شب ِ برأت۔ رحمتوں اور برکتوں والی رات
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
شَعَبان المعظّم کی پندرہویں شب مغفرت اور
بخشش والی رات ہے ، اسی وجہ سے اس رات کو ’’شب ِ برأت ‘‘ کہا جاتا ہے۔یہ
رات شعبان کی چودہ تاریخ ،سورج غروب ہونے سے شروع ہوتی ہے اور پندرہویں
تاریخ کی صبح صادق ہونے تک بر قرار رہتی ہے۔کتب احادیث میں ہے کہ آنحضرت
صلّی اﷲ علیہ و آلہ و سلّم شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھا کرتے اکثر
آپ صلّی اﷲ علیہ و آلہ و سلّم شعبان کو رمضان سے ملا دیتے، مگر امت کو
شعبان میں بکثرت روزے رکھنے سے منع فرما دیا ، البتہ نصف شعبان کی رات کو
قیام کرنے اور دن کو روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی۔حدیث مبارکہ ہے کہاس رات
میں اﷲ تعالیٰ سب سے نیچے کے آسمان (سماء الدنیا) پر اُتر آتا ہے اور
انسانوں کو ان کے گناہ معاف کرنے کے لیے پکارتا ہے۔
’شب ‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی رات کے ہیں، ’برأت‘ عربی زبان کا
لفظ ہے جس کے معنی بری ہونے اور نجات پانے کے ہیں۔ اس طرح شبِ برأ ت کامطلب
ہے’ نجات پانے والی رات‘۔ یہ وہ رات ہوتی ہے جس میں اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے
رحمت سے اپنے نیک اور توبہ کرنے والے بندوں کو جہنم سے نجات عطا فرماتے ہیں۔
اس رات کو کئی اور ناموں سے بھی پکارا جاتا ہے جیسے لیلۃالمبارکۃ یعنی
برکتوں والی رات، لیلۃالرحمۃاﷲ کی رحمتوں کے نزول کی رات، لیلۃ البر اء ۃ
یعنی جہنم سے نجات اور بری ہونے والی رات،
لیلۃالصّک دستاویز والی رات۔ ان تمام متبرک ناموں کے باوجود یہ رات شب برأت
کے نام سے موسوم ہے۔
اس رات کی اہمیت کا اندازہ قرآن کریم کی سورۃ’’ الدخان‘‘، آیات1-6 سے لگایا
جاسکتا ہے۔جس میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فر ما تا ہے۔ ترجمہ’’ قسم (اس) روشن کتاب
کی ۔ بلا شبہ ہم نے اسے بر کت والی رات میں نازل کیا، یقینا ہم (عذاب سے)
ڈرانے والے ہیں۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔
ہماری جانب سے حکم (نافذ) ہوتا ہے۔بلاشبہ وہ بہت سننے والا اور بہت جاننے
والا ہے‘‘۔ ان آیات مبارکہ میں جس مبارک شب کا تذکرہ ہے مفسریں نے شب قدر
سے مرادلی ہے جو نزول قرآن کی رات ہے اور جس کا تذکرہ ’’سورۃ القدر‘‘میں ہے۔
مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا ہے ’ حضرت عکرمہ اور بعض دیگر مفسرین کرام نے اس
سے شعبان المعظم کی پندرھویں شب مراد لی ہے۔بعض مفسرین کے مطابق قرآن مجید
میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس مبارک رات کے متعلق ارشاد فرمایاہے ’’ اس رات
میں ہمارے حکم سے ہر حکمت والا کام تقسیم کر دیا جاتا ہے‘‘۔ یعنی شب برأت
میں بندوں کا رزق ، ان کی اموات و پیدائش کے امور، آئندہ رونما ہونے والے
حادثات و اقعات غرض سال بھر میں ہونے والے تمام امور کے احکام الگ الگ
تقسیم کردیے جاتے ہیں، اور ہر کام کے فرشتوں کو اُن کا کام سونپ دیا جاتا
ہے، جس کی وہ سال بھر طے شدہ دن اور وقت پر سختی سے تکمیل کرتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ ؒ سے روایت ہے کہ آنحضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’شعبان کی
پندرویں شب کو تو اﷲ تعالیٰ سوائے مشرک اور کینہ ور کے سب کی مغفرت
فرمادیتا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کرم صلی اﷲ
علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا ’’جب شعبان کی درمیانی رات آئے تو اس رات کو
قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو، کیو نکہ اﷲتعالیٰ اس رات کو غروب آفتاب ہی
سے آسمانِ دنیا پر نزول رحمت فرماتا ہے اور (اپنے بندوں کو مخاطب کرکے
فرماتا ہے) ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں ، ہے کوئی (کشادگی
)رزق کا خواست گار کہ میں اسے رزق عطا کروں، ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں
اسے مصیبت سے نجات دوں، اسی طرح تمام حاجت مندوں کی حاجات کا ذکر کرکے رحمت
باری انہیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور یہ (فیضان عطا اور سلسلہ لطف و کرم)
طلوع فجر تک جاری رہتا ہے‘‘۔ سنن ابن ماجہ نے قل کیا ہے ،حضرت عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتی ہیں کہ ’’ایک رات آنحضرت صلی اﷲ علیہ و
سلم تہجد کے لیے کھڑے ہوئے ، نماز شروع کی، اور سجدے میں پہنچے تو اتنا
طویل سجدہ کیا کہ مجھے یہ خطرہ ہو گیا کہ شایدخدا نخواستہ آپ صلی اﷲ علیہ و
سلم کی رَوح قبض ہوگئی ہے، یہاں تک کہ میں پریشان ہوکر اٹھی اور پاس جاکر
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کے انگو ٹھے کو حرکت دی تو آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نے
کچھ حرکت فرمائی ، جس سے مجھے اطمینان ہوگیا اور میں اپنی جگہ لوٹ آئی، جب
آپ صلی اﷲ علیہ و سلم نماز سے فارغ ہوئے تو (تھوڑے سے کلام کے بعد) فرمایا
، عائشہ ٔ تم جانتی ہو کہ یہ کون سی رات ہے ، میں نے عرض کیا کہ اﷲ تعالیٰ
اور اُ س کا رسول صلی اﷲ علیہ و سلم ہی خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اﷲ علیہ و
سلم نے فرمایا ، یہ نصف شعبان کی رات ہے ۔ خدا وندِ عالم اس رات میں خاص
طور سے اہل عالم کی طرف توجہ فرماتا ہے اور مغفرت مانگنے والوں کی مغفرت
اور رحم کی دُعا کرنے والوں پر رحم فرماتا ہے‘‘۔
شَعَبان کی پندرہویں شب قبرستان جانا
شَعَبان المعظّم کی پندرہویں شب قبرستان جانا اور اپنے مرحوم عزیز و اقارب
، احباب اور عامٔتہ المسلمین کی قبروں پر فاتحہ پڑھنا اور ایصال ثواب کرنا
احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ سے
روایت ہے ، آپ فرماتی ہیں کہ اس شب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی باری میرے
ہاں (آرام فرمانے کی) تھی کہ اچانک میں نیند سے بیدار ہوئی ۔ آپ صلی اﷲ
علیہ و سلم کو اپنے ہاں نہ پایا تومیں آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کی تلاش میں
نکل کھڑی ہوئی، میں نے آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کو جنّت البقیع میں پایا۔ حضور
صلی اﷲ علیہ و سلم نے ( ان کی آمد کو محسوس کرکے) فرمایا ’’کیا تمہیں اس
بات کا خدشہ تھا کہ اﷲ اور اس کا رسول صلی اﷲ علیہ و سلم تمہارے ساتھ
زیادتی کریں گے‘‘۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اﷲ ! میں نے(بشری تقاضے کے
تحت) یہ سمجھا کہ شاید آپ کسی اور زوجۂ مطہرہ کے حجرۂ انور میں تشریف لے
گئے ہوں۔ اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ نصف شعبان کی
رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے
بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ اپنے بندوں کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے‘‘۔ اس
حدیث مبارکہ سے یہ معلوم ہوتا ہے شعبان کی نصف شب کو مدینہ منورہ کے
قبرستان ’جنت البقیع ‘ میں جانا آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا عمل تھا ۔ یہی وجہ
ہے کہ آج بھی مسلمان اس شب قبرستان جاتے ہیں اور اپنے اپنے عزیز رشتہ داروں،
جاننے والوں کے علاوہ عام مسلمونوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں، ان
کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ گویا اس رات بطور خاص قبرستان جانا سنت نبوی صلی
اﷲ علیہ و سلم ہے البتہ خواتین کو قبرستان جانے سے منع کیا گیا ہے ۔ قبروں
پر موم بتیاں اور اگر بتیاں جلانا مناسب نہیں ،اگر بتی جلانے کا مقصد خوشبو
ہو تو اسے قبر سے ذرا دور لگا دینا چاہیے، موم بتی ، تیل یا گھی کے چراغ
روشنی کے لیے یا تلاوت کلام پاک کے لیے لگانا مقصود ہوں تو وہ بھی قبر سے
ذرا دور فاصلے پر جلانا چاہیے۔
شَعَبان کی پندرہویں شب کی نفلی عبادات
فضیلت اور برکت کے اعتبار سے شب ِ برأت ایک مقدس اور اہم رات ہے ۔ ہمیں
نہیں معلوم کہ اس رات ہمارے لیے کیا فیصلہ ہو نے والا ہے۔ یہ رات کس قدر
نازک اور کتنی اہم ہے ہماری قسمت میں کیا لکھ دیا جائے گا ، ہم اس سے بے
خبر ہوتے ہیں۔ غنیتہ الطالبین میں ہے کہ ’’ بہت سے کفن دھل کر تیار رکھے
ہوتے ہیں ، مگر کفن پہننے والے ان سے بے خبر بازاروں میں گھوم پھر رہے ہوتے
ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی قبریں کھدی ہوئی تیار ہوتی ہیں ،
مگر ان میں دفن ہونے والے خوشیوں میں مست خوشیاں منا رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے
لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہوتا ہے۔ بہت سے
لوگوں کے اپنے مکانات کی تعمیر کاکام مکمل ہونے والا ہوتا ہے ، مگر ان کے
مالکوں کی موت کا وقت بھی قریب آچکا ہوتا ہے‘‘۔چنانچہ اس مقدس رات کو کسی
صورت بھی غفلت ، بھول، بے توجہی میں ہر گز ہرگز نہیں گزارنا چاہیے، نہیں
معلوم کہ یہ رات ہمیں آئندہ سال نصیب ہوگی بھی یا نہیں۔اس اہم رات میں خصو
صی نفلی عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ یہ وہ رات ہے جس میں خصو صیت کے
ساتھ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس رات
کی آمد سے قبل ہی اس رات کے فیوض و برکات کے حصول کے لیے اپنے آپ کو تیار
کرلیں۔یہی نہیں بلکہ اپنے گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلیں اور یہ بھی عہد
کریں کہ ہم آئندہ غلط کاموں کے مرتکب نہیں ہوں گے۔اﷲ تعا لیٰ بڑا معاف کرنے
والا ہے۔ایک حدیث مبارکہ غنیتہ الطالبین میں بیان کی گئی ہے رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ’’ اس رات میں سال بھر میں پیدا ہونے والے ہر
بچے کا نام لکھا جاتا ہے اور اسی کے ساتھ مرنے والے کا نام بھی لکھا جاتا
ہے۔ اسی رات مخلوق کا رزق تقسیم ہوتا ہے اور اسی رات ان کے اعمال اٹھائے
جاتے ہیں‘‘، ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ ارشاد فرمایا اﷲ کے پیارے نبی صلی
اﷲ علیہ و سلم نے ’’اس رات مخلوق کی عمر، ان کی روزی اور حاجیوں کے نام بھی
لکھے جاتے ہیں‘‘۔ شعبان المعظّم کی اس مقدس رات میں جو شب برٔت کہلاتی ہے
حسب ذیل نفلی عبادات کی فضیلت ہے۔
غروبِ آفتاب کے وقت کا کلمہ اور درود شریف
علمائے اکرام نے لکھا ہے کہ غروب آفتاب کے وقت لَا حُولَ وَلَا قُوَ ۃَ
الِاّ بِاﷲ العَلیُ العظیم چالیس بار پڑھا جائے ۔
ساتھ ہی درود شریف سو مرتبہ پڑھے تو اﷲ تعا لیٰ اس کے چالیس سال کے گناہ
معاف فرمادے گا ۔
نماز تحیتہ الوضو
مغرب کی نماز سے قبل غسل کیا جائے اگر کسی سبب غسل کرنا ممکن نہ ہو توبا
وضو ہوکر دو رکعت تحیتہ الوضو پڑھے، ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد آیتہ
الکرسی ایک بار ، سورۂ اخلاص تین تین مر تبہ پڑھنا باعث ثواب ہے، یہ نماز
بہت افضل ہے۔
درازیٔ عمر کے لیے نماز و دعا
دو رکعت نماز کی نیت اس طرح کریں کہ نماز کی نیت میں یہ الفاظ شامل کریں کہ
اﷲ تبارک و تعالیٰ درازیٔ عمر بالخیر عطافرمائے۔سورۃ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر
ایک مرتبہ پڑھیں، بعد سلام کے 21 مر تبہ سورۂ اخلاص ، ایک مر تبہ سورۃ
یٰسین کی تلاوت کے بعد اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر، گڑ گڑا کر اپنے پر وردگار
سے دعا کریں کہ وہ درازیٰ عمر بالخیر عطا فر مائے۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی
اﷲ عنہ سے روایت ہے جسے سنن ابی داؤد نے نقل کیا ہے کہ فرمایا آنحضرت محمد
صلی اﷲ علیہ وسلم نے ’’ اﷲ سے اس طرح ہاتھ اٹھا کے مانگا کروکہ ہتھیلیوں کا
رخ سامنے ہو ہاتھ الٹے کر کے نہ مانگا کر و اور جب دُعا کر چکو تو اٹھے
ہاتھ چہرے پر پھیر لو ‘‘۔
نماز خیر
شعبان المعظم کی پندرھویں شب میں سو رکعتوں کی نماز کو’’ نماز خیر‘‘ کا نام
حضرت شیخ المشائخ شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے اپنی معروف کتاب ’’غنیتہ
الطالبین‘‘ میں دیا ہے ۔ آپ لکھتے ہیں کہ سو رکعتوں میں ایک ہزار بار سورۃ
الا خلاص یعنی ہر رکعت میں دس بار قل ہوُ اﷲ احد پڑھیں۔ اس نماز کی بڑی
فضیلت آئی ہے۔حضرت حسن بصری ؒ نے فر مایا کہ مجھ سے رسول خدا صلی اﷲعلیہ و
سلم کے تیس صحابیوں نے بیان کیا ہے کہ اس رات جو شخص یہ نماز پڑھتا ہے اﷲ
تعالیٰ اس کی طرف ستر بار نگاہ کرتا ہے ، اور ہر بار اس کی ستر حاجتیں پوری
کرتا ہے، جن میں کم سے کم حاجت گناہوں کی مغفرت ہے۔
بلاؤں سے حفاظت کے لیے نماز و دعا
دو رکعت نماز کی نیت اس طرح کریں کہ نماز کی نیت میں یہ الفاظ شامل کریں کہ
اﷲ تبارک و تعالیٰ تمام بلاؤں، جادو ٹونا اور آفات سے محفوظ رکھے۔سورۃ
فاتحہ کے بعد سورۂ آیت الکرسی ایک مرتبہ ، سورۃ اخلاص تین تین مر تبہ
پڑھیں، بعد سلام کے 21 مر تبہ سورۂ اخلاص ، 21 مرتبہ سورۃ آیت الکرسی ، 21
مرتبہ درود شریف پڑھ کر صدق دل سے اﷲ سے دعا کریں اﷲ تعالیٰ ہر طرح کی
بلاؤں ، جادو، ٹونا اور آفات
سے محفوظ رکھے۔بلاؤں اور جادو سے محفوظ رہنے کی ایک صورت بعض دینی کتب میں
یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ شعبان المعظم کی پندرھویں رات بیری (یعنی بیر کے
درخت) کے سات پتے پانی میں جوش دے کر (جب پانی نہانے کے قابل ہوجائے تو اس
پانی سے) غسل کیا جائے۔ یہ عمل کرنے والا اﷲ تعالیٰ کے کرم سے تمام سال
جادو اور بلاؤں کے اثر سے محفوظ رہے گا۔
اﷲ اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرے
دو رکعت نماز کی نیت اس طرح کریں کہ نماز کی نیت میں یہ الفاظ شامل کریں کہ
اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کرے۔ سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ
اخلاص تین تین مر تبہ پڑھیں، بعد سلام کے ایک مرتبہ سورۃ یٰسین ، 21 مرتبہ
درود شریف پڑھ کر صدق دل سے اﷲ سے دعا کریں کہ وہ اپنے سواکسی کا محتاج نہ
کرے۔
رذق میں کشادگی اور بر کت کے لیے نماز و دعا
دو رکعت نماز ، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد آیتہ الکرسی ایک بار ،سورۃ
اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں، بعد سلام اشک بار آنکھوں کے ساتھ ،صدق دل سے ،
خشو ع و خضوع کے ساتھ درود شریف ایک سو مرتبہ پڑھ کر تر قی رزق، کشادگی
رزق، بر کت رزق کی دعا کریں انشاء اﷲ تعالیٰ اس نماز کے پڑھنے اور دعا سے
اﷲ پاک دعا قبول فرمائے گا اور رزق میں ترقی ہوگی۔
عذابِ قبر سے نجات کے لیے نماز و دعا
آٹھ رکعت نماز دو سلام سے پڑھیں، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص
دس دس مرتبہ پڑھیں ۔بعد سلام صدق دل سے ، خشو ع وخضوع کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے
عذاب قبر سے نجات کی التجا کریں، یقینا اﷲ تعالیٰ اس شخص کے لیے فرشتے مقرر
کرے گا جو اسے عذاب قبر سے نجات اور داخل بہشت ہونے کی خوشخبری دیں گے۔
گناہوں کی توبہ کے لیے نماز و دعا
شبِ برأت کی رات آٹھ رکعت نماز چار سلام سے واسطے مغفرت گناہ پڑھیں، پہلی
رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ آیت الکرسی 10 مرتبہ،دوسری رکعت میں
سورۃفاتحہ کے بعد سورۃ نشرح دس مرتبہ، تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد
سورۃ قدر دس مرتبہ اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ اخلاص دس
مرتبہ پڑھیں ۔پھر چار رکعت اسی تر تیب سے پڑھیں۔ بعد سلام سجدے میں گریا و
زاری کرتے ہوئے ،اعتراف گناہ کے ساتھ،احساس ندامت کے ساتھ،خشو ع وخضوع کے
ساتھ،اخلاص نیت سے،امید اور یقین کے ساتھ اﷲ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتے
ہوئے ستر مرتبہ استغفار اور ستر مر تبہ درود شریف پڑھ کراپنے گناہوں کی
توبہ کریں، بے شک اﷲ تعالیٰ ہماری دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ حدیث ِ مبارکہ
ہے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مردی ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ اﷲ سے اس کا فضل مانگو یعنی دعا کرو کہ وہ فضل و
کرم فر مائے، کیونکہ اﷲ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعاکریں
اور مانگیں ‘‘ ۔
(جامع ترمذی)
سلامتی حفاظت جان و مال کے لیے نماز و دعا
شبِ برأت کی شب سورۃ البقرہ کا آخری رکوع’’امن الرسول سے کافرین تک اکیس مر
تبہ پڑھنا واسطے امن و سلامتی حفاظت جان و مال افضل ہے۔
قبولیت دعا
دعا خواہ دنیاوی ہویا دینی اس مقدس رات میں چودہ رکعت نماز سات سلام سے
پڑھیں ، ہر رکعت میں بعد سورۃ فاتحہ کے سورۃ کافرون ایک مرتبہ، سورۃ اخلاص
ایک مرتبہ، سورۃ ناس ایک مرتبہ پڑھیں، بعد سلام سورۃ آیت الکرسی ایک مرتبہ
، سورۃ توبہ کی آخری آیات لَقَدْ جَا وُکمُ رَسُول ُ‘ تا عظیمُ تک ایک
مرتبہ پڑھ کر اﷲ کے حضور قبولیت دعا کی استدا کریں ،ضروری ہے کہ دل میں
اعتراف گناہ ہو ،ندامت کا احساس ہو،اخلاص ہواور اپنے پرور دگا ر سے امید
اور یقین ہو،اﷲ تعالیٰ تمام دعائیں قبول کرے گا۔
سورۃ دخان (پارہ 25)سات مرتبہ پڑھنا افضل ہے ، اس کی برکت سے اﷲ تعالیٰ ستر
حاجات دنیاوی اور ستر حاجات عقبیٰ کی قبول فرمائے گا۔اس روز حسب ذیل دعا
کثرت کے ساتھ پڑھنا باعث ثواب ہے ، اس دعا کے پڑھنے والو کے لیے اﷲ تعالیٰ
ہزار سال کی عبادت کا ثواب لکھ دیتا ہے اور اس کے ہزار سال کے گناہ مٹا
دیتاہے اور وہ روز حشر قبر سے اس حال میں اٹھے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے
چاند کی مانند چمک رہا ہوگا۔دعا :لاَاِلہَ اﷲ ُوَ لَانَعبُدُ اِلاَ اِیْاہُ
مُخلِصِینَ لَہُالّدِینَ وَلو کَرِہَ الکٰفِرُونَ تر جمہ :’’اﷲ کے سوا کوئی
عبادت کے لائق نہیں اور ہم اس کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے ، ہم اس کے
دین کے لیے مخلص ہیں، اگر چہ کافروں کو نا گوار گزرے‘‘
حضرت عارف بااﷲ اور ڈاکٹر محمد عبدالحی نے اپنی’ کتاب اُسوۂ رسول اکرم صلی
اﷲ علیہ وسلم ‘میں حدیث بیان کی ہے جس کی راوی حضرت عائشہ صدیقہ رٰ اﷲ
تعالیٰ عنہا ہیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ شعبان کی پندرھویں شب جب کہ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نماز میں یہ پڑھ رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی
ہیں کہ صبح کو ان کلمات دعائیہ کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا اے عائشہ تم ان کو سیکھ لو اور اوروں کو سکھاؤ۔ مجھے جبریل علیہ
السلام نے یہ کلمات سکھائے ہیں اور کہا ہے کہ میں انہیں سجدے میں بار بار
پڑھا کروں۔(بیہقی، مشکوٰۃ، التر غیب و التر ہیب)دعائیہ کلمات:اللّہُمَ
اِنّیِْ اَ عُوْذُبِعَفْوِ کَ مِن عِقَابِکَ وَاَعُوْذبِرِضَاکَ مِنْ
سَخَطِکَ وَ اَعُوْذُ مِنکَ جَلَّ وَجْھُکَ لاَ اُحْصِیْ ثَنَا ءً عَلَیْکَ
اَنْتَکَمَا اَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ ط‘ ترجمہ :’’میں پناہ چاہتا ہوں آپ
کے عفو و در گذر کے ذریعہ آپ کے عذاب سے اور پناہ چاہتا ہوں آپ کی رضاکے
ذریعہ آپ کی ناراضگی سے اور آپ کی شا یان شان تعریف نہیں کرسکتا ۔آپ ویسے
ہی ہیں جیسے آپ نے خود اپنی ثنا فرمائی‘‘
شَعَبان کی پندرہویں شب کا روزہ
سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے، حضرت علی رضی اﷲ تعا لیٰ عنہہ بیان کرتے ہیں کہ
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ جب شعبان کی درمیانی رات آ
ئے تو اس رات کو قیام کرو اور دن کا روزہ رکھو، کیونکہ اﷲ تعالیٰ اس رات کو
غروب آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا پر نزول رحمت فرماتا ہے اور( اپنے بندوں کو
مخاطب کر کے فرماتا ہے ) ہے کوئی بخشش کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں؟ ہے
کوئی (کشادگی ) رزق کا خواست گار کہ میں اسے رزق عطا کروں؟ ہے کوئی مبتلائے
مصیبت کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں؟ اسی طرح تمام حاجت مندوں کی حاجات کا
ذکر کرکے رحمت باری انہیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہے اور یہ (فیضان عطا اور
سلسلۂ لطف و کرم) طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ‘‘۔اس دن روزہ رکھنے کا بہت
ثواب ہے، جس نے اس روز روزا رکھا اسے دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔
قرآن مجید اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوئی کہ شعبان المعظم کی
پندرھویں شب ’شب برأت رحمتوں اور بر کتوں والی رات ہے۔اس رات میں پرور دگار
اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے ،مالک دو جہاں کی طرف سے انوارو تجلیات ،
رحمت و بخشش کی بارش ہوتی ہے ۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے پروردگار کی
جانب سے جاری اس رحمت کے سمندر سے کیسے فیض حاصل کریں۔اگر ہم اس امید اور
یقین کے ساتھ دعا طلب کریں کہ وہ ہمارا مالک ہے، ہماری دعا کبھی رد نہیں
کرتا، وہ ہر مانگنے والے کی توقعات کے مطابق اسے دیتا ہے وہ رحیم ہے ، وہ
کریم ہے، وہ رازق ہے، وہ دو جہاں کا مالک ہے ہماری دعا یقینا قبول کرے
گا۔ہمیں چاہیے کہ اس مبارک رات کو اپنے ہاتھ سے جانے نہ دیں، غروب آفتاب کے
فوری بعد عبادات کا اہتمام کریں۔
شبِ برأ ت اور آتش بازی
ہمارے معاشرے میں بعض غیر شرعی اور بے ہودہ رسم و رواج جن میں آتش بازی
جیسی رسم شامل ہے پروان پاچکی ہے ان کی ہر طرح نفی کریں، اپنے بچوں، محلے ،
پڑوس اور شہر میں جو لوگ اس غیر شرعی فعل میں شریک ہوں انہیں اس کام کے غیر
شرعی اور خطر ناک حد تک نقصان دہ ہونے کا احساس لائیں۔اپنے بچوں کو خاص طو
پر ایسے کاموں سے دور رکھیں۔ اس عمل کا اسلامی طرز عمل سے دور دور کا واسطہ
نہیں۔
یہ غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی فعل ہے۔
شبِ برأ ت کے دن حلوہ بنا نا
اس دن کو بعض گھروں میں حلوہ پکانے اور عزیز رشتہ داروں میں تقسیم کرنے کے
لیے مخصوص کر دیا گیا ہے۔ جب کہ اس قسم کی روایت کہیں موجود نہیں۔تاہم اس
دن غریبوں، مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ممانعت نہیں یہ عمل باعث ثواب ہے
خواہ حلوہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اس دن کو مخصوص کر کے یہ عمل کرنے کی مثال
کہیں موجود نہیں۔ہم سال کے 365 میں سے کسی بھی دن یہ نیک کام کرسکتے
ہیں۔دوسری بات یہ کہ اس دن مختلف قسم کے حلوے اور انواع و اقسام کے حلوے
پکا پکا کر خواتین اس قدر تھک جاتی ہیں کہ رات میں جو کام انہیں کرنا ہے،
جو عین اسلامی اور ہمارے لیے فائدہ مند ہے یعنی عبادت کرنا ان کے لیے مشکل
ہوجاتا ہے۔
شبِ برأ ت اور ٹیلی ویژن
لمحۂ موجود میں ایک اور عمل ہمارے معاشرے میں عام ہوچکا ہے کہ نجی ٹیلی اور
سوشل میڈیا پر رات رات بھر خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ بعض
چینل کھلے میدانوں میں اس کا اہتمام کرتے ہیں جن میں ہزاروں مرد ، خواتین
اور بچے رات رات بھر شو کرنے والوں کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ اس بات میں
کوئی شک نہیں کہ اس رات ٹیلی ویژن پر شو کرنے والے اچھی باتیں ہی کر رہے
ہوتے ہیں، یعنی اس پر موضوع پر علماء اکرام کی تقاریر، حمد باری تعالیٰ ،
نعت رسول مقبول ﷺ پیش ہورہی ہوتی ہیں۔ اسی طرح مختلف گھروں میں احباب ٹیلی
ویژن کے سامنے بیٹھ کر پوری پوری رات پروگرام سننے اور دیکھنے میں گزار
دیتے ہیں۔ اس عمل سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ اچھی باتیں سننے کو ملتی ہیں، دل
خوش ہوتا ہے، پروگرام کرنے والوں کی دکانیں چمکتی ہیں، چینل کے مالکان کی
کمرشل چلانے سے خوب آمدنی ہوتی ہے، ٹی وی چینل ریٹنگ میں آگے سے آگے نکل
جانے کے دعوے کرتے ہیں، نقصان کا اندازہ لگائیں کہ ساری رات جو کام ہمیں
کرنے تھااور جس کا حکم بھی موجود ہے اس سے ہم محروم ہوگئے، نہ نماز پڑھی،
نہ نفل پڑھے ، نہ عبادت اور نہ ہی دعائیں مانگیں۔ ان سب باتوں سے ہم محروم
ہوجاتے ہیں۔ صرف شبِ برأت کی شب ہی نہیں ایسے بے شمارمواقعے آتے ہیں کہ جن
میں یہی عمل دہرایا جاتا ہے۔ کبھی ٹھنڈے دل سے، سنجیدگی کے ساتھ ، تنہا
بیٹھ کر غور کیجئے کہ ٹیلی ویژن پر اس قسم کا شو کرنے والے ہمیں کس قدر
نقصان پہنچا رہے ہیں، اس کے مقابلے میں انہیں فائدے ہی فائدے ہیں۔ اﷲ ہمیں
نیک کام کرنے کی دوفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ |
|