عدل و انصاف سے مسائل کا حل

جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) انتظامیہ نے ’غداری‘ کے ملزم طلبہ یونین کے صدر کنہیا کمار پر 10 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے جبکہ عمر خالد اور انربان بھٹاچاریہ کو ایک ایک سمسٹر کے لئے نکال دیا ہے۔ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر اے بی وی پی طلبہ پر بھی جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کنہیا، عمر اور انربان سمیت 14 طالب علموں کو نظم و ضبط کو توڑنے کا مجرم پایا ہے۔جے این یو انتظامیہ کی جانب سے جاری سرکاری بیان کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش پر عمل کرتے ہوئے اس نے کنہیا کمار پر دس ہزار روپے کا اور عمر خالد اور آشوتوش پر 20 -20 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انربان بھٹاچاریہ اور خالد کو ایک سمسٹر کے لئے جبکہ ایک اور طالب علم مجیب گٹٹو کو دو سمسٹر کے لئے نکال دیا گیا ہے۔آشوتوش کی یونیورسٹی ہاسٹل میں ایک سال تک داخلہ پر روک لگا دی گئی ہے۔دو سابق طالب علموں کی یونیورسٹی میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ کنہیا کے خلاف شکایت کرنے والے اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے لیڈر سوربھ شرما اور اس کے ساتھیوں پر بھی ملک مخالف سرگرمیوں کی وجہ 10-10 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔گزشتہ نو فروری کو جے این یو احاطے میں پارلیمنٹ حملے کے مجرم افضل گرو پر متنازعہ پروگرام منعقد کرنے کی وجہ سے ان طالب علموں کو نظم و ضبط کو توڑنے کا مجرم پایا گیا ہے۔ اس معاملے میں تحقیقات کے لئے قائم پانچ رکنی کمیٹی نے کچھ دنوں پہلے اپنی رپورٹ یونیورسٹی انتظامیہ کو سونپی تھی۔جس سے واضح ہوتا ہے کہ اب یونیورسٹی نے حقیقت میں خودمختاری کے ساتھ حتمی فیصلہ لیا ہے اور ہر انصاف پسند حلقوں میں اس فیصلے کی پذیرائی ہونی چاہئے ۔چونکہ یونیورسٹی کا معاملہ اندرونی ہوتا ہے اور طلبہ کے ہر غلطی ہر پہلے انتظامیہ ہی اس پر ایکشن لیتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے یہی ضابطہ ہندوستان بھر میں رائج ہے ۔لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اگر یہی معاملہ پہلے ہوجاتا اور اسے سیاست کی بھینٹ نہ چڑھنے دیا جاتا تو سب کی ساکھ بچی رہتی ۔لیکن اس معاملہ میں فوراً یونیورسٹی انتظامیہ نے کوئی خاص اقدام نہ کر کے بڑی بھول کی تھی جسے میڈیا اور سیاست نے اچک لیا اور یہ معاملہ انٹر نیشنل پیمانے پر پہنچ کر ہندوستان کی بدنامی کا باعث بنا ۔دنیا نے یہی تاثر لیا کہ کس طرح تعلیمی اداروں میں سیاست داں سیاست کی بازی گری کھیلتے ہیں جس میں تعلیم کے نقصان کے ساتھ ساتھ طلبہ کی آزادی پر بھی آنچ آتی ہے ۔اور یونیورسٹی جو تعلیم گاہ ہوتی ہے وہاں سیاست نے زور پکڑ ا اور اس قدر پکڑا کہ پورا ہندوستان دو نظریات کے درمیان تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف نہ صرف زہر افشانی میں اضافہ ہوا بلکہ تعلیم کا بھی نقصان ہوا اور ملک میں ایک نئی بحث نے جنم لے لیا جسے ہم نیشنل از کہتے ہیں ۔ہر گروپ نے اپنے آپ کو زیادہ محب وطن ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا اور قوم پرستی ملک میں پڑوان اس طرح چڑھا کہ ایک نعرہ کو قومی علامت کے طور پر دیکھا جانے لگا اور اس کے اثرات ملک بھر میں دیکھے گئے ۔جس نے اس نعرہ سے انکار کیا اسے زدوکوب کیا گیا اور دیش دروہی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ۔اور پورا ہندوستان نیشنلزازم کی بحث کا گہوارہ نظر آنے لگا ۔تبھی ملک میں خشک سالی نے ڈیرھ جما لیا جس پر سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو خشک سالی سے آگاہ کرایا کہ ایک طرف ہندوستان زبردست سوکھے کی چپیٹ میں ہے اور پارٹیا ں کنہاں کنہاں کھیلنے میں مصروف عمل ہے ۔حکومت کو عوام کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنا ہی ہوگا اس کے لئے حکومت کیا کر رہی ہے ۔سپریم کورٹ کے سخت حکم کے بعد حکومت نے اپنی توجہ خشک سالی جیسے بحران پر مرکوز کی ۔اور قابل مبارک باد ہے مرکزی حکومت نے جس نے بہت جلد مہاراشٹر کے لاتور میں ٹرین سے پانی پہنچانے کا کام شروع کر دیا اور تقریباً روز ہی ایک ٹرین لاتو ر جیسے علاقو ں میں جاکر پانی پہنچانے کا کام کر رہی ہے ۔اس سے قبل بھی میں نے اپنے اداریہ میں کہا تھا کہ دیگر ممالک میں پانی مہیا کرانا سرکار کا کام ہے اور وہ بھی اولین کاموں میں شمار ہوتا ہے ۔سعودی جیسے ملک سمندر سے پانی بناتا ہے جو کافی مہنگا پڑتا ہے لیکن پھر بھی یہ کام وہ ضرور کرتا ہے ۔اس لئے مجھے بے حد خوشی ہے کہ سرکار نے واقعی اپنی حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں پانی کیلئے سنجیدہ ہو گئی ہے اور قوم پرستی کا بحث بپی ماند پڑ گئی ہے ۔قابل تعریف ہے یہاں کی عدلیہ جو سماج اور ملک کے تمام حساس معاملے میں مرکز سے لیکر ریاست تک کی توجہ مبزول کرانے کا کام کرتی ہے ۔یہی تو ہندوستان کی خوبی ہے جس پر تمام ہندوستانیوں کو ناز ہے ۔

 
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101928 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.