرنس پراتفاق کیاگیا اور مطالبہ کیا گیاکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں بااختیار کمیشن بنایا جائے ۔سب سے اہم پہلو جو اس اجلاس میں نظر آیا وہ یہ ہے کہ وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر تمام جماعتوں میں اتفاق نہیں ہو سکا تاہم بیشتر جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی اس موقف پر قائم ہیں کہ وزیراعظم مستعفی ہو جائیں ۔اس معاملے پر اپوزیشن جماعتوں کا موقف یہ سامنے آیا کہ وزیراعظم کے استعفے پر اپوزیشن کے درمیان اختلاف نہیں لیکن اتفاق رائے بھی نہیں، اکثریت اس مطالبے کو مانتی ہے اوران کا موقف ہے کہ ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے لیکن فی الوقت ہم استعفے کا مطالبہ نہیں کررہے تاہم اس سے اپوزیشن کا اتحاد کمزور نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ یہ اجلاس اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے رہنما اعتزازاحسن کی رہائش گاہ پرجوڈیشل کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس تیار کرنے کے لیے ہوا جس میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، ایم کیوایم، قومی وطن پارٹی، مسلم لیگ (ق) اوردیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے اجلاس میں خورشید شاہ، شیری رحمان، قمر زمان کائرہ، سینیٹر سعید غنی، نوید قمر اور سلیم مانڈی والا شامل تھے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے اجلاس میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین، اسد عمر، شیریں مزاری، عارف علوی، حامد خان اور عاطف خان نے اجلاس میں شرکت کی۔ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین اور مشاہد حسین سید،طارق بشیر چیمہ، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، صاحبزادہ طارق اﷲ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید، اے این پی سے غلام بلور، افتخار حسین، ایم کیوایم کے خالد مقبول صدیقی، کنور نوید جمیل اور میاں عتیق جبکہ آفتاب خان شیر پاؤ بھی اجلاس میں شریک تھے۔

اجلاس میں متفقہ طور پر یہ طے پایا کہ کمیشن کے لیے اسپیشل انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ بنایا جائے،جس میں ان تمام باتوں کی تفتیش کی جائے کہ بیرون ملک کس سال میں اثاثے بنائے گئے، کن ذرائع سے خریدے گئے، پیسے کیسے بھیجے گئے، کتنا ٹیکس دیا گیا اور کس فنڈ سے املاک خریدی گئی۔کمیشن پاناما لیکس میں شامل دیگرافراد کے اثاثوں کی انکوائری ایک سال میں مکمل کرے اور تفتیش مکمل ہونے کے بعد رپورٹ منظر عام کی جائے۔اپوزیشن نے انکوائری کمیشن کے لیے 6 صفحات پر مشتمل مشترکہ قوائد و ضوابط تیار کیے جس کے مطابق وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ سمیت سب کے اثاثوں کی مکمل تحقیقات کی جائے گی جو 1985سے 2016ء تک تھے، اس دوران خریدے گئے اور فروخت کئے گئے اثاثے چاہے وہ خاندان میں سے کسی کے نام پر ہی کیوں نہ خریدے گئے ہوں یا فروخت ہوں کمیشن اسکی تحقیقا ت کرے گا۔ اس کے علاوہ کمیشن یہ بھی دیکھے گا کہ اس دوران آمدنی کے ذرائع کیا تھے اور یہ رقم کس بینک میں رکھی گئی تھی، اس طرح کی آمدنی پر کیا ٹیکس دینا ضروری نہیں جبکہ کس تاریخ کو اور کس بینک کے ذریعے ان اثاثوں کی خریداری کے لیے فنڈز کا استعمال کیا گیا، کس سے یہ پراپرٹی خریدی گئی اور یہ بھی پوچھا جائے کہ جس سے خریدی گئی اس نے اس پرکتنا ٹیکس ادا کیا، بیرون ملک خریدے گئے اثاثوں کے لیے ادائیگی بینک کے ذریعے کی گئی یا پھر نقد رقم دی گئی۔

ٹی او آرز کے مطابق 1985 سے اب تک سالانہ بنیاد پر ٹیکس ادائیگی کی تحقیقات کی جائیں اور اس کی تفصیلات بھی مانگی جائیں، آف شور کمپنیوں کی تفصیلات دیں، کیا وہ آف شور کمپنیاں قانون کے مطابق ہیں یا نہیں۔ ٹی او آرز کے مطابق کمیشن یہ بھی پوچھے کہ یہ ظاہر کرنا ضروری ہے کہ بینکوں سے پیسے منتقل کرنا ، بیرون ممالک میں سے یہ ظاہر کرنا یا نہ کرنا ضروری ہے کہ نہیں ، وزیراعظم اور ان کے خاندان جب 2000 میں بیرون ملک گئے تو کیا وہ اس وقت ریاستی مہمان تھے یاکس حیثیت سے رہ رہے تھے اور اس وقت ریاستی مہمان کی حیثیت سے ملنے والی پراپرٹی، گفٹ یا رقم پاکستان کی ریاست کو جمع کرائے گئے یا نہیں، کیا یہ جمع کرانا ضروری تھا۔ ضابطہ کار کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے کیا یہ تمام چیزیں چھپائی گئی ہیں کیا یہ انتخابی اور ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

ٹی او آرز کو خصوصی قانون پاناما پیپرز (انکوائر ی اینڈ ٹرائل ) ایکٹ 2016 نام دیا گیا ہے۔ اپوزیشن سے اتفاق رائے سے خصوصی قانون بنایا جائے جس کی سربراہی چیف جسٹس سپریم کورٹ کریں گے اور وہ خود سپریم کورٹ کے 2 ججوں کا کمیشن کے لیے انتخاب کریں گے، کمیشن کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ماہرین کی کمیٹی کا تقرر کر سکے جو فرانزک آڈٹ کرانے کے لیے اور آف شور کمپنیوں کے آڈٹ کے لیے اور اس کے اکاؤنٹس، اثاثوں کی منتقلی جس میں اسٹاک ، شئیرز اور بے نامی جائید اد سمیت دیگر شامل ہے کی تحقیق کر سکے۔ٹی او آرز کے مطابق کمیٹی کی ڈیوٹی ہو گی کہ وہ منی ٹرایل کی تصدیق کرے جو ایسی آف شور کمپنیوں کو فنڈز مہیا کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں، کمیشن متعلقہ شخص کو ہدایت دے سکتا ہے کہ وہ پاورآف اٹارنی دے تاکہ کمیٹی بااختیار ہو سکے تاکہ وہ مکمل تفصیلات حاصل کر سکیں اور اگر کمیشن کو کسی قسم کی سہولت درکار ہوئی تو دی جائے، جب کمیشن انکوائری شروع کرے گا تو متعلقہ شخص اپنے تمام اثاثوں کی تفصیلات کس کے سامنے پیش کرے گا ؟جبکہ وزیراعظم اور ان کے خاندان سمیت سب خود کو کمیشن کے سامنے پیش کریں گے، کمیشن کو تمام عدالتی اختیارات حاصل ہوں گے جس میں پی سی، سی آر پی سی اور سپریم کورٹ کے ضوابط شامل ہیں، کمیشن میں مجرم ثابت ہونے کی صورت میں عدالتی قوانین کے مطابق سزا دے سکے گا، حکومت ہر رپورٹ شائع کرے گی اور وزیراعظم اور ان کے خاندان کی رپورٹ سب سے پہلے تیار کی جائے گی۔قوائد و ضوابط کے مطابق کمیشن کی کارروائی عوام کے لیے کھلی رکھی جائے گی، حکومت پاکستان صوبائی حکومتیں اور سرکاری ادارے جیسا کہ نیب، ایف آئی اے، آئی بی، ایس بی پی اور ایس ای سی پی کمیشن کو ہر ممکن مدد کرے گی، حکومت تمام قانونی اور مالی مدد فراہم کرے گی جس میں عالمی اداروں کے حوالے سے ڈپلومیٹ سپورٹ بھی شامل ہے، حکومت کمیشن کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے ہر ممکن فنڈز اور سہولیات دے گی۔ 3 گھنٹے جاری رہنے والے اجلاس میں پیپلزپارٹی کی جانب سے ٹی او آرز پر مسودے کو اجلاس میں پیش کیا گیا جسے چوہدری اعتزاز احسن نے تیار کیا تھا۔ وزیراعظم کے استعفے کے معاملے پر ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم کے استعفے پر متحد ہیں لیکن ایم کیوایم کی جانب سے اس فیصلے پر رضا مندی ظاہر نہیں کی گئی جس کے بعد تمام جماعتوں نے ایک ایک رہنما پر مشتمل کور کمیٹی تشکیل دے دی ہے جو ایم کیوایم سمیت تمام جماعتوں کے متفقہ فیصلے پر ٹی او آرز تیار کرے گی۔ اپوزیشن کی پہلی کوشش متفقہ ٹی او آرز پر تمام جماعتوں کی آمادگی ہے اور اس کے بعد کمیشن کو بھی قانونی شکل دینا ہے۔ تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ وزیراعظم اپنے اثاثے پارلیمنٹ میں آکر ڈکلیئر کریں۔دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس میں جن جن کے نام آئے ان سب کا احتساب ہونا چاہیے اور احتساب کا آغاز وزیراعظم کے خاندان سے کیا جائے۔

یہ تو سب جانتے ہیں کہ پاناما پیپرز میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے اہل خانہ کی آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد سے حکومت اور حزب مخالف میں لفظوں کی جنگ شدت اختیار کر چکی ہے نا صرف یہ بلکہ عمران خان وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ دہراتے آ رہے ہیں اورانہوں نے حکومت کی مبینہ بدعنوانی کے خلاف احتجاجی مہم بھی شروع کر رکھی ہے اوراس حوالے سے ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی جلسے اور ریلیوں کا سلسلہ جاری ہے تو ایسے موقع پر وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے سب سے بڑے ناقد حزب مخالف کے رہنما عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیااور 3مئی کوبنوں میں ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح کے موقع پر ہونے والے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انھیں عوام نے منتخب کیا اور وہ عمران خان کے کہنے پر اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔عوام نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے، عوام نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا ہے ہم ان کے کہنے پر گھر چلے جائیں۔ یہ منہ اور مسور کی دال، کیا سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو، جیسے جیسے وقت گزرے گا ان کو پتا لگ جائے گا۔ پی ٹی آئی والے دو سال تک انتخابات میں دھاندلی کا شور مچاتے اور دھرنے دیتے رہے لیکن سپریم کورٹ نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔آج پھر وہ 22 سال پرانی باتیں کر رہے ہیں، نئے نئے الزامات لگا رہے ہیں جن کا وجود ہی نہیں۔ ہم نے کہا کہ آؤ سپریم کورٹ چلتے ہیں۔ہم نے فیصلہ سپریم کورٹ پر چھوڑ دیا ہے سب جانتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہمارے خلاف ایک پائی کی کرپشن بھی اگر ثابت ہو جائے تو ایک منٹ میں نواز شریف اپنے گھر چلا جائے گا۔اس موقع پر حکومت میں شامل جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کی بھی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں اور ان کے بقول ’’اگر احتساب ہو گا تو سب کا ہوگا اور وزیراعظم گھر جائیں گے یا جیل جائیں گے یہ مسئلہ نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اگرعمران خان کی باری آئی تو نہ ان کو گھر ملے گا نہ ان کو پاکستان ملے گا۔‘‘

حکومت نے پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو مسترد کردیا۔ اس حوالے سے وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں صرف وزیراعظم کوہدف بنا رہی ہیں۔ احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ پانامالیکس پر اپوزیشن کے ٹی او آرز کا مقصد کرپشن کو بے نقاب کرنا نہیں بلکہ وزیراعظم کو ہدف بنانا ہے، ایسا نہیں ہونے دیں گے۔انکوائری کمیشن سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ سے اعلیٰ کوئی عدالت یا ادارہ نہیں، اپوزیشن رکاوٹ بن کر معاملے کوسیاست کی نذر کررہی ہے۔حکومت پاناما لیکس تحقیقات کیلئے ایک قدم آگے بڑھتی ہے تو اپوزیشن پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ جبکہ اس حوالے سے شاہ محمود قریشی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پانامالیکس سامنے آنے کے بعد ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہم نے اپوزیشن کی جماعتوں کے لیے کوئی راستہ نہیں نکالا، ہم نے کہا ہے کہ تمام افراد کا احتساب ہونا چاہیے لیکن اس کا آغاز وزیراعظم سے ہو کیونکہ وہ ملک کے چیف ایگزیکیٹو ہیں۔سیاسی جماعتوں میں پانامہ لیکس اور وزیراعظم کے استعفے کی گرما گرمی تو سب کے سامنے ہیں اب سب کی نظر نتائج پر ہے کہ مستقبل میں یہ سیاسی معاملات کیا رنگ لاتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی اپوزیشن جماعتیں کرپشن نہیں بلکہ وزیراعظم کو ہدف بنا رہی ہیں؟

مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عمران خان کی جانب سے گذشتہ تقریبا 2ماہ کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو مختلف حوالوں سے تنقید کا نشانہ نہ بنانے کی پالیسی کے مطابق ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی نے فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا ثبوت دیا ہے اور ٹی او آرز کے پردے کے پیچھے کھڑے ہو کر بھر پور سپورٹنگ رول سے میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو پانامہ لیکس کی دلدل سے نکلنے میں مدد فراہم کی ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے اس رول سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خا ن سیاست کی باریک بینی اور جوڑ توڑ سے ناواقف ثابت ہوتے ہیں اور انہیں اس بار بڑی صفائی سے مکھن سے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا ہے اور یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر قوم ایک بار پھر مٹی پاؤ پالیسی پر عمل درآمد ہوتا دیکھے گی اور اپوزیشن کا نفاق حکومت کی کامیابی کا سبب بنے گا۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92605 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.