پانامہ ہے تو ایک چھوٹا سا ملک لیکن آج کل اس نے پوری
دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے اور دنیا کے بڑے بڑے ایوان اس نے بغیر کسی محنت
مشقت کے ہلا دیئے ہیں۔ باقی کی دنیا کا مسئلہ وہ خود حل کرے اس وقت ہمارا
مسئلہ تو اپنا ملک اور اس کے’’ عظیم لیڈر ‘‘ہیں جو خود کو عوام کا نمائندہ
کہتے ہیں عوام کے خادم بھی کہلاتے ہیں سیاست کا احسان عوام پر جتاتے ہیں کہ
اُن کی سیاست کا اور کوئی مقصد نہیں بلکہ وہ سیاست کرتے ہی عوام کی خدمت
اور فلاح کے لیے ہیں جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے اور یہ حقیقت اگر چہ سب جانتے
ہیں لیکن وقتاََ فوقتاََ اس کے بہت بڑے بڑے نا قابل تردید ثبوت سامنے آجاتے
ہیں۔ عوام اپنے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی ان بد عنوانیوں پر سیخ پا تو ہو
سکتے ہیں اور ہوتے بھی ہیں لیکن ہوتا پھر وہی ہے جو ہمارے حکمران اور
سیاستدان چاہتے ہیں یعنی جو بھی ہو اُن کی حکومت زندہ باد۔گلہ تو عوام سے
بھی ہے جو پھر انہی ناموں کے زندہ و پائندہ باد کے نعرے لگانے لگ جاتے ہیں
اور معاملہ ختم اور پھر خود ہی سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ حالیہ معاملہ یعنی
پانامہ لیکس نے بھی خوب ہلچل مچائی بلکہ اب بھی طوفان تھمانہیں ہے لیکن
زیادہ امید یہی ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔ پانامہ لیکس کے مطابق ہمارے سینکڑوں
سیاستدانوں اور دیگر افراد کی آف شور کمپنیاں موجود ہیں جن کے ذریعے قومی
دولت ملک سے باہر بھیجی جا رہی ہے ان لوگوں میں دیگر افراد کے ساتھ ساتھ
ہمارے وزیراعظم اور ان اہل خانہ کے شامل ہونے کی خبروں نے پاکستان کی سیاست
میں بھونچال پیدا کردیا ۔ ابتدائی طور پر اس خاندان کی چار آف شور کمپنیاں
موجود ہیں۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس معاملے کو اپنی اپنی سیاست چمکانے کے
لیے خوب خوب استعمال کیا کبھی اتحاد بنے کبھی ٹوٹے ۔ وزیراعظم نے قوم سے
خطاب بھی کیا اپنی مرضی کے نکات کا ذکر تو کیا اپنی صفائی بھی پیش کی یہ
بھی کہا کہ یہ کمپنیاں ان کی نہیں ان کی اولاد کی ہیں جو بھی ہے بات یہ ہے
کہ اس خاندان کے لوگ پاکستان کی دولت لے لے کر باہر جاتے رہے دوسرے ملکوں
میں سرمایہ لگایا جاتا رہا اپنے خزانوں میں اضافہ ہوتا رہا ملک بدحال سے بد
حال ہوتا رہا اور حکمران خوشحال سے خوشحال ۔ اس خوشحالی کے لیے وہ ہر ہر
طرح کی توجیہہ پیش کرتے ہیں لیکن کوئی اپنی دولت واپس اس غریب ملک میں لانے
کو تیار نہیں۔ حالانکہ انہیں جو درجہ اور سٹیٹس حاصل ہے وہ اسی غریب ملک کی
دولت کی بدولت ہے، آف شور کمپنیوں سے حکومت اور اپوزیشن دونوں مسلسل فائدہ
اٹھارہی ہیں ایک بار پھر ملک کہیں پیچھے ہے۔ حکومت بشمول دوسرے کئی افراد
تو ان کمپنیوں کے مالک ہیں لہٰذا خوب مالی فائدہ اٹھایا جا رہا ہے جبکہ
دوسری طرف اپوزیشن کی جماعتیں اپنا الو سیدھا کر رہی ہیں انہیں ایک دوسرے
پر اعتراض ملک کے لیے نہیں بلکہ ایک بار پھر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش
کی جارہی ہے اور ہوگا یہ کہ کچھ عرصے بلکہ چند ہفتے اسی طرح شور برپا رکھنے
کے بعد خاموشی چھا جائے گی لوگوں کو کسی اور معاملے میں الجھا دیا جائے گا
اور وہ مجبوراََ ہی سہی بڑے آرام سے یہ سب بھول جائیں گے۔ دکھ کی بات یہ ہے
کہ پاکستان میں جو جتنا حقوق ، بنیادی حقوق، انسانی حقوق، قانون، آئین اور
ایسے ہی دیگر نعرے لگاتا ہے وہی درپردہ ان سب کو پامال کرتا ہے۔ یہاں
سیاستدان تو ہیں ہی ہیں دوسرے بھی کسی سے پیچھے نہیں ، جج ، تاجر ریٹائر ڈ
سرکاری افسران سب نے اپنے کالے دھنوں کو سفید کرنے کے لیے پانامہ کی بہتی
نہر میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ قوم کے غم میں ہر دم غلطاں پاکستانی میڈیا نے بھی
آف شور کمپنیوں کی برکات سے فائدہ اٹھایا ہے۔ پاکستان کی ’’ قابل فخر
بیٹی‘‘ شرمین عبید چنائے جس نے پاکستان کو بے وقار کرنے اور دنیا کے سامنے
اس کے تاریک پہلو لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور بظاہر پاکستان کے عوام
کی خدمت اور فلاح کے لیے کام کیا( ویسے معلوم نہیں اس سب میں خدمت کہاں
تھی) اس کی والدہ محترمہ کے نام بھی تین آف شور کمپنیوں کی ملکیت یا حصہ
داری نکلی کیا بیٹی کو معلوم نہیں تھا کہ ایسا ہے اور کیا وہ قومی حقوق کی
اس پامالی اور بددیانتی پر کوئی فلم بنائیں گی کیا معلوم ایک اور آسکران کے
ڈرائنگ روم کی زینت بن جائے۔ عدالتوں کی کرسیوں پر بیٹھ کر انصاف کا بول
بالا کرنے والے جج بھی اپنی خواہشات پر قابو نہ رکھ سکے اور ملک کے ساتھ
انصاف کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ بات یہ ہے کہ جس کو خبر ہوئی کہ آف
شور کمپنی نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے اور اس کے پاس اس کے لیے کافی پیسے
موجود تھے اُس نے ایسا کر لیا تا کہ اپنی دولت کو محفوظ کر سکے۔
اس میں شک نہیں کہ دیگر افراد بھی اس بدعنوانی میں شامل ہیں لیکن قوم کو سب
سے زیادہ اعتراض سیاست دانوں پر اس لیے ہے کہ قوم نے انہیں حکومت کا اختیار
دیا ہوتا ہے خیر قوم نہ بھی دے تو یہ صرف خود کو اور اپنی اولاد کو ہی
حکمرانی کا حقدار سمجھتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ حکمران کا حق کم اور
فرائض زیادہ ہوں تو ہی وہ اپنے عوام پر حکمرانی کا حق رکھتے ہیں لیکن یہاں
تو عوام بے چارے ٹیکس دیں بلکہ ایک ایک کمائے ہوئے پیسے اور ایک ایک کھائے
ہوئے نوالے پر ٹیکس دیں اورحکمران اپنی دولت کو ٹیکسوں کے اسی شکنجے سے صاف
بچا کر دوسرے ملکوں میں محفوظ کر لے شاید یہی تو وجہ ہے کہ اُسے ٹیکس کے
انبار کے نیچے دبے ہوئے عوام کے دکھ کا کوئی پتہ ہے نہ احساس ۔ ویسے اُن کی
کمپنی آن شور بھی ہو تو انہوں نے کونسا پورا ٹیکس دینا ہے چند نیک دل
حکمران اور سیاستدان اپنے کروڑوں اربوں کے اثاثوں کا چند ہزار یا زیادہ سے
زیادہ چند لاکھ ٹیکس دے کر نہ صرف بری الذمہ ہو جاتے ہیں بلکہ قوم کے اوپر
احسان عظیم کر لیتے ہیں۔ یہی سیاستدان جو ابھی ایک دوسرے سے بظاہر گتھم
گتھا ہیں اور قوم کی دولت باہر منتقل کرنے کا غم بھی رو رہے ہیں جلد ہی ایک
دوسرے کے گلے مل لیں گے اور قوم کو باہمی محبت اور مفاہمت کا عظیم پیغام دے
دیں گے اور عظیم کہلائیں گے۔ میڈیا بھی اس مفاہمت، مثبت رویے اور معافی پر
شاباشی کے ڈونگرے بر سا کر انہیں ہیروبنا کر پیش کرے گا اور اسے قومی اتحاد
کی نشانی قرار دے گا۔ اب بھی اپنی اپنی پارٹی کے لیڈروں کے بارے میں پارٹی
کارکنان ہر صورت انہیں بچانے کے لیے میدان میں ہیں۔ ہمارے ہاں ایک اور رواج
بن چکا ہے کہ لیڈر باپ بیٹوں کے مشکوک اعمال سے بے خبری اور لاتعلقی کا
اظہار کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ معاملہ ختم ہوگیا اور وہ بری الذمہ ہو
گئے کچھ عرصہ پہلے سابق چیف جسٹس پاکستان چوہدری افتخار نے اپنے بیٹے
ارسلان افتخار کے بزنس سے متعلق بے خبری کا مظاہرہ کیا اور اب وزیراعظم
نواز شریف فرما رہے ہیں کہ کمپنیاں ان کی نہیں ان کے بچوں کی ہیں مان لیا
کہ ایسا ہی ہے تو کیا وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے بچے غیر قانونی کام کر
رہے ہیں اگر وہ اپنے گھر سے ہی اتنے بے خبر ہیں تو ملک کی حکمرانی کا حق
انہیں کیسے حاصل ہو گیا ۔ کیا اس صورت حال میں ان کا سخت احتساب نہیں ہونا
چاہیے اور کیا الزامات ثابت ہو جانے کے بعد بھی ان کا اپنے عہدے پربرقرار
رہنا درست ہے۔ ہم مغرب کی اس بات سے تو بہت متاثر ہوتے ہیں کہ اپنے بڑوں کا
بھی احتساب کرتے ہیں لیکن خود ہم ایسا کرنے پر ہر گز تیار نہیں ہوتے اور
فوراََ اسے جمہوریت کے لیے نقصان دہ قرار دے کر اس کے ہونے کے راستے بند کر
دیتے ہیں ۔ مجھے اس بات سے بھی غرض نہیں ہے کہ کون اپنے عہدے پر رہتا ہے
اور کون نہیں لیکن میرا اور میرے جیسے دوسرے پاکستانیوں کا مطالبہ یہ ضرور
ہے کہ یہ تمام دولت پاکستان لائی جائے اور یہی پر سرمایہ کاری کی جائے کہ
ایک تو دولت اپنے ہی ملک میں رہے دوسرے روز گار سب کو مہیا ہو۔ قومی مفاہمت
اپنی جگہ اہم ہے لیکن ایسے معاملات میں نہیں جہاں ملک کا نقصان ہو۔ لہٰذا
آف شور کمپنیوں پر مفاہمت اس معاملے کو دبانے کے لیے نہ ہو بلکہ اس بات پر
ہو کہ ہر ذمہ دار چاہے سیاسی ہو یا غیر سیاسی اپنا تمام پیسہ پاکستان لے
آئے چاہے پھر اُسے معافی مل جائے اگر یہ معافی ملک کی بھلائی کا باعث بنے
تو کسی کو اعتراض نہیں ہوگا۔ |