73سالہ مولانا مطیع الرحمن نظامی کی شہادت
(Dr Sajid Khakwani, Islamabad)
سم اﷲ الرحمن الرحیم
بنگلہ دیش میں بھارتی سیکولرازم کے ہاتھوں عدالتی قتل
بنگلہ دیش میں بھارتی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ
بنگلہ دیش کاقیام ہی بذات خودبھارتی عسکریت کامرہون منت ہے۔بھارت کی برہمن
قیادت نے غداران ملت کے ساتھ مل کر دوقومی نظریہ کو مجروح کرنے کی ناکام
وناپاک سازش کی جس کے نتیجے میں وطن عزیزکودولخت کر کے تولسانی وعلاقائی
بنیادوں پر ایک ریاست کی تاسیس کردی گئی۔بنگلہ دیش کے قیام کی خوشی میں اس
وقت کی بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی نے نعرہ لگایاتھا کہ ہم نے دوقومی
نظریہ کو اٹھاکر خلیج بنگال میں پھینک دیاہے۔اس واقعے کے چند ہی سال بعد جب
سوویت یونین لخت لخت ہوا تودوقومی نظریہ ایک بارپھر اپنی صداقتوں کے ساتھ
دنیاکے جغرافیے پر امر ہوگیا،ایک بنگلہ دیش نے جس نظریہ کی نفی کی کوشش کی
تھی چھ مسلمان ریاستوں نے اس فکر کی آبیاری کرکے اسے سچانظریہ ثابت کر
دیا۔امت مسلمہ کی گود میں ان چھ مسلمان ریاستوں کی آمدنے برہمن کو سیخ
پاکیا،دیانت داری کا تقاضاتھا کہ اس وقت کی دہلی سرکار اپنی نظریاتی شکست
کااعتراف کرتی لیکن کھسیانی بلی کھنبہ ہی نوچتی ہے۔نظریاتی شکست کے بعد
بنگلہ دیش میں برہمن نواز حکمرانوں نے بھارتی سیکولرازم کاآلہ کاربنتے ہوئے
جب کوئی اوربہانہ ہاتھ نہ آیاتوتقسیم پاکستان کے زخم کوتازہ کرکے اپنی خفت
مٹانے کے لیے جماعت اسلامی کے راہنماؤں کوتختہ دار پر لٹکاناشروع
کردیاہے،یہ ہے سیکولرازم کااصل ننگ انسانیت چہرہ۔
73سالہ مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒبنگلہ دیش میں بھارتی سیکولرازم کا تازہ
شکار ہیں۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ 31مارچ 1943کو پیداہوئے۔ان کا آبائی
علاقہ مشرقی پاکستان کے ’’راجشاہی‘‘ ڈویژن کے ضلع ’’پبنہ‘‘کاایک غیرمعروف
گاؤں ’’مون موتھ پور‘‘ہے۔1963ء میں انہوں نے مقامی مدرسہ سے اپنی ابتدائی
تعلیم مکمل کی۔اس کے بعد فقہ کی اعلی تعلیم کے لیے ’’مدرسہ عالیہ‘‘ڈھاکہ
میں داخلہ لیااور اسی دوران مشرقی پاکستان کی ڈھاکہ یونیورسٹی سے 1967میں
بی اے کی ڈگری بھی حاصل کر لی۔اس طرح مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ کی شخصیت
دین اوردنیاکاحسین امتزاج بن گئی۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ نے 1960ء سے
ہی اپنی سیاسی زندگی کاآغاز کردیاتھا اور ابتداََانہوں نے جماعت اسلامی
مشرقی پاکستان میں شمولیت اختیارکی لیکن جلد ہی اسلامی جمیعت طلبہ جو مشرقی
پاکستان میں اسلامی چھاتروشنگھوکہلاتی تھی اور نظریاتی طور پر جماعت اسلامی
کی حلیف اور اس فکرکا گروہ نوجوانان تھی،اس میں شامل ہو گئے۔مولانا مطیع
الرحمن نظامی ؒ کی قائدانہ صلاحیتون نے انہیں متحدہ پاکستان کی اسلامی
جمیعت طلبہ(اسلامی چھاترو شنگھو)کاناظم اعلی بنادیا۔اس طرح مولانا مطیع
الرحمن نظامی ؒ اپنے عہد شباب میں ہی اس تحریک کے صف اول میں شمار ہونے
لگے،اس وقت تک مولاناابوالاعلی مودودی حیات تھے لیکن ایک جمہوری عمل کے
نتیجے میں جماعت اسلامی کی قیادت سے سبکدوش ہوکرصرف تصنیف و تالیف تک محدود
ہو گئے تھے۔
1971ء کے جان گسل لمحات جو پوری امت مسلمہ کی کل تاریخ کا سیاہ باب
ہیں،مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ کی زندگی میں پوری قوت سے ٹوٹ پڑے۔اس وقت
کی جماعت اسلامی نے اپنے نظریے اور عقیدے کے مطابق متحدہ پاکستان کا ساتھ
دیالیکن برہمن نوازبنگالی قیادت نے ہندوستانی افواج کے ساتھ مل کروطن عزیز
کو دولخت کر دیا۔جماعت اسلامی کے نوجوانوں نے عزم و ہمت اور قربانیوں کی
ایک دل دہلا دینے والی تاریخ رقم کی اور اپنی آخری استعداد تک پاکستان کی
افواج کاساتھ دیتے رہے۔افواج پاکستان کو بدترین ہزیمت اٹھانی پڑی اور اس کا
سارانزلہ جماعت اسلامی کے کارکنان اور قیادت پر امڈتاچلا گیااورآج تک
دارورسن وقیدوبندکایہ سلسلہ جاری ہے۔شیخ مجیب الرحمن جیسے ہی بنگلہ دیش کے
پہلے صدر بنے انہوں نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی کیونکہ اس جماعت نے
کھل کر بنگلہ دیش کے قیام کی مخالفت اور متحدہ پاکستان کی حمایت کی
تھی۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ اور جماعت اسلامی کے دیگرعمائدین ملک چھوڑ
کر روپوش ہوگئے۔1977ء کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں جب جنرل ضیاء الرحمن
بنگلہ دیش کے صدربنے توانہوں نے جماعت اسلامی کے قائدین کے لیے ملک کے
دروازے کھول دیے۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ اور مولانا غلام اعظم سمیت
متعدد راہنما 1978ء میں طویل ملک بدری کے بعدبنگلہ دیش میں واپس آئے اور
جماعت اسلامی کی تاسیس نو کی اور پھرایک وقت آیا کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش
کی سب سے بڑی دینی سیاسی جماعت بن گئی۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ نے
اسلامی چھاترو شنگھو کی بجائے اسلامی چھاترو شبرکے نام نوجوان طالب علموں
کی تنظیم بھی بنائی،لیکن خود چونکہ زمانہ طالب علمی سے آگے بڑھ گئے تھے اس
لیے جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت میں انہیں سمو لیاگیا۔2001ء میں جب
پروفیسرغلام اعظم نے جماعت اسلامی کی امارت سے استیفی دیاتو تب سے مولانا
مطیع الرحمن نظامی ؒ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر منتخب ہو گئے تھے۔
1991ء کے انتخابات میں مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ نے اپنے آبائی علاقے
پبنہ سے قومی اسمبلی کے لیے حصہ لیااوربھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔1994ء
تک بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی راہنما بھی
رہے۔2001میں دوبارہ اسی حلقے سے انتخابات میں حصہ لیااورباردیگر57.68%رائے
دہندگان کی اکثریت سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔اس بارکے انتخابات
چارجماعتی سیاسی اتحاد کی مشترکہ کاوشوں کانتیجہ تھے۔2001ء تا 2003ء مولانا
مطیع الرحمن نظامی ؒ نے بحیثیت وفاقی وزیرزراعت قوم کی خدمت کی،ان کی وزارت
کے زمانے میں ملکی زراعت نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی۔اس کوچھٹی نہ ملی
جس نے سبق یاد کیا کے مصداق 2003تا2006ء آپ کووزیرصنعت بنادیاگیا،بنگلہ دیش
جیسے ملک میں صنعتوں کاجال بچھادینا اسی مرد قلندر کاہی کمال تھا۔ان دونوں
وزارتوں کی تاریخ میں ایسا قابل قدر وزیر شاید کبھی نہیں آیاتھا کہ قوم آج
بھی ان کے منصوبوں اور ان کی ترقیات کو ازبر کیے ہوئے ہے۔مئی 2008ء میں ان
پر بدعنوانی کامقدمہ قائم کرکے انہیں دھر لیاگیا، جب کوئی ثبوت نہ مل
پایاتو انہیں آہنی زیور سے دوماہ بعدآزاد کر دیا گیاکہ مشرقی پاکستان سے
مغربی پاکستان تک جماعت اسلامی کی قیادت کسی بھی طرح کی بدعنوانی سے پاک
کردارپیش کرتی ہے۔مارچ2010ء کو ان کے خلاف ایک اور مذہبی مقدمہ قائم کرکے
گرفتارکرلیاگیا،آپ دوسرے ہی دن ضمانت پرباہرآگئے اور کچھ ہی عرصہ بعدعدالت
عالیہ کے حکم پر یہ مقدمہ ختم کردیاگیا۔4مئی 2011ء کوانہیں اس الزام میں
گرفتارکرلیاگیاکہ انہوں نے 2004ء میں آسام کی تحریک آزادی کو ہتھیارفراہم
کیے تھے،ان کی درخواست ضمانت بھی خارج کردی گئی اور 30جنوری2014ء کوانہیں
تیرہ دیگرافراد سمیت آسامی تحریک آزادی کوہتھیارفراہم کرنے کے الزام میں
پھانسی کی سزاسنادی گئی۔2009ء میں عوامی لیگ کی حکومت نے نام نہاد جنگی
جرائم کا ٹریبیونل بنایا اور جماعت اسلامی کی صف اول کی قیادت پر مقدمات
قائم کر کے انہیں گرفتار کرنا شروع کردیا۔ان راہنماؤں کے بارے میں تفتیش کی
گئی کہ انہوں نے 1971ء کی بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں پاکستان کی حمایت کی
تھی اوران پر فرد جرم عائد کرکے 29اکتوبر2014ء کو انہیں پھانسی کی سزا سنا
دی گئی۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ کو بنگلہ دیش کے اٹارنی جنرل نے کہاکہ
سپریم کورٹ نے ان کی نظرثانی کی درخواست مسترد کردی ہے،اب اگروہ چاہیں تو
صدر بنگلہ دیش سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔مولانا ابولاعلی مودودی ؒکو بھی
پھانسی کی سزاکے خلاف رحم کی اپیل کامشورہ دیاگیاتھالیکن انہوں نے انکار
کردیاگیاتھا،پس مولانا مودودیؒسے مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ تک جماعت
اسلامی کے کسی بھی ایسے کارکن کو جسے پھانسی کی سزا ہوئی ہواس نے صدر مملکت
سے رحم کی اپیل نہیں کی۔10اور 11مئی2016ء کی درمیانی شب طاغوت نے اس مرد حق
کوپھانسی کاجھولاجھلادیا۔
شہادت کا جام حیات ابدی کا پیغام ہے،مکہ مکرمہ کی وادیوں میں حضرت سمیہ رضی
اﷲتعالی عنھاسے چلنے والا قافلہ شہدائے حق گزشتہ صدیوں کے سفر میں نہ رکا
اور نہ تھماہے۔یہ کاروان بہشت تاقیامت جانب منزل گامزن رہے گا،وہ کتنے خوش
قسمت لوگ ہیں جن کی قسمت میں سعادت کی زندگی اور شہادت کی موت لکھ دی جاتی
ہے۔مولانا مطیع الرحمن نظامی ؒ اور ان کے دیگر ہم پیالہ اس لحاظ سے بھی خوش
بخت ہیں کہ عمومی طورپرشہادت کے منصب پر نوجوانان ہی فائز ہوتے ہیں لیکن
1971ء میں پاکستان جیسی مقدس ومحترم سرزمین وطن کے لیے قربانیاں دینے کے
عوض ان بزرگوں کوحالت پیری میں بھی مقام شہادت عطا ہوگیا۔شہداکے خون سے
سیراب ہونے والی فصل کبھی خزاں رسیدہ ہوپائے گی؟؟یہ ناممکنات عالم میں سے
ہیں،سیکولرازم سمیت کتنے ہی طاقتورترین فکری و عملی نظام ہائے حیات نے
تعلیمات انبیاء علیھم السلام سے ٹکرانے کی کوشش کی لیکن آدم تا ایں دم ان
سب نے منہ کی کھائی۔بنگلہ دیش کی قیادت جس بھارتی سیکولرازم کے بل بوتے پر
بدمعاشی کی یہ روایات رقم کرتی چلی جارہی ہے اس کاانجام بہت جلد نوشتہ
دیوار ہوگا۔تحریک پاکستان کے شہداسے تقسیم پاکستان کے شہداتک کے خون کی قسم
برصغیرکے ان دونوں خطوں نے ایک بار پھر’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کے نام سے
جمع ہوناہے اور بھارت ان کے درمیان ایسے پس جائے گا جیسے چکی کے دو پاٹوں
میں دانہ پس کر ریزہ ریزہ ہوجاتاہے ،انشاء اﷲ تعالی۔ |
|