خدمت خلق کے افق پر جگمگاتا ستارہ عبدالستار ایدھی شدید علیل ہے

شرافت، صداقت ،امانت اور عوامی خدمت جیسے اوصاف کو اگر ایک لڑی میں پرو کر دیکھا جائے تو جو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے ابھر کر آئے گی اس کا نام عبدالستار ایدھی ہے ۔عبدالستارایدھی جو پوری قوم کا فخر ہیں بھارت کے شہر گجرات کے نواح میں پیدا ہوے ۔ تقسیم ہند کے وقت آپ کا خاندان ہجرت کر کے پاکستان میں آباد ہو گیا ۔1951میں آپ نے ایک دکان پر مشتمل اک ڈسپنسری کی بنیاد رکھی اور آپ کے وجود میں سرایت کر چکے عوامی خدمت کے جذبہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ رات کوڈ سپنسری کے باہر پڑے بینچ پر ہی سو جاتے تا کہ متاثرین کی بر وقت امداد کو یقینی بنایا جا سکے ۔عوامی خدمت کی منزل کی جانب اٹھایا گیا یہ ان کا پہلا قدم تھا جو چلتے چلتے ایدھی فاونڈیشن تک جا پہنچا۔ایدھی فاونڈیشن نہ صرف پاکستان بلکہ پاکستان سے باہر بھی انسانیت کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ اس کی خدمت کا دائرہ کار افغانستان،عراق،چیچنیا،بوسنیا،سوڈان اور ایتھوپیا تک پھیلا ہوا ہے اور پوری دنیا میں عبدالستار ایدھی ایک بے غرض اور بے لوث خدمت گار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔یہ فرشتہ صفت انسان ان دنوں شدید علیل ہے ۔قوم کی دعاوں اور محبتوں کا طلبگار ہے ۔اگرچہ اس بے لوث انسان نے اپنی ان گنت عوامی خدمت کے عوض کبھی صلہ و ستائش کی تمنا نہ کی لیکن سوچنے کی بات ہے کہ ہم اس قدر بے حس کیوں ہیں کہ اس کو جیتے جی بھول رہے ہیں ۔ اس کی خدمات کے اعتراف میں ہم اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے سمندر نچھاور کیوں نہیں کر دیتے۔افسوس ہے ہم میں سے اکثریت کو یہ ہی خبر نہیں کہ انسانیت کا حقیقی محسن ان دنوں بستر علالت پر ہے اور قوم کی دعاوں کا محتاج ہے ۔اس ضمن میں گلہ تو میڈیا سے بھی بنتا ہے کہ وہ لوگوں تک یہ خبر بار بار کیوں نہیں پہنچاتا کہ اپنی زندگی کے شب و روز تم پر نچھاور کرنے والا مسیحا شدید بیمار ہونے پر بھی اپنا علاج پاکستان میں ہی کروا رہا ہے اپنے ٹیسٹ اور علاج کروانے برطا نیہ یا امریکہ نہیں گیا ۔کیا ہم اور میڈیا خدانخواستہ اس عظیم ہستی کے دنیا سے رخصت ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔ کیا من حیث القوم ہماری قسمت میں یہ لکھا جا چکا ہے کہ ہم ہر فرشتہ صفت انسان کی قدر تب ہی کریں گے جب وہ منوں مٹی تلے دفن ہو چکا ہو ۔جب وہ ہماری محبتوں اور عقیدتوں کو دیکھنے سے قاصر ہو۔نہ جانے کیوں ہم اس قدر اخلاقی پستی کا شکار ہو چکے ہیں۔ خودغرضی،مطلب پرستی،مفاد پرستی اور ابن الوقتی جیسی قباحتیں کیسے ہماری رگوں میں سرایت کر چکی ہیں۔میڈیا بھی دن رات نام نہاد سیاسی اشرافیہ کی ایک ایک کروٹ پر نگاہ جمائے ہوے ہے اور اک تسلسل سے ان کی حرکات و سکنات و کرتوت رپورٹ کر رہا ہے اور اس کرپشن زدہ مافیا کو اگر کوئی مچھر بھی کاٹ لے تو بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کرتا ہے لیکن ایک ایسا شخص جس نے اپنی زندگی کا ایک ایک قدم دم توڑتی انسانیت کے لیے وقف کر دیا جو ہر یتیم و مسکین کا سہارا بنا ۔ اس کے لیے ہمارے پاس چند منٹ نہیں ہیں ۔ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کب اپنے ہیروز کی ان کی زندگی میں ہی قدر کرنے کی روش اختیار کریں گے ۔ممکن ہے قوم کی محبت ،عقیدت اور احترام کی تصویر نحیف ایدھی تک پہنچے تو وہ تروتازہ ہو کر بستر علالت ہی سے اٹھ بیٹھے۔ یاد رکھیے قوموں میں ایدھی جیسے پھول روز روز نہیں کھلتے ۔ بقول شاعر ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

عمومی طور پر ہمارا رویہ ہے کہ ہم دوسرے انسانوں کی خامیوں پر زیادہ فوکس کرتے ہیں ۔اگر کسی میں ننانوے خوبیاں ہوں تو ان کا تذکرہ کرنا گناہ کبیر ہ گردانتے ہیں جبکہ ایک خامی کو پکڑ کر ایسا رگڑا لگاتے ہیں کہ جب تک اس خامی کو اس کے ماتھے کا کلنک نہ بنا دیں روح کو سکون ملتاہے نہ دل کو قرار آتا ہے ۔میری نگاہوں کے سامنے ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جو ہمارے قومی ہیرو تھے لیکن ان کی زندگی میں ہم نے ان کو وہ اکرام و احترام نہ دیا جو ان کی وفات کے بعد ان کے حصے میں آیا ۔جونہی ہمارے ہیروزکی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتی ہیں تو تب ہی ان کی ذات کے جواہر کھل کر ہماری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔ ان کی شان میں سیمینارز کا اہتمام ہوتا ہے جن میں دل کھول کر ہم ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔خصوصی پروگرامز ترتیب دئیے جاتے ہیں۔تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور ہر سال برسی پورے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے ۔جس شخص کی زندگی میں ہم نے اس کو دل کھول کر داد بھی نہ دی مرنے کے بعد ہسپتالوں اورشاہراہوں کے نام ان سے موسوم کر دیئے جاتے ہیں ۔ یہ کھوکھلی تہذیب ہے ۔ یہ زندہ قوموں کا وطیرہ نہیں ہے ۔یہ اعلٰی اوصاف کی حامل قوموں کی نشانی نہیں ہے ۔ ہم زندگی بھر اپنے ہیروز کے تاریک گوشوں پر ہی نگاہیں جمائے رکھتے ہیں اور اس چمکتے سورج کو گہنانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ۔ گزشتہ دنوں معروف سائنسدان عبدالقدیر خان کا ایک بیا ن نظروں سے گزرا جو یقینی طور پر تکلیف دہ تھا جس میں وہ فرماتے ہیں کہ انہیں اپنا تعارف کروانا پڑتا ہے ۔ اس سے قومی اخلاقی پستی کا اندازہ کر لیجیے کہ ہمارے سب سے بڑے محسن بھی پبلک میں اپنے تعارف کے محتا ج ہیں ۔ہمیں میڈیا سمیت اپنے رویہ پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔ہمیں اپنے قومی ہیروز کی خدمات کا اعتراف اور ان کے کارناموں پر تعریف و توصیف کے ہار ان کی زندگی میں ہی ان کے گلے میں ڈالنے کی روش اختیار کرنا ہو گی ۔ یاد رہے حقیقی عوامی خدمت کا لباس زیب تن کرنا ہرگز آ سان کام نہیں ہے ۔ اگر یہ اتنا آسان ہوتا تو ہر دوسرا آدمی عوامی خدمت کے میدان کا کھلاڑی ہوتا ۔ لیکن یہ اعزاز اللہ کے چنیدہ بندوں کے حصے میں ہی آتا ہے ۔ لہٰذا ہمیں عبدالستار ایدھی کو ان کی زندگی میں ہی یہ احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ آپ کی خدمات لازوال ہیں ۔آپ کے دل کی دھڑکن ہمارے دلوں سے منسلک ہے ۔ہم آپ سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ہم آپ کی صحت کے حوالے سے فکر مند ہیں اورپوری قوم آپ کی صحت یابی کے لیے دعا گو ہے ۔
abdulrazzaq choudhri
About the Author: abdulrazzaq choudhri Read More Articles by abdulrazzaq choudhri: 96 Articles with 66521 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.