شعبان المعظم وشب برأت کی فضیلت اور مروجہ بدعات

یہ شعبان المعظم کا مہینہ ہے ،رمضان المبارک کی تیاری کا مہینہ،روزے رکھنے کی مشق کرنے کا مہینہ، رمضان تک باحیات وحفاظت پہنچائے جانے کی دعا کرنے کا مہینہ،یہ فضیلت اس مہنے کے ہر دن اور ہر رات کے ہر لمحے کوحاصل ہے،اس کے ساتھ ساتھ اس مہینے کی پندرھویں رات ایک امتیازی شان بھی رکھتی ہے۔اس حوالے سے گفت گو کرنے سے پہلے ہم آپ کی خدمت میں ایک آیت قرآنی کا ترجمہ پیش کرنا چاہتے ہیں،چناں چہ مہینوں سے متعلق اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’مہینوں کی گنتی اﷲ کے نزدیک کتاب اﷲ میں بارہ کی ہے ،اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ،،(سورۂ توبہ)

ابتدا ئے آفرینش سے ہی اﷲ تعالیٰ نے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، جن میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں،بعض مہینوں کی فضیلت اور اہمیت کتاب وسنت سے ثابت ہے ۔مگربعض ناسمجھ لوگوں نے، جو بظاہر اصحاب جبہ ودستارہیں، ماہ شعبان کی فضیلتوں کو کچھ لوگوں نے اس قدر بڑھ چڑھ کر بیان کرنا شروع کردیا کہ ان فضیلتوں کے سامنے ماہ رمضان کی فضیلتیں بھی کم تر نظر آنے لگتی ہیں ۔

اس مہینے میں سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم اکثرروزہ رکھاکرتے تھے،چناں چہ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اﷲ علیہ وسلم نے رمضان کے علاوہ کسی مہینہ میں مکمل ایک ماہ روزہ رکھاہو، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اﷲ علیہ سلم رمضان کے بعد شعبان مہینہ سے زیادہ کسی مہینہ میں روزہ رکھتے ہوں،، (بخاری ،کتاب الصوم )

شعبان المعظم کایوں توپورامہینہ ہی عبادت وریاضت کامہینہ ہے،لیکن اس کی پندرھویں شب کوایک خاص خصوصیت حاصل ہے۔علماکے ایک طبقے کے مطابق سور دخان میں لیل مبارک سے بھی یہی رات مرادہے۔اﷲ تعالی فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’تحقیق ہم نے وہ کتاب بابرکت رات میں اتاری ہے ،بے شک ہم لوگوں کو ڈرائیں گے ،ااسی رات میں تمام باحکمت امور کی تفصیل کی جاتی ہے‘‘۔

اس رات کوعرف عام میں شب برأت کہاجاتاہے،جس کی وجہ یہ ہے کہ برأت کا معنی ہے: دور ہونا،جداہونا، نجات پانا وغیرہ۔ اور اس رات اﷲ تعالی کے نیک بندے آخرت کی رسوائی و ذلت سے دور کر دیئے جاتے ہیں اور بد بخت لوگ(یعنی جو اس رات کو اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے)اﷲ تعالی کی رحمتوں ومغفرتوں سے دور رکھے جاتے ہیں۔(غنیۃ الطالبین)

لیکن شب برأت میں اﷲ تعالی کی جانب سے رحمت ومغفرت کی اس قدربرسات کے باوجود کچھ بد نصیبوں کی توبہ کے بغیر مغفرت نہیں ہوتی،چنانچہ "مسند البزار" میں سیدناابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ سے اور "سنن ابن ماجہ" میں حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:"اﷲ تعالی شعبان کی پندرہویں رات تجلی فرماتا ہے اور تمام مخلوقات کو بخش دیتا ہے، ما سوائے مشرک، کینہ رکھنے والے ، اسلام میں نئے فرقے بنانے والے اورچغل خور کے۔دیگر روایات میں ان لوگوں کے علاوہ کچھ اورگنہگاروں کابھی ذکرآیاہے،جومندرجہ ذیل ہیں:
(1)والدین کانافرمان(2) شرابی(3)سود خور(4) تکبر کی وجہ سے تہبندٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا(5)رشتے داروں سے بد سلوکی کرنے والا(6) قاتل(7) زانی(8) نجومی(9) عشار (جو محکمہ ٹیکس میں ہو اور لوگوں پر ظلم کرتا ہو )()میوزک ، سارنگی ، طبلہ اور ڈھول بجانے والا( یعنی گانے بجانے والا)(10) ہمسائے کے ساتھ بدسلوکی کرنے والا(11) جادوگر، اور (12)شرطہ (یعنی رشوت خور وظالم سپاہی)

اس رات کو شب برأت باور کرکے مختلف قسم کی مخصوص عبادات بجا لانا صلوٰۃ العمری ،صلوٰۃ الالفیہ، صلوٰۃ الغوثیہ وغیرہ نامی نمازیں پڑھنا اورمروجہ دوسری باتیں ،جوآج ہرطرف دیکھنے میں آتی ہیں ،ثابت نہیں ۔اس رسوم وبدعات کے اژدہام کاسبب کچھ توعقیدے کا بگاڑہے،کچھ عمل کی خرابی، کچھ رسم ورواج کی پابندی اور کچھ کھانے پینے یعنی پیٹ پوجا کا مسئلہ ،حالاں کہ عقیدے کی خرابی، عمل کا بگاڑ، رسم ورواج کی پابندی وغیرہ کو بڑی خوش اسلوبی سے دور کیا جا سکتا ہے۔ اہل بصیرت اس کی حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں کہ صرف ایک رات عبادت کرکے اپنی خطاوں کا معاف کرالینا اتنا ہی آسان ہے تو پھر روزانہ دعائے سحر گاہی کے لئے نرم وگرم بستر کو خیرباد کہنے کی کیا ضرورت ؟
رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

پھریہ بھی سوچنے کامقام ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی شب برأت آئی ، صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا زمانہ بھی گزر گیا،تابعین و ائمہ اربعہ ؒ کا زمانہ بھی گزر گیا ، لیکن کسی سے بھی شب برات کا حلوہ ، آتش بازی ، مردوں کی فاتحہ خوانی وغیرہ ثابت نہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کو اس قسم کی تمام بدعات سے اجتناب کرتے ہوئے سنت صحیحہ کو مشعل راہ بنانا چاہیے، جو راہ نجات ہے۔ اﷲ تعالی بدعات سے محفوظ فرمائے- آمین

ہم اس مقام پرمفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمدشفیعؒ کے درپردستک دیتے ہیں ،وہ فرماتے ہیں:
’’شب برأت کے متعلق جو یہ مضمون بعض روایات میں آیا ہے کہ اس میں ارزاق وغیرہ کے فیصلے ہوتے ہیں اول تو ابن کثیر نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ روایت مرسل ہے اور ایسی روایت نصوص صریحہ کے مقابلے میں قابل اعتماد نہیں ہوسکتی اسی طرح قاضی ابو بکر ابن عربی نے فرمایا نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت ایسی نہیں ،جس سے ثابت ہو کہ رزق اور موت وحیات کے فیصلے اس رات میں ہوتے ہیں بلکہ انہوں نے فرمایا کہ اس رات کی فضیلت میں بھی کوئی قابل اعتماد حدیث نہیں آئی، لیکن روح المعانی میں ایک بلا سند روایت حضرت ابن عباسؓ سے اس مضمون کی نقل کی ہے کہ رزق اور موت وحیات وغیرہ کے فیصلے نصف شعبان کی رات میں لکھے جاتے ہیں اور شب قدر میں فرشتوں کے حوالے کیے جاتے ہیں‘‘۔

حضرت مفتی صاحبؒ مزیدلکھتے ہیں:’’رہا شب برأت کی فضیلت کا معاملہ، سو وہ ایک مستقل معاملہ ہے، جو بعض روایت حدیث میں منقول ہے، مگر وہ اکثر ضعیف ہیں، اسی لیے قاضی ابوبکر ابن عربی نے اس رات کی کسی فضیلت سے انکار کیا ہے۔ لیکن شب برأت کی فضیلت کی روایات باعتبار سند کے ضعف سے کوئی خالی نہیں ،لیکن تعدد طرق اور تعدد روایات سے ان کو ایک طرح کی قوت حاصل ہوجاتی ہے اس لیے بہت سے مشائخ نے ان کو قبول کیا ہے، کیونکہ فضائل اعمال میں ضعیف روایات پر عمل کرلینے کی بھی گنجائش ہے۔(تفسیرمعارف القرآن )

ان دلائل سے واضح ہوا کہ شب برات کا ذکر نہ قرآن مجید میں ہے اور نہ احادیث صحیحہ میں ہے ۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انفرادی طور پر اس رات ذکر و عبادت میں مشغول ہوتا ہے کہ اس کے عقائد کی تطہیر اور اخلاقی رفعت کا باعث بنے اورکسی خاص عبادر کاالتزام نہیں کرتا،توکوئی حرج نہیں۔ تاہم رات بھرجاگ کرعین فجرکے قریب سوجانے اورفجرکی نمازقضاکرنے سے یہ لاکھ درجے بہترہے کہ عشاکی نمازجماعت سے اداکرکے سوجائے اورفجرکی نمازجماعت سے اداکرے،حدیث میں ایسے شخص کے لیے بھی شب بیداری کاثواب بیان کیاگیاہے۔

یوں تواس رات کی فضیلت اوراس میں مخصوص عبادات واعمال کے سلسلے میں متعددروایات کتب حدیث میں موجودہیں ،جن میں سے بعض بالکل من گھڑت،بعض کمزوراورضعیف اوربعض کسی درجے میں قابل استنادہیں ،ہم اکابرعلماومشائخ کے معمولات کی روشنی میں انتہائی حزم واحتیاط کے ساتھ اس رات میں جن کاموں کی گنجائش ہے،انہیں اس وضاحت کے ساتھ بیان کرناچاہتے ہیں کہ ا ن کاموں میں سراسربھلائی ہے،اگرکوئی کچھ کرناچاہے تویہ کام کرسکتاہے،ان کاموں کی اس رات کے ساتھ کوئی تخصیص بھی نہیں ،بلکہ سال بھرکیے جاسکتے ہیں:
٭....فقہا ئے اسلام کا اجماع ہے کہ پندرہویں شعبان کا روزہ اور شب بیداری مستحب ہے۔
٭....اس رات قبرستان جانا سنت نبوی ہے۔ تاہم قبرستان جاناصرف مردوں کے لیے اورانفرادی طورپرہے۔آج کل جواجتماعی شکل میں قبرستان جانا،وہاں میلے کاساسماں برپاکرنانیزمردوزن کااجتماع حدیث کے خلاف اورمتعددکبائرکامجموعہ ہونے کی وجہ سے قطعاًجائزنہیں۔
٭....بعض روایات کے مطابق چونکہ شب برأت کو سال بھر کے اعمال اﷲ تعالی کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا شب برأت کو والدین، بھائیو ں ، بہنوں، رشتہ داروں، ہمسایوں اور دیگر لوگو ں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے، اور اگر کسی کا کو ئی حق ذمے میں باقی ہو تو اسکی ادائیگی کر دینی چاہیے، یا پھر صاحب حق سے معافی مانگ لینی چاہیے۔
٭....اسی طرح اس شب میں رب غفور الرحیم سے اپنے تمام گناہوں کی معافی مانگ لینی چاہیے۔ یادرہے کہ توبہ کیلئے چار چیزیں ضروری ہیں،جن کااہتمام والتزام کرکے ہی بارگاہ رب العزت سے معافی اورآئندہ کے لیے گناہوں کوچھوڑنے کی توفیق مل سکتی ہے:
1۔ رب کریم کی بار گاہ میں گنا ہو ں کا اعتراف۔
2۔ گذشتہ گناہوں پر سخت ندامت اور آہ وزاری۔
3۔ آیندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ اور سچا وعدہ۔
4۔ گناہوں کی تلافی۔ مثلا نمازیں نہیں پڑھیں تو حساب یا اندازے سے بالغ ہونے کے بعد کی تمام فر ض اور واجب نمازوں کی قضا، اسی طرح رمضان کے روزوں کی قضا، اسی طرح جتنے بر س کی زکو ادا نہیں کی ،حساب یا اندازے سے اس کی ادائیگی۔
٭....بعض روایات کے مطابق چونکہ یہ رات حکم و قضا کی رات ہے، اﷲ تعالی فرشتوں کو سال بھر کا پروگرام دے دیتے ہیں، اس میں موت و حیا ت، اعمال نیک و بد، ہر قسم کے رز ق اور انعامات، مصائب و آلام اور بیماریوں کا پروگرام بھی دیا جاتا ہے، لہذا اس شب کو اﷲ تعالی سے دنیا و آخرت کے خیر و برکت کی دعا ئیں مانگنی چاہئیں۔
انتہائی افسوس کامقام ہے کہ اسلامیان پاکستان نے اس رات کوبدقسمتی سے آتش بازی اورپٹاخوں کی رات بنادیاہے،یہ عمل اب باقاعدہ قانون نافذکرنے والے اداروں کی سرپرستی میں ہورہاہے۔یہ عمل مختلف گناہوں کابھی باعث ہے:
اول تویہ کہ آتش بازی کھلا اسراف و فضول خرچی ہے، اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: "بیشک بغیر کسی غرض کے پیسہ ضائع کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں۔

دوسرے یہ کہ آتش بازی سے عبادت گزاروں کی عباد ت، علما وطلبہ کی تعلیم وتعلم، بیماروں، بوڑھوں اور تھکے ماندے لوگوں کے آرام و نیند میں خلل پڑتا ہے، جو کہ ظلم و زیادتی ،عبادات کی سخت تو ہین اور علم کا نقصان ہے۔

تیسرے یہ کہ آتش بازی سے بسااوقات دکانوں، گھروں اور قیمتی اشیا کو آگ لگ جاتی ہے، اور ہر سال درجنوں لوگوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا آتش بازی سخت "فساد فی الارض" ہے۔نیز آتش بازی کے بہانے بچے شب بھر گھروں سے باہر رہتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کے غلط ماحول اور غلط سو سائٹی سے متاثرہونے اور جرائم اور کبیر ہ گناہو ں کاعادی بن جانے کا قوی اندیشہ ہے، لہٰذا ان وجوہات کے پیش نظرآتش بازی سخت خطرناک ا ور حرام فعل ہے،جس سے اپنی نئی نسل کوبچاناہم سب کافریضہ ہے۔پھریہ بھی انتہائی افسوسناک ،قابل مذمت اور غیر اخلاقی و غیر شرعی امر ہے کہ بجائے عبادت کے اس مقدس و بابرکت شب کو محض آتش بازی اور پٹاخوں کی گھن گرج کی نذر کر دیا جاتا ہے ۔ اس ضمن میں متعلقہ اداروں سے استدعا ہے کہ شادی اور دیگر تقریبات کے موقع پر آتش بازی، پٹاخوں اور دھماکہ خیز اشیا کے استعمال پر پابندی کے قانون پر سختی سے عمل کرائیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دیں،تاکہ اس غیرشرعی ،غیراخلاقی اورسراسرنقصان دہ رسم کی بیخ کنی کی جاسکے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307863 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More