پاکستان اورسعودی عرب سے ٹوٹتا امریکی اتحاد؟

پاکستان کے ساتھ نصف صدی کا اتحاد کوختم ہو رہاہے ۔ سعودی عرب کے ساتھ بھی 80سالہ رفاقت ٹوٹ رہی ہے۔ امریکہ اب پاکستان اور سعودی عرب کے مخالفین کے ساتھ سٹریٹجک رشتے استوار کرنے لگا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب کی قیمت پر ایسا ہو رہا ہے۔ پاکستان کے مقابلہ میں بھارت اور سعودی عرب کے مقابلہ میں ایران اس کا اگلا نشانہ ہے۔ کل ان سے بھی مفاد ختم ہو گیا تو کوئی دوسرا دشمن ملک ہدف بنے گا۔ بین الاقوامی تعلقات میں نظریات ، جذبات، زاتی دوستی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ صرف اپنے قومی مفادات پر نظر رکھنے والے ممالک ایسا ہی کرتے ہیں۔ ان میں امریکہ بھی شامل ہے۔

امریکہ نے جاپان کے شہروں کو تباہ کیا۔ لاکھوں معصوموں کو ہلاک کیا۔ مگر جاپان نے امریکہ کو زا دینے یا اپنے مظلوم مہلوکین کو انصاف دلانے کی کوئی کوشش نہ کی۔ امریکہ پر بدترین جنگی جرائم کے مقدمات بھی قائم نہ کئے۔ سب کچھ فراموش کر دیا گیا۔ اب جاپان اسی امریکہ کا پارٹنر ہے۔

امریکہ ہمیشہ پاکستان کو بہلاتا رہا ہے۔ اس نے جو جنگی ساز و سامان فراہم کیا ۔ اس کی معقول قیمت وصول کی۔ نام نہاد دوستی پاکستان کے ساتھ رکھی اور عملی دوستی بھارت کے ساتھ نبھائی۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے نئے مارکیٹ بن رہے ہیں۔ وسائل ختم ہو گئے تو کسی دوسری طرف نکل پڑیں گے۔ سعودی عرب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے۔ وہ حیران کن ہے۔ اب امریکہ نے سعودی عرب پر مقدمات قائم کرنے پہلا مرحلہ طے کر لیا ہے۔ اس کی سینیٹ میں یہ قانون منظور کر لیا گیا۔ جس کے تحت نائن الیون حملوں کا ذمہ دار سعودی عرب کو قرار دیا گیا ہے۔ ورلد ٹریڈ سنٹر ٹاور کی تباہی میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ سعودی حکومت پر مقدمہ قائم کریں گے تو اس کے نتائج بھیانک ہو سکتے ہیں۔ سینت کے بعد ایوان نمائیندگان میں یہ قانون منظور یکے لئے پیش ہو گا۔ پھر صدر اوباما اس پر دستخط کریں گے۔ ابھی یہ کہا جا رہا کہ صدر اوباما اس بل کو منظور نہیں بلکہ ویٹو کریں گے۔ انہوں نے اس موقف کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔ مگر یہ سب ایک سفارتی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ مگر ڈیموکریٹک سینیٹرز کا دعویٰ ہے کہ یہ ویٹو ناقابل قبول ہو گا۔ سعودی عرب نے ہمیشہ ان حملوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔ صدر اوباما اس بل کو قانون بننے دیں گے یا نہیں اس بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ یہ بل ڈیموکریٹک اور ری پبلکن سینیٹرز نے سپانسر کیا ہے۔ اس بل کو سینیٹ کی جانب سے متفقہ طور پر منظور کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی پارلیمنٹ کا دوسرا ایوان بھی اسے منظوری دے گا۔ صدر اوباما کے تحفظات کے باوجود اسے منظور کرنا مجبوری بن جائے گی۔ ہلاک ہونے والوں کے لواھقین کیسے ایک حکومت کے خلاف امریکی عدالت میں مقدمہ قائم کریں گے۔ امریکی عدالت کا اختیار دوسرے ملک کے خلاف مقدمہ کی شنوائی کرنے کی اجازت تک محدود ہو یا نہ ہو۔ مگر امریکہ سعودی تعلقات ختم ہونے کی یہ ابتدا ہے۔

یہ امریکی قانون کیا ہے۔ اس کا اطلاق کیسے ہو گا۔ اس کا نام “Justice Against Sponsors of Terrorism Act”رکھا گیا ہے۔ امریکی کانگریس نے اس قانون کے نفاذ سے ثابت کرنا ہے کہ انٹرنیشنل دہشتگردی(جو امریکہ نے شروع کی ہے) امریکی مفاد کے لئے شدید خطرہ ہے۔ اس سے امریکی تجارت اور مارکیٹ کے استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس سے امریکی شہریوں کا ملک سے باہر سفر اور دیگر ممالک کے لوگوں کی امریکہ آمد پر خطرناک اثرات پڑتے ہیں۔ کانگریس نے تاثر دیا کہ باہر کے بعض ممالک میں دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ امریکہ پر حملوں کے لئے ہو رہی ہے۔ امریکہ کے خلاف افراد ، ادارے، ممالک کی جانب سے حمایت یا وسائل کے استعمال سے اگر امریکی فارن پالیسی، قومی سلامتی، یا معیشت کو نقصان ہو تو پھر ملوث لوگوں کو امریکی عدالت میں لایا جا سکتا ہے۔ یہ امریکی قانون ہے۔ جب مقدمے قائم ہوں گے تو سعودی عرب سے بھاری معاوضوں کا مطالبہ ہو گا۔ اس قانون کی منظوری کے بعد اس پر حکم امتناعی بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ امریکی عدالت میں یہ سٹے آرڈراس صورت میں ہو سکے گا جب امریکہ وزیرخارجہ یہ سند جاری کرے گا کہ ان کی حکومت بیرونی ملک کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے۔ وغیرہ۔ مگر یہ سٹے چھ ماہ سے زیادہ نہیں ہو گا۔ اٹارنی جنرل اس سٹے کو مزید چھ ماہ تک توسیع دلا سکتے ہیں۔

یہ سب نائن الیون کمیشن کی رپورٹ پرکیا جا رہا ہے۔ کمیشن نے کہا تھا کہ اسے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ بطور ادارہ سعودی حکومت یا سینئر سعودی عہدیداروں نے زاتی حیثیت میں نائن الیون کے حملے کرنے میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ لیا گیا کہ سینئر نہیں تو جونیئر حکام نے ان حملوں میں کوئی کردار دا کیا ہے۔ یا سعودی ھکومت کے کچھ اداروں کا اس میں کوئی رول ہے۔ امریکی کانگریس کی تفتیش بھی منفرد تھی۔ اس میں بھی کچھ ایسے شواہد پیش کئے گئے کہجن سے یہ تاثر ملا کہ ان حملوں کی منصوبہ بندی میں امریکہ میں موجود بعض سعودی حکام ملوث تھے۔

سعودی عرب کا ردعمل بھی یقینی ہے۔ سعودیہ نے امریکہ میں 750ارب ڈالرز کے امریکی بانڈز خریدے ہوئے ہیں۔ اگر سعودیہ عرب اپنی دھمکی کے مطابق امریکی بوندز فروخت کر دیتا ہے تو امریکی معیشت پر اس کے منفی اثرات پڑیں گے۔ سعودیہ کو خطرہ ہے کہ اس کے بینک اکاؤنٹس امریکی عدالتیں منجمد کر دیں گی۔ اس لئے اس سے پہلے ہی بونڈز بیچ دیئے جائیں۔ یہ کشیدگی اور تناؤ صرف سعودی عرب تک محدود نہیں رہ سکتا۔ بلکہ اس کے دیگر ممالک تک بھی پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔19ہائی جیکرز میں کہا جاتا کہ15کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ ان کا لیڈر محمد عطا مصر اور دو ائی جیکرز عرب امارات کے بتائے گئے۔ ایک کا تعلق لبنان سے ظاہر کیا گیا۔ یعنی امریکہ میں ان ممالک کے خلاف بھی مقدمہ چلے گا۔

صدر اوباما اس سے پہلے یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سعودی عرب اس کی خارجہ پالیسی کا ناجائز فائدہ اٹھاتا رہا ہے۔ جس پر سعودیہ کا شدید ردعمل آیا تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ نائن الیون کمیش کی رپورٹ کو ہارپر میگزین نے چیٹنگ اور فراڈ قرار دیا تھا۔یہ ہارپر میگزین تھی جس نے ویتنام میں قتل عام کے انکشافات کئے تھے۔کمیشن کی رپورٹ کے 25لاکھ صفحات پر ہزاروں افراد کے انٹرویوز لئے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعض اہم حصوں کو کلاسیفائیڈ کیا گیا۔ رپورٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ سعودی عرب اور دیگر ممالک پر امریکی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا آغاز ہو گیا ہے۔

القائدہ امریکہ کی پیداوار ہے۔ امریکہ نے ہی سعودی عرب اور دیگرمسلم ممالک کو اس میں ملوث کیا۔ اب اپنی غلطی کے ازالے کے بجائے ان ممالک کے خلاف جنگ شروع کر رہا ہے۔مشرق وسطیٰ کے حالات اس کے گواہ ہیں۔جہاں تنازعات کو ہوا دینے کے لئے سعودی عرب کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ پہلے دیوبندیوں اور سلفیوں کو کمیونسٹوں کے خلاف استعمال کیا ۔ اب اسلام کی من پسند تشریح کرتے ہوئے شیعہ اورصوفی اسلام کو دیوبندیوں اور سلفیوں کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ اس صوفی اسلام کی مجلسوں کی صدارت نریندر مودی کر رہے ہیں۔ امریکہ مودی کو پاکستانی حکمرانوں پر ترجیح ہی نہیں دیتا بلکہ پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت کو جنگی اسلحہ اور ٹیکنالوجی منتقل کرنے میں بھی مصروف ہے۔ ہو سکتا ہے امریکہ کے چنگل سے آزاد ہونے کا وقت قریب آ گیا ہو۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555100 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More