ایسی جمہوریت پر لعنت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

صاحب مجھے معلوم ہے کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں اور آپ کا وقت بہت قیمتی ہے مگر میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا، بس ایک چھوٹی سی کہانی سنانا چاہتا ہوں، شاید میری کہانی کسی اکبر علی، کسی ایمن کسی نادیہ، کسی بینش، کسی مزمل بی بی اور کسی شیخ اسماعیل کی جان بچاسکے، میں نے نگاہ اٹھا کر اُس کی طرف دیکھا، وہ چالیس پینتالیس سال کی درمیانی عمر کا شخص تھا، اُس کی آنکھوں میں زندگی سے لڑنے کا عزم اور چہرے پر حالات سے مقابلہ کرنے کا حوصلہ نمایاں تھا، اِس سے قبل کہ میں اُس سے معذرت چاہتا اور اُسے اپنی کہانی سنانے سے منع کرتا اُس نے بھی میری اجازت کی ضرورت محسوس کئے بغیر ہی اپنی کہانی سنانی شروع کردی، وہ کہہ رہا تھا،”جناب میں نے انٹرمیڈیٹ کیا ہوا ہے، ایک نجی کمپنی میں اچھی بھلی نوکری چل رہی تھی، بچے بھی درمیانے درجے کے اسکول میں پڑھ رہے، سفید پوشی سے زندگی گزر رہی تھی، بدقسمتی سے ایک دن کمپنی منجیر سے کسی بات پر تکرار سے بات بڑھ گئی، اُس نے مالک سے شکایت کردی، جس نے دس بارہ سال کی محنت، ایمانداری اور ملازمت کا خیال کئے بغیر مجھے فوراً ہی جاب سے نکال دیا، یہ دھچکا میرے لیے اِس قدر شدید تھا کہ میری پوری زندگی ہی بدل گئی۔

دوسری ملازمت حاصل کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہوگئیں، کئی مہینے گزر گئے، اِس دوران گھر میں موجود تمام جمع پونجی ختم ہوگئی، حتیٰ کہ بیوی کے چھوٹے موٹے زیور بھی بک گئے، نوبت فاقوں تک آگئی، محلے کے دکانداروں نے ادھار دینا بند کردیا، دوست رشتے دار ادھار دے دے کر تنگ آگئے، حال یہ ہوگیا کہ انہوں نے فون اٹھانے چھوڑ دیئے، اگر کسی سے ملنے جاتا تو اندر سے کہلوا دیا جاتا کہ موجود نہیں ہیں، ایک روز جب بیوی بچے تین وقت کے فاقے سے تھے، دل میں خیال آیا کہ اِس ذلت بھری زندگی سے تو مر جانا ہی بہتر ہے، مگر میرے پاس تو مرنے کیلئے بھی زہر خریدنے کے پیسے نہیں تھے، اچانک یاد آیا کہ کچھ عرصہ قبل چوہے مار زہریلی دوا کی گولیاں خریدی تھی، کیوں نہ اسے استعمال کیا جائے، اِس خیال کے آتے ہی خاموشی سے دوا کا پیکٹ ڈھونڈا، پیس کر باریک سفوف بنایا، کچن سے پرانا گڑ نکالا اور اُس میں گھول کر زہریلا شربت تیار کیا اور شربت کا جگ لے کر میں نے بیوی بچوں کو ایک کمرے میں جمع کیا۔

بیوی حیران تھی کہ گھر میں کھانے کو روٹی نہیں ہے، شربت کیسے بنا لیا، میں نے اُس کی آنکھوں میں موجود سوال کو محسوس کرتے ہوئے کہا، نیک بخت میرے پاس ایک بہت اچھی خبر ہے جلد ہی ہماری مشکل کے دن ختم ہونے والے ہیں، جب تم لوگ یہ شربت پی لو گے تو میں تمہیں وہ خوشخبری سناؤں گا، وہ سب خوش ہوگئے، میں نے ایک گلاس میں شربت انڈیلا اور اپنی بڑی بیٹی کو پینے کیلئے دینے لگا، اِس سے قبل کہ میری بیٹی اُس گلاس کو تھامتی، یکایک میرے سب سے چھوٹے بیٹے جس کا چہرہ فرط مسرت سے چمک رہا تھا، نے چھپٹ کر میرے ہاتھ سے گلاس لے لیا، کہنے لگا بابا جانی....پہلے میں پیوں گا، تاکہ خوشخبری بھی سب سے پہلے میں سن سکوں، جبکہ میری بیٹی بھی بضد تھی کہ بڑے ہونے کی وجہ سے شربت پہلے اُسے ملنا چاہیے، اپنے بچوں کی ایکدوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ میرے بچے مجھ پر کتنا اعتماد کرتے ہیں، وہ بھاگ بھاگ کر میرے ہاتھ سے زہر کا بھرا گلاس لے رہے ہیں، انہیں یقین ہے کہ اُن کا باپ اُن کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، بس جناب اُس ایک لمحے نے مجھے لرزا کر رکھ دیا۔

میں نے گلاس اپنے بیٹے کے ہاتھ سے چھین لیا اور تمام زہریلا شربت صحن کے ایک کچے گوشے میں انڈیل دیااور طے کرلیا کہ آج سے میں اپنے بیوی بچوں کیلئے ہر کام کروں گا، چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو ، چنانچہ دوسرے دن سے میں نے کباڑیے کا کام شروع کردیا اور گلی گلی، محلے محلے گھوم کر پرانی اشیاء ردی بوتلیں، جوتے وغیرہ جمع کرنے شروع کردیئے، جس سے مجھے اتنی آمدنی ہونے لگی کہ میرے گھر کا چولہا جلنے لگا، شروع میں مجھے کام کا سلیقہ نہیں تھا، لیکن جوں جوں کام کا طریقہ آتا گیا، میری آمدنی بھی بڑھتی گئی، اللہ نے میرے کاروبار میں برکت دی، اب میں خود ایک بڑا کباڑی ہوں اور میرے پاس کئی پھیری والے ملازم ہیں، میرے گھر کے حالات بھی بدل چکے ہیں، بچے پرائیوٹ اسکول میں زیر تعلیم ہیں، اللہ کے فضل و کرم سے میری زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے، میں اکثر سوچتا ہوں کہ اُس روز ایک لمحے کیلئے اگر شفقت بدری غالب نہ آتی اور میں اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنے کو عار نہ سمجھتا تو آج لاہور کے رکشہ ڈرائیور اکبر علی، کراچی کی بدنصیب ماں بیٹیوں، شاہدرہ کے بے روزگار نوجوان اور ڈی جی خان کے محنت کش شیخ اسماعیل کی طرح میری کہانی بھی اخبارات اور ٹی وی چینلز کی زینت بنی ہوتی۔

جناب آپ اخبارات میں لکھتے ہیں، میں نے آپ کو اپنی کہانی اِسلئے سنائی ہے کہ آپ میرا یہ پیغام اپنے قارئین تک پہنچا دیں کہ غربت سے زیادہ مایوسی انسان کو شکست خوردہ بناتی ہے، اُمید کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور کبھی اللہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، انسان کا کام ہے محنت کرنا، محنت میں ہی عظمت ہے، کوئی بھی کام برا نہیں ہوتا اور ایک انسان کو ہر کام کیلئے تیار رہنا چاہیے ۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھا، سلام کیا اور مجھے جھنجھوڑنے والی کہانی سنا کر چلا گیا۔

قارئین محترم حقیقت یہی ہے کہ جب آس اُمید اور یقین کا راستہ کھو جائے تو مایوسی اور ناامیدی انسان کو ایسے تاریک گھنے جنگل میں لے جاتی ہے، جہاں موت کی آغوش ہی اُس کو آخری پناہ گاہ محسوس ہوتی ہے، دنیا بھر کے نفسیاتی ماہرین اِس بات پر متفق ہیں کہ آدمی خودکشی اُس وقت کرتا ہے جب اُس کے سامنے زندگی گزارنے کے عمل کو پہاڑ جیسا مشکل بنا دیا جائے اور کوئی اُس کا ساتھ دینے کو تیار نہ ہو، جبکہ اُس کے سامنے لوگ آسانی اور تیز رفتاری سے یہ پہاڑ سر کر رہے ہوں، ایک عام آدمی کا آخری سہارا حکومت ہوتی ہے، لیکن اگر وہ بھی ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا ساتھ دے اور اپنی جیبیں بھرے تو مایوسی اور بھی شدید ہوجاتی ہے، اِس مایوسی کے عالم میں خودکشی کا دوسرا محرک زندگی کی وہ چمک دمک بن جاتی ہے جو حکمرانوں سرمایہ داروں اور طبقہ اشرافیہ میں نظر آتی ہے، غربت بھوک اور افلاس کے ستائے ہوئے لوگ جب اِس جانب دیکھتے ہیں تو نہ اُن کا یقین حکمرانوں پر قائم رہتا ہے اور نہ اللہ کی ذات پر۔

یہی وہ بے یقینی ہے، جو انہیں موت کو گلے لگانے میں مدد دیتی ہے، پاکستان میں اِس وقت غربت، بھوک اور بے روزگاری کا وحشیانہ رقص جاری ہے، گھر گھر، گلی گلی، محلے محلے غربت، بھوک اور افلاس کے عفریت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور یہ عفریت کمزوروں کو اسلیئے نگل رہا ہے کہ حکمرانوں نے اپنی ظالمانہ اور عوام کش پالیسیوں کا سحر پھونک رکھا ہے، اُن کے پاس عوام کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں، دوسری طرف مہنگائی نے لوگوں کو پاگل کر دیا ہے اور جب انہیں کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ملتی وہ موت کی آغوش میں پناہ ڈھونڈتے ہیں، خودکشی کے یہ واقعات پاکستان کے ہولناک سماجی اور نفسیاتی منظر نامے کی عکاسی کر رہے ہیں، گو کہ غربت پاکستان میں ہمیشہ رہی ہے، لیکن گزشتہ چند عشروں سے ایسی صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ لوگ دنیا کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے آخرت کی مصیبت اور عذاب کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔

ہمارا ماننا ہے کہ عوام کی دنیا و آخرت کی بربادی کے ذمہ دار پاکستان کے حکمراں ہیں، جنہوں نے اللہ کی رحمتوں سے مالا مال ملک کو بدترین حال تک پہنچا دیا ہے، اگر حکمرانوں کی پرتعیش زندگی، بدعنوانی اور رشوت خوری کے ذریعے جمع کیے گئے کروڑوں اور اربوں روپے کی داستانوں پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک کی تباہی کے اصل ذمہ دار کون ہیں، یہ صورتحال پاکستان میں سیاسی انقلاب، سماجی اصلاح اور جمہوریت کے اُن دعویداروں کے منہ پر بھی طمانچہ ہے جو اب بھی بیرونی اشاروں پر غریب عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنے کے منصوبے بنا رہے ہیں، انہیں اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ملک کے غریب عوام کس کرب و اذیت میں مبتلا ہیں، اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ ایک دوسرے کے منہ سے روٹی کے نوالے چھیننے لگیں گے۔

اَمر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ زندہ رہنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، جس کا نتیجہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی صورت میں سامنے آرہا ہے اور اس رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مایوسی، عدم اعتماد، غربت، خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، بے روزگاری اور احساسِ محرومی بڑھتا جارہا ہے، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح ایشیاء میں ہے، جو پوری دنیا کے مقابلے میں ساٹھ فیصد ہے، ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال چھ سے آٹھ ہزار افراد خودکشی کر رہے ہیں، جن میں سے پچاس فیصد سے زائد واقعات تو مختلف وجوہات کی بنا پر رپورٹ بھی نہیں ہوتے، صرف دارالحکومت اسلام آباد میں پانچ برس کے دوران 99 خودکشی اور اقدام خودکشی کے واقعات رونما ہوئے، آغا خان ہسپتال کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق خودکشی کے 90فیصد واقعات کا تعلق ڈپریشن سے ہوسکتا ہے۔

یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مراد موسیٰ خان کا کہنا ہے کہ ملک کی 34 فیصد آبادی عام اعصابی امراض میں مبتلا ہے، جس میں زیادہ تر افراد تیس سال سے کم عمر ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتی ہوئی سماجی و معاشی مشکلات نے صورت حال کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے، جبکہ اِن مسائل پر قابو پانے میں حکومت کی ناکامی لوگوں میں مایوسی کو بڑھاتی ہے، جو بالآخر ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتی ہے، ڈاکٹر مراد کا کہنا ہے کہ مایوسی خودکشی کے عوامل میں سے ایک ہے، کیونکہ انسان جتنا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے، اُس میں مایوسی اور ناامیدی اتنی ہی بڑھ جاتی ہے، خودکشی کے خلاف کام کرنے والی ایک عالمی تنظیم انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پری وینشن (آئی اے ایس پی) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال دس لاکھ سے زیادہ لوگ خودکشی کرتے ہیں اور اِن کی تعداد جنگوں، دہشت گردی کے واقعات اور قتل کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

اِس وقت پاکستان میں روزانہ اوسطاً سات افراد خودکشی کر رہے ہیں، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2008ء میں دو ہزار پانچ سو اٹھائیس افراد نے خودکشی کی جن میں ایک ہزار سات سو پچیس مرد اور آٹھ سو تین خواتین شامل ہیں، جنوری 2000ءتا دسمبر 2009ء کے دوران پاکستان بھر سے خودکشی کے 31349 واقعات رپورٹ ہوئے، جس کی زیادہ تر وجہ انصاف کی عدم فراہمی یا پھر معاشی بدحالی ہے، حقیقت یہ ہے کہ خودکشیوں کی بنیادی وجہ معاشی بدحالی کے ساتھ مغرب کی نقالی اور اپنی تہذیب و تمدن اور اپنے دین سے دور ہوکر مغرب کی جدیدیت اور مادیت کا شکار ہونا بھی ہے، جس نے فرد اور ہمارے معاشرے میں اضطراب اور بے سکونی کی کیفیت پیدا کردی ہے اور ہمارے ملک میں مغربی معاشرے کی طرح ذہنی و اعصابی امراض پیدا ہوگئے ہیں، جس کا منطقی نتیجہ خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی صورت میں سامنے آرہا ہے، ماہرین نفسیات کے مطابق مسائل میں گھرے ہوئے انسان کو جب اُمید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تو وہ موت کو تمام مسائل کا حل سمجھتا ہے۔

پاکستان میں غربت اور بیروزگاری کی شرح میں جس تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اُس نے ایک غریب آدمی کی کمر توڑ کر رکھدی ہے، اِس وقت پاکستان کی تقریباً60فیصد سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے، حالات میں بہتری کی امید اُن کے لیے ماند پڑتی جارہی ہے، مایوسی بڑھ رہی ہے اور وہ نوجوان جو ملک و قوم کا سرمایہ ہیں وہ اپنی زندگیاں ختم کر رہے ہیں، پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت، مہنگائی، ناانصافی لوگوں کیلئے زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے اور پاکستان کے سماجی، اقتصادی اور صحت سے متعلق بڑھتے ہوئے مسائل اور بیروزگاری اور غربت کی ابتر صورت حال نے لوگوں کو حرام موت اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی سماج بھی اب مغربی سماج کی طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے، ایسے میں خودکشی اور مایوسی کے اِس رجحان کو روکنے کے لیے حکومت سے اُمید رکھنا کار عبث ہے، کیونکہ حکمراں تو ریس کے شوقین، گولف کے دلدادہ اور عالیشان محلوں کے رہنے والے ہیں، عوام کو پینے کا صاف پانی اور دو وقت کی روٹی میسر ہو یا نہ ہو لیکن اُن کے گھوڑوں کیلئے تو میوے بادام حاضر ہیں، ایسے میں قوم کو اپنی تقدیر اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہوگا اور اِن ظلموں سے نجات کے لیے عملی قدم اٹھانا ہوگا، ورنہ ایک وقت آئے گا کہ پوری قوم یا تو اجتماعی خودکشی پر خود مجبور جائے گی یا پھر زبردستی مجبور کردی جائے گی، ہم سمجھتے ہیں کہ کروڑوں لوگوں کو مہنگائی، بھوک اور بے روزگاری کی مار دے کر حکمران ملک کو اُس خونی انقلاب کی طرف دھکیل رہے ہیں جو سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دے گا، پنجاب کے وزیر اعلیٰ اِس انقلاب سے متعدد مرتبہ خبردار کر چکے ہیں، اب تو حکومتی جماعت کے رکن سنیٹر رضا ربانی نے بھی کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ گلیوں سے اٹھنے والا انقلاب حکمران طبقے کو بہالے جائے گا، درست فرمایا فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہ” جس ملک میں عوام فاقوں سے مر رہے ہوں، وہاں جمہوریت کے بھنگڑے ڈالے جائیں، تو ایسی جمہوریت پر لعنت ہے۔“
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314142 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More