برطانوی شہزادے کی ہندوستان آمد

 برطانوی شہزادہ ولیم اپنی اہلیہ کیٹ کے ہمراہ بھارت کے دورے پر ممبئی پہنچ گئے ، شاہی جوڑے کا پہلے دورہ بھارت کے موقع پر شان دار استقبال کیا گیا، اس موقع پر سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ اتوار کو میڈیا کے مطابق بر طانوی شہزادہ ولیم اپنی اہلیہ کیٹ کے ہمراہ بھارت پہنچے۔ برطانوی شہزادہ ولیم اپنی اہلیہ کے ہمراہ ملک کے ایک ہفتے کے سرکاری دورے پر ہیں جہاں وہ دونوں مختلف تقاریب میں شرکت کر رہے ہیں،شہزادہ ولیم نے ممبئی کے ایک اسپورٹس گروانڈ میں بچوں کے ساتھ وقت گزارا۔اپنے دورے کے دوران شہزادہ ولیم اہم حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں بھی کریں گے ،جوڑے نے ممبئی پر ہونے والے دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول بھی چڑھائے۔شہزادے اور ان کی اہلیہ شہزادی کیٹ نے بھارت کے سابق کرکٹ کپتان سچن ٹنڈولکر کے ساتھ کر کرکٹ بھی کھیلی۔شہزادی کیٹ نے بھی اپنی کرکٹ کی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔یہ اور اس طرح کی خبروں سے ٹی وی نیوز چینل اور اخبارات بھرے اور اٹے پڑیں ہیں ۔لیکن افسوس تو تب ہوا کہ کسی نیوز چینل نے یا پھر کسی ہندی یا انگریزی اخبار نے اس کا تنقیدی جائزہ نہیں لیا سوائے اردو کے چند ایک اخبارات کے ۔برطانوی شہزادے کی ہندوستان آمدپر ہمار اتاولاپن ہماری ذہنی غلامی کا ثبوت پیش کر رہا ہے ۔وہ برطانیہ جس نے ہمارے ملک کو تین سو سالوں تک غلام بنا کر رکھا اور اس نے ہندوستانیوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا ،اس نے ہندوستانیوں کے ساتھ کون سا ایسا ظلم کا حربہ تھا جس کو نہیں آزمایا بلکہ اس نے ہندوستانیوں کو کیڑے مکوڑے کی طرح جانور بنا کر اس پر سواریا بھی کرتے تھے ۔کیا یہ سب ظلم و ستم آزادی کے محض 68سالوں میں ہم بھول گئے ۔نہیں ہم نے ان کا شاندار استقبال کر کے اپنے محب وطن جنگ آزادی کے سرماؤں کی تذلیل کی ہے ۔ان کی قربانیوں کو فراموش کی ہے ۔کہنے کو تو آج محب وطن ثابت کرنے کی تحریک چھڑ چکی ہے ۔وہ بھی ہماری حکومت کے کارندے کی ذریعے لیکن جس نے ہمارے ملک کو نا صرف غلام بناکر رکھا بلکہ ہندوستانیوں کے ساتھ جانور جیسا سلوک کیا تھا اس کا استقبال ہم سرخ قالین کے ذریعے کر رہے ہیں ۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آج ہم ملک کو شرمسار کرنے کی کوشش کی ہے ۔اپنے محب وطن کو رسوا کیا ہے جنہوں نے اپنے خون و پسینے سے اس گلشن کا آبیاری ہی تھی اس کا منہ چڑھایا ہے ۔آخر ہم نے ان کے استقبال سے قبل ہفتہ دس دن تک ان کی آمد کے اتنے منتظر کیوں تھے ۔کیا ہمارے ملک کو کوئی سفارتی فائدہ ہونے والا تھا یا ہمارے ملک کو کوئی معاشی فائدہ ہونے والا تھا ۔جواب نفی ہے یعنی ان کی آمد سے ہمارے ملک کو کوئی فائدہ بھی نہیں ہونے والا تھا تو پھر ہم کیوں ان کے آگے اپنی آنکھیں بچھانے پر مجبور ہیں ۔کیا ہم نے اپنے اوپر توڑے گئے ظلم و ستم کو اتنے آسانی سے بھلا دیا ہے ،کیا ہمارا ذہن اب بھی غلام ہے ،یا پھر ہم اصلی آزادی کے متوالے نہیں ہیں بلکہ منافق ہیں جنہوں نے انگریزوں کی مخبری کی تھی اپنے ہی محب وطن کے خلاف جاسوسی کر کے برطانیوی حکومت کو سونپ دیا کر تے تھے ۔کیا آج اشفاق اﷲ اور بھگت سنگھ کی اولاد ہندوستان میں باقی نہیں ہیں ۔کیا آج سب کے سب اس آزاد ہندوستان میں انگریزوں کے تلوے چاٹنے والے مخبر کی اولاد ہیں ۔مجھے شرم آ رہی ہے یہ سب لکھنے میں لیکن کیا کریں ۔ملک سے محب کی جنون میں مجھے ایسا کہنا پڑ رہا ہے ۔شاید ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو اپنے دشمن اور دوست کی پہچان بھی نہیں کر سکتے ہیں ۔کہنے کو تو مغلیہ کو بھی باہر کا کہتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اس نے ہندوستانیوں کے ساتھ کبھی بھی ناروا سلوک نہیں کیا بلکہ اسے ہمیشہ اپنی رعایا کی حیثیت سے اس کے حقوق کی پاسداری کی ۔وہ ہمارے ملک کو لوٹ کر باہر نہیں بھاگے اور نا ہی ہندوستانیوں کے درمیان کسی قسم کا بھید بھاؤ رکھا ۔تاریخ گواہ ہے کہ عہد مغلیہ میں کبھی فرقہ وارانہ فساد نہیں ہوئے ۔لیکن برطانوی حکومت نے ہندو مسلم کو لڑانے کی ہر وہ مذموم کوشش کی تھی جس سے ہندو مسلم مشتعل ہو جائیں ۔کارتوس میں گائے اور سور کا چربی استعمال کر کے اس نے دونوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں میرٹھ میں سپاہیوں نے بغاوت کی اور اس کی لہر دہلی تک پہنچ گئی اور ہندوستانیوں نے ضعیف العمر بہادر شاہ ظفر کو لال قلعہ سے اٹھا کر اپنا حاکم بنا کر علم بغاوت بلند کی تھی ۔آج ہمارے ملک میں محب وطن اور غیر محب وطن کی بحث چھڑی ہوئی ہے ۔اسی درمیان برطانیوی شہزادے کی آمد نے ہمارے محب وطن ہونے پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے ۔اس سے بڑھ کر کوئی دیش دروہی ہو ہی نہیں سکتی ہے کہ ہم اپنے ظالم اور اپنے ملک کو غلام بنانے والے کا استقبال سرخ قالین پر کریں ،اس سے گری ہوئی کوئی مثال ہو ہی نہیں سکتی ہے ۔آج ہمارے محب وطن ہونے پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے کہ کیا کوئی بھارت ماتا کے دشمن کا استقبال سرخ قالین پر کیسے کر سکتا ہے ۔افسوس صدافسوس ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 101926 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.