دہشت گردی کے خلاف جنگ نام نہاد ہے:رچرڈ ہالبروک

دنیا میں بھر میں جو سفارتی اہلکار یا ڈپلومیٹ تعینات کئے جاتے ہیں وہ لفظوں کے استعمال میں نہایت احتیاط برتتے ہیں تاکہ کہیں زبان کی کسی لغزش سے فریق مخالف فائدہ نہ اٹھا لے یا اس کی کسی غلطی سے کسی دوست ملک کے تعلقات میں دراڑ نہ پڑ جائے۔ اور جب کسی ملک کا کوئی ذمہ دار اہلکار غیر ملکی دورے پر ہوتا ہے تو اس وقت وہ خاص طور پر اس معاملے میں احتیاط برتتا ہے۔ ان کو یہ احتیاط اس لئے بھی برتنی پڑتی ہے کہ اخبار نویس ایسے کسی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ ادھر کوئی ایسا لفظ یا جملہ کہا جائے اور وہ اس کو اچک لیں۔ اس بات کا مشاہدہ ہم اس طریقے سے کرسکتے ہیں کہ جب کسی نیوز چینل پر کوئی اینکر کسی سرکاری عہدیدار، یا کسی تنظیم کے ذمہ دار کے ساتھ گفتگو کر رہا ہو، تو اس گفتگو کے دوران اپنی توجہ مذکورہ فرد پر مبذول رکھتے ہیں اور پھر بڑی مہارت سے ان کے ادا کئے گئے جملوں ہی کی مدد سے اس کا تیا پائنچہ کردیتے ہیں۔

میڈیا کی جب بات آتی ہے تو اس معاملے میں پاکستانی میڈیا بھی کسی سے کم نہیں ہے تمام ہی چینلز ایک دوسرے سے بازی لیجانے کے چکر میں بڑھ چڑھ کر بریکنگ نیوز چلاتے ہیں۔ اور عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے انہوں نے مختلف نعرے یا سلوگن اپنا لیے ہیں کسی کا نعرہ ہے وہ “ خبروں سے آگے “ بڑھ کر بات کرتے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ ان کی “ہر خبر پر نظر “ ہے۔ کوئی خبر کے “اندر کی خبر “ لانے کا دعویٰ کرتا ہے اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام ہی چینلز کا یہ دعویٰ جھوٹا ہے کیوں ١٩ جون ٢٠١٠ کو دو اتنے بڑے واقعات ہوئے لیکن کسی چینل نے ان پر بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک واقعہ حیدر آباد میں ہوا جہاں ایم کیو ایم حقیقی نے حیدر آباد پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا لیکن اس سے پہلے ہی ایک لسانی تنظیم کے غنڈوں نے پریس کلب میں درجنوں صحافیوں اور چینلز کے نمائندوں اور پولیس اہلکاروں کی موجودگی میں وہاں فائرنگ کی، حقیقی کے عہدیداران کو اغواء کرنے کی کوشش کی اور میڈیا کے لوگوں کے سامنے ان کو مغلظات بکیں اور لعنتیں دیں لیکن درجنوں صحافیوں کے سامنے اور پریس کلب پر ہونے کے باوجود یہ واقعہ میڈیا میں جگہ نہ بنا سکا۔ اور کسی چینل نے یہ خبر اس طریقے سے نہیں چلائی( اس واقعے پر مزید بات ہم الگ کالم میں کریں گے )۔

دوسری اہم اور بڑی بلکہ ہمارے نزدیک گزشتہ دس سالوں کی سب سے بڑی خبر اسلام آباد میں بنی اور اس کو خبر کو وہیں “ قتل “ کردیا گیا۔ ١٩ جون کو افغانستان اور پاکستان کے لئے امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک نے پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ اس پریس کانفرنس کی تفصیل اخبار میں آچکی ہے لیکن جو خبر وہیں دبا دی گئی اور کسی چینل نے اس کو “ ہائی لائٹ “ نہیں کیا۔ وہ ان کا ایک جملہ تھا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں جب وہ صحافیوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے تو ان سے ایک سوال دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق تھا اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رچرڈ ہالبروک نے اس جنگ کو “ نام نہاد جنگ “ قرار دیدیا۔ اگرچہ کے اس کے ساتھ یہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکہ مشترکہ خطرے کا سامنا کررہے ہیں۔

محترم قارئین کرام غور کریں کہ اس وقت پوری دنیا کا نقشہ اسی ایک جنگ کے باعث تبدیل ہوچکا ہے۔ پوری دنیا اس وقت دو بلاکس میں تقسیم ہوچکی ہے ایک وہ جو امریکہ کے مطابق ہمارے ساتھ ہے یعنی امریکہ کے ساتھ ہے اور دوسرا وہ جو ان کے یعنی امریکہ کے خلاف ہے۔ اس نام نہاد جنگ کے باعث لاکھوں لوگ اپنی جان سے گئے، لاکھوں معذور ہوگئے،لاکھوں بچے یتیم ہوگئے، اس نام نہاد جنگ کے باعث افغانستان، اور عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ اسی نام نہاد جنگ کی بنیاد پر دنیا بھر میں مسلمانوں کا تشخص بگاڑا گیا، اسی نام نہاد جنگ کے باعث دشمنان دین نے نبی مہربان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخانے خاکے بنائے، اسی نام نہاد جنگ کے باعث ہماری فوج کے جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، اسی نام نہاد جنگ کے باعث ہمارا ملک اس وقت ایک افراتفری اور انتشار کا شکار ہے، اسی نام نہاد جنگ کے باعث آئے دن کے دھماکے اور حملے ہمارا مقدر بن گئے۔ اسی نام نہاد جنگ کے باعث ہمارے ملک پر روزانہ ڈرون حملے ہو رہے ہیں اور روزانہ درجنوں لوگ قتل کئے جارہے ہیں۔ ہم تو اس کو ابتداء ہی سے نام نہاد جنگ کہتے آئے ہیں لیکن اب جبکہ اس جنگ کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں نے ہی اس کو نام نہاد کہہ دیا تھا تو ہمارا میڈیا اس انتہائی اہم معاملے پر چپ کیوں رہا؟ کہیں یہ حق نمک تو اد انہیں کیا جا رہا وہ نمک جو گرانٹ، پلاٹوں اور ملٹی نیشنل اداروں کے کروڑوں روپے کے اشتہارات کی صورت میں کھلایا جارہا ہے۔ اور اسی نمک حلالی کے چکر میں ملک میں تہذیب و اخلاق کا دامن تار تار کردیا گیا ہے۔

ذرا غور کریں کہ ایک پی پی پی کی فوزیہ وہاب کوئی جملہ کہہ دیں تو اس پر کئی روز تک پروگرام کئے جاتے ہیں، مذاکرے اور مباحثے منعقد کئے جاتے ہیں اور باقاعدہ علماء سے فتویٰ لیے جاتے ہیں کہ انہوں نے جو کہا ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے، لیکن اس معاملے پر سارے میڈیا والے چپ ہیں۔

یہاں ہم ایک بات کی وضاحت کردیں کہ جیسا کہ ہم نے مضمون کے آغاز میں کہا تھا کہ سفارتی اہلکار و ڈپلومیٹ الفاظ کے استعمال میں محتاط ہوتے ہیں تو وہ کوئی ایسی بات نہیں کہتے جس سے ان کو نقصان پہنچے، الا یہ کہ وہ بات از خود ان کے منہ سے نکل آئے جیسا کہ رچرڈ ہالبروک کے معاملے میں ہوا۔ البتہ بہت سے قارئین کے ذہن میں یہ بات آسکتی ہے کہ ہم خوامخواہ بات کا بتنگڑ بنا رہے ہیں اور اگر اس نے بھولے سے یہ بات کہہ دی تو کیا ہوا انسان سے غلطی بھی تو ہوسکتی ہے۔ بات تو بالکل درست ہے کہ انسان سے غلطی بھی تو ہوسکتی ہے اور ہم بھی اس کو غلطی ہی سمجھتے اگر ہمارے سامنے دو مثالیں موجود نہ ہوتیں پہلی بات تو یہ کہ یہ بات ایک امریکی عہدیدار نے کہی ہے اور امریکہ کا یہ ریکارڈ ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی ملک کے حکمران اس کے سامنے جھک گئے ہیں اور وہ لوگ اب مزاحمت نہیں کریں گے تو وہ اس ملک کے ذمہ داران کے سامنے اپنی اندر کی باتیں بڑی سفاکی سے کہہ دیتے ہیں کہ کرلو جو کرنا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ملک میں جب ڈرون حملوں کا آغاز ہوا تو اس وقت ہمارے سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور دیگر ان حملوں کو اپنی کاروائی کہتے تھے لیکن کچھ وقت کے بعد جب امریکہ نے دیکھا کہ یہ لوگ مزاحمت نہیں کر رہے تو اس کے بعد امریکہ نے اس بات کا برملا اظہار کرنا شروع کیا کہ “ یہ حملے تو ہم کرتے ہیں اور پاک فوج اس کی ذمہ داری قبول کرتی ہے “ یہ ایک مثال ہے۔

دوسری مثال بہت اہم ہے اور اسی وجہ سے ہم اس خبر کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ قارئین آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ٹوئین ٹاورز پر القاعدہ کے مبینہ حملوں کے فوراً بعد سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس منعقد کی تھی اور اس میں جارج بش نے کہا تھا کہ “ یہ ایک نئی کروسیڈ یعنی صلیبی جنگ کا آغاز ہے “ اس وقت بھی جارج بش کے ان الفاظوں کو اہمیت نہیں دی گئی ۔ خود جارج بش نے بھی یہ وضاحت کی یہ الفاظ غلطی سے ان کے منہ سے نکل گئے ہیں لیکن صرف چند ماہ میں ہی یہ بات ثابت ہوگئی کہ جارج بش نے یہ بات غلطی سے نہیں کہی تھی بلکہ یہی حقیقت تھی جو ان کے لبوں پر بے اختیار آگئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ رچرڈ ہالبروک کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کو “ نام نہاد جنگ “ قرار دینا بھی کوئی اتفاقی امر نہیں ہے بلکہ دراصل یہی اصل بات ہے جو بے اختیار ان کے لبوں پر آگئی ہے اس لئے میڈیا اس معاملے میں ذمہ داری کا ثبوت دے اور رچرڈ ہالبروک کے اس بیان کی روشنی میں حکومت سے یہ مطالبہ کیا جانا چاہئے کہ جن سے وفاداری نبھاہنے کے لئے آپ یہ جنگ اپنے سر پر لے رہے ہیں وہ تو اس کو نام نہاد جنگ قرار دے رہے ہیں اس لئے فوری طور پر اس نام نہاد جنگ سے علیحدگی اختیار کرکے ملک کو بد امنی سے نجات دلائی جائے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458924 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More