ملک کی بقاء و استحکام
(Syed Farooq Ahmed Syed, India)
ملک کی بقاء و استحکام اور فرقہ وارانہ یکجہتی کے لئے سیکولر پارٹیاں ایثار و قربانی اور ملکی مفاد کو ترجیح دیں
سیکولر پارٹیاں مضبوط متحدہ پلیٹ فارم کے لئے منظم لائحہ عمل تیار کریں |
|
ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی
آج کا ہندوستان کل کے ہندوستان سے مختلف نظر آرہا ہے۔ کل کے ہندوستان کی
گنگاجمنی تہذیب مثالی مانی جاتی تھی اور اسے حسین گلدستے سے تشبیہ دی جاتی
تھی جس میں مختلف رنگوں ، خوشبوؤں کے پھولوں سے وہ گلدستہ سجا ہوا تھا ، آج
اس ہندوستان کو نظر لگ گئی ہے۔ ہندوستان کی آزادی اور اس سے ماقبل کے
جوحالات تھے کم و بیش اسی طرح کے حالات ہندوستان کے نقشے پہ نظر آرہے ہیں۔
اس وقت انگریزوں کی غلامی سے نجات کے لئے بلاکسی تفریق مذہب و ملت اور ذات
و دھرم کے ہر ہندوستانی نے خصوصاً ہزاروں علماء کرام نے اپنی جان کی بازی
لگائی تھی اور سامراجی دور کے خاتمہ کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا
اور لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ہندوستان کو آزادی دلوائی تھی ، اس
موقع پر انگریزوں نے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اختیار کی تھی اور
آج بھی ہندوستان میں ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل ہورہا ہے۔
اُس وقت دشمن باہر کے تھے مگر آج جو ہیں وہ ہم ہی میں سے ہیں۔ لگتا ہے وہ
جو باہر والوں کے آلہ کار بن گئے ہوں آج ہر ہندوستانی کو ہندوستان کے تحفظ
، اس کے بقاء اور استحکام کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ یکجہتی کے لئے تن من
دھن کی بازی لگانے کی ضرورت ہے اور ان شدت پسندوں ، فسطائی طاقتوں سے لوہا
لینے کی ضرورت ہے جو ہندوستان کے امن چین سکون اور اس کی سالمیت کے لئے
خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ سیکڑوں ادیبوں ، شاعروں ، مصنفوں ، سائنسدانوں اور
سماجی خدمتگاروں نے اِس سمت پہل کرلی ہے۔ ان لوگوں کی اس پہل سے اندازہ
ہواکہ ہندوستان میں شرپسند اور فسطائی طاقتیں کامیاب نہیں ہوسکتیں اور
ہندوستان کو ذات دھرم اور مذہب کے خانوں میں باٹے جانے کی سازش کبھی کامیاب
نہیں ہوسکتی اور یہ بھی اندازہ ہوا کہ فسادِ ذہنی اور شیطانیت ، خردماغی کے
حامل لوگوں کی تعداد مٹھی بھر ہے ورنہ اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو مل جل کر
چین و سکون سے رہنا چاہتے ہیں اور ہندوستان کو گہوارۂ امن و سکون ہی رہنے
دینا چاہتے ہیں۔ موجودہ دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کی تمام سیکولر
پارٹیاں مضبوط و مستحکم پلیٹ فارم پر آکر متحدانہ طور پر دشمن طاقتوں کا
مقابلہ کریں۔ اِس کے لئے انھیں خودغرضی کی بجائے ایثاروقربانی ، ذاتی مفاد
کے مقابلہ میں ملکی مفاد پیش نظر رکھنا ہوگا۔ بہار اسمبلی انتخابات اور اس
کے نتائج سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور اسی کو ماڈل بنایا جاسکتا ہے ۔ جو
جو طریقے وہاں استعمال کئے گئے وہ وہ طریقے روبہ عمل لائے جائیں تو ممکن ہی
نہیں بلکہ یقینی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے ملک کی بقاء ،
استحکام اور فرقہ وارانہ یکجہتی کا فروغ ہوگا۔ ہندوستان میں چین سکون عام
ہوگا اور عدم تحفظ کا احساس ختم ہوگا۔سیکولر پارٹیوں کے لئے دوسرا سب سے
بڑا اہم کام جس کی طرف اِن پارٹیوں کا دھیان دینا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ :
سیکولر پارٹیاں اپنی شکست کا محاسبہ اور اقلیتوں کے تئیں پالیسی پر نظرثانی
کریں
سیکولر پارٹیوں کے لئے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی سے زیادہ اقلیتوں کے تئیں
پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ریاستی اور قومی سطح پر غیرسیکولر پارٹیوں
کے اقتدار پر آنے کے بعد ہندوستانی اقلیتیں خصوصاً مسلمان دشوار کن مراحل
اور صبر آزما دور سے دوچار ہے اور اِن تمام باتوں سے سیکولر پارٹیاں نہ صرف
بخوبی واقف ہیں بلکہ تماشہ بیں بنی ہوئی ہیں۔ اِن کی خاموشی اور تماشہ بینی
سے یوں لگتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ سب اُن کی منشا اور مرضی کے
مطابق ہورہا ہے اور ایسا کیوں نہ ہو ، یہی پارٹیاں جب مرکزی اور ریاستی سطح
پر برسراقتدار تھیں مسلم اقلیت کے تئیں اُن کی سردمہری ، چشم پوشی ، عدم
توجہی ، بے اعتنائی ، جگ ظاہر تھی۔ جب یہ پارٹیاں اقتدار میں تھیں تو انھوں
نے اِس ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلم قوم کو صرف ووٹ بنک تصور کر رکھا تھا۔
وہ اُن سے لینا جانتے تھے انھیں دینا نہیں جانتے تھے اور نہ ہی اُن کے دل
میں اِس اقلیت کے تئیں نرم گوشہ تھا ۔ کئی کمیشن بنے اور ردی کی ٹوکری کی
زینت بن گئے۔ کسی کمیشن پر عملدرآمد تو دور کی بات اُس پہ غور و فکر بھی
نہیں کیا گیا اور اُسے اس قابل سمجھا ہی نہیں گیا کہ اُس پر عمل کیا جائے۔
پھر بھی مسلم اقلیت زہریلا اور کم زہریلا ، برا اور کم برا نظریہ کے تحت
انہی سیکولر پارٹیوں کے حق میں ووٹنگ کرتی رہی۔ لیکن گذشتہ سال منعقدہ لوک
سبھا و اسمبلی الیکشن کے نتائج نے ہر کسی کو سوچنے پر مجبور کردیا۔ پارٹیوں
کو بھی اقلیتوں کو بھی اِس متوقع انقلاب اور اُس کے برے نتائج نے ہر کسی کو
غور و فکر کرنے کے لئے مجبور کردیا۔آج بھی موقع ہے سیکولر پارٹیوں کو سوچنے
اور سمجھنے کا کہ وہ اپنی اقلیتوں کے تئیں قدیم پالیسی ترک کریں اور ایسی
پالیسی اختیار کریں جن میں پسماندہ اقوام اور دیگر اقلیتیں اور اُن کی جان
، مال ، عزت ، آبرو ، تہذیب اور اُن کے مذہب کے تحفظ کی ضمانت ہو ، ہر کسی
کو اپنی تہذیب اور اپنے مذہبی آئین پر عمل پیرا ہونے میں مکمل آزادی ہو ،
انھیں چین و سکون کی زندگی میسر ہو اور انھیں تمام حقوق ، رعایات اور
سہولیات حاصل ہوں جیسی اکثریتی فرقہ کو حاصل ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ فرقہ
وارانہ یکجہتی کا فروغ ہو ، مذہبی و تہذیبی ، تعصب و تنگ نظری سے پاک ملک
کا ماحول ہو۔ ہر کسی کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہو ، ہر کسی کی ترقی ملک کے
پیش نظر ہو ، تب ہی جا کر ہمارا ملک صحیح معنی میں خوشحال اور ترقی یافتہ
ہوگا۔یہ اُس وقت ممکن ہے جب کہ شکست خوردہ سیکولر پارٹیاں اپنے گریبان میں
جھانکیں ، اپنی کارکردگی کا محاسبہ کریں کہ جب انھیں قوت ، طاقت اور اقتدار
حاصل تھا تو انہوں نے اُس کی کس قدر ، قدر کی۔ اب اُن کا جو حال ہوگیا ہے
وہ بھی جگ ظاہر ہے۔ اب انھیں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ چھوٹے سے بڑے لیڈر
تک کا یہی حال ہے۔ لیکن صبح کا بھولا شام کو گھر آئے تو اُسے بھولا نہیں
کہتے کے مصداق وہ اپنی بھول کا احساس کرے اور آئندہ نہ بھولنے کا ارادہ
رکھیں تو یقین جانئے قدرت کے خزانے میں کوئی کمی نہیں۔جسے چاہے وہ حکمرانی
عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے وہ حکمرانی چھین لیتا ہے۔ وہ قادر مطلق ہے وہی
مالک حقیقی ہے اور وہی حکمرانوں کا حکمراں ہے جو ایسے ویسے کو کیسا کیسا ،
اور کیسے کیسے کو ایسے ویسے کردینے پر کامل قدرت رکھتا ہے۔ شکست خوردہ
سیکولر پارٹیوں کو تنظیمی ڈھانچہ میں تبدیلی سے زیادہ منظم منصوبہ بندی اور
لائحہ عمل تیار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ہر اقلیت کو اُن کی آبادی کے تناسب
سے ہر چیز میں حصہ داری اور ہر ایک کے حقوق کی پاسداری اور سابقہ روش لڑاؤ
اور حکومت کرو کی پالیسی سے دستبرداری ، سیکولرزم اور جمہوریت کی علمبردار
پارٹیوں کی حمایت اور مکمل طرفداری جیسے امور پر غور و فکر کر کے ان امور
کو روبعمل لانے کی کوشش کریں تو ممکن ہے یہ پارٹیاں اپنی سابقہ پوزیشن حاصل
کرنے میں کامیاب ہوجائیں۔ کیونکہ موجودہ برسراقتدار غیر سیکولر پارٹیاں
اپنا وقار ، اعتبار اور اعتماد کھو چکی ہیں اور پہلے ہی سال میں اُن کی جو
کارکردگی منظرعام پر آئی وہ اُن کی سیاسی زوال کی پیش گوئی ثابت ہوسکتی ہے۔
’’اچھے دن آنے والے ہیں، سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ یہ نعرے کھوکھلے ثابت
ہوگئے ہیں۔ سیکولر پارٹیاں اپنی شکست اور ذلت و رسوائی کی وجوہات پر غور و
فکر کرتے ہوئے تنظیمی ڈھانچے اور منصوبہ بندی کی طرف مکمل دھیان اور توجہ
کریں تو ممکن ہے اُن کی عظمت رفتہ بحال ہو اور ہاتھ سے نکلا ہوا زمام
اقتدار اُن کے ہاتھ آئے۔ |
|