پاکستان میں سالانہ 1000 ارب روپے سے
زائد انکم ٹیکس چوری ہوتاہے۔ وطن عزیز کی کل آبادی کے صرف 0.3 فیصد لوگ
ڈائریکٹ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ بھارت میں یہ شرح 4.7 فیصد سے زیادہ اور کینیڈا
میں80 فیصدہے۔قانون کے مطابق پاکستان میں ہر وہ شخص جو سالانہ 5لاکھ روپے
سے زائد کماتا ہے وہ قانونی طور پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا پابند ہے مگر
سالانہ صرف ساڑھے 9 لاکھ افراد ہی اپنی ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ حکومت کو
تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی ہے، اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ملک میں ٹیکس کا
تباہ شدہ نظام ہے۔ ملکی وسائل پیدا کرنے میں ناکامی ملکی معیشت کے جمود میں
ہونے کا ایک اہم جزو ہے اور اسی لئے معیشت انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں
ہے۔ٹیکس کی وصولی کی صورتحال ابتر ہے،یہ بحران بڑھ رہا ہے اور ایک دوسرے سے
متعلق بحرانوں کو جلا بخشنے کا باعث بھی بن رہا ہے۔ پاکستان میں 30 لاکھ
افراد کے پاس نیشنل ٹیکس نمبر تو موجود ہے لیکن گزشتہ برس صرف 14لاکھ افراد
نے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع کرائے۔ٹیکس ادا نہ کرنے والے افراد مہنگے ترین
علاقوں میں بڑے بڑے بنگلوں ، مہنگی کاروں کے علاوہ اربوں روپے کے بینک
بیلنس اور جائیدادوں کے مالک ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکسوں کے مسائل کافی حد تک
پیچیدہ ہیں، ٹیکسوں کے شفاف اور موثر نظام کا فقدان ایک بنیادی مسئلہ
ہے۔بدقسمتی سے ہمارے مْلک میں جن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا ضروری ہے، وہ ٹیکس
ادا نہیں کرتے اور جو لوگ ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ ناجائز
ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ آمدنی پر ٹیکس کا اصول یہ ہے کہ جوں جوں
ٹیکس گزار کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے، ٹیکسوں میں بھی اسی تناسب سے اضافہ
ہوتا ہے۔ اِسی لئے اس کو براہِ راست ٹیکس سے موسوم کیا گیا ہے۔ قانون ساز
ادارے جب ٹیکسوں کی قانون سازی میں دلچسپی نہیں لیتے تو ٹیکس قوانین
آرڈیننس کے ذریعے لاگو کئے جاتے ہیں جو دستور کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔
ریاست کیوں ٹیکس لگاتی ہے؟ کن لوگوں کو ٹیکس ادا کرنا چاہئے؟ ہم ٹیکس کیوں
نہیں دیتے؟ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کا مصرف کیا ہے؟ سرمایہ داری نظام
میں دولت کی غیر مساوی تقسیم پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ سرمایہ کارمنافع کے
حصول کے لئے سرمایہ کاری کرتا ہے، جس میں لوگوں کی فلاح کا کوئی خیال نہیں
رکھا جاتا۔ریاستی امور کو احسن طریقے سے سرانجام دینے کے لئے مالی وسائل کی
ضرورت ہوتی ہے۔ ان وسائل کے حصول کے لئے حکومتیں ٹیکس لگاتی ہیں۔ جب
محصولات کے اہداف پورے نہیں ہوتے، تو بین لاقوامی اداروں سے سود پر قرضے
لئے جاتے ہیں۔ غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ
قرضوں کے چنگل میں اس طرح پھنس جاتے ہیں کہ پھر ان کا نکلنا مشکل ہو جاتا
ہے۔ وہ ہمیشہ عالمی طاقتوں کے زیر اثر رہتے ہیں۔یہ ایک فطری عمل ہے کہ
انسان اپنی خون پسینے کی کمائی ہوئی آمدنی میں سے کچھ حصہ علیحدہ کرنا پسند
نہیں کرتا۔ وہ بلا شرکتِ غیرے اسے اپنے تصرف میں لا کر زندگی کی سہولتوں سے
بہرہ ور ہونا چاہتا ہے۔ نہ صرف غریب ممالک میں، بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں
بھی ٹیکسوں کو اضافی بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ٹیکس حکومت کی آمدنی کا بہت بڑا
وسیلہ ہے۔ہر شہری ایمانداری سے واجب الادا ٹیکس جمع کرانے لگے تو شاید
وفاقی سطح پر عالمی قرضوں کی ضرورت نہ رہے اور صوبے بھی اپنے اخراجات میں
خود کفیل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں متعلقہ اداروں کے حکام اور اہل کاروں سے مل کر
ٹیکس بچانے اور ٹیکس چوری کرنے کا عمومی رواج ہے۔ڈنڈے کے زور پر ٹیکس وصولی
کسی حد تک بہتر ہوسکتی ہے مگر جبر اور سختی 100 فیصد ٹیکس وصولی کا حل
نہیں،اس کیلئے ترغیبات کی ضرورت ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے
صوبے میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی
اور منفرد ’’امانت سکیم‘‘ کااجرا کیا ہے۔ جس میں ترغیب دی گئی ہے کہ شہری
اپنی ذمہ داری نبھائیں، ریسٹورنٹس میں کھانا کھانے کی رسید ضرور طلب کریں
اور پنجاب ریونیو اتھارٹی کے زیر اہتمام کام کرنے والے ریسٹورنٹ انوائس
مانیٹرنگ سسٹم پر ارسال کر کے بذریعہ قرعہ اندازی انعامات حاصل
کریں۔چئیرمین پنجاب ریونیو اتھارٹی ڈاکٹر راحیل صدیقی کا کہنا ہے کہ پہلے
مرحلے میں لاہور کے 50سے زائد ریسٹورانٹس کا انتخاب کیا گیا جہاں اس سافٹ
وئیر کو انسٹال کیا جائے گا اور یوں صارفین کا تمام ریکارڈریونیو اتھارٹی
تک پہنچتا رہے گا۔ پہلے مرحلے کیلئے لاہور میں شاہی قلعہ فوڈ سٹریٹ، ایم
ایم عالم روڈ اور قذافی سٹیڈیم کے اطراف ہوٹلوں کو ریسٹورنٹ انوائس
مانیٹرنگ سسٹم کے تحٹ رجسٹر کرنے کا پلان بنایا گیاہے۔ ہمارے ملک میں یہ
عام رواج ہے کہ اچھے ریسٹورنٹ سے کھائیں یا تھڑے والے سے ، ادائیگی کی رسید
نہیں لی جاتی جبکہ ریسٹورنٹس پر تو سیلز ٹیکس عائد ہے جو گاہک سے وصول کیا
جاتا ہے۔رسید نہ دے کر ریسٹورنٹ والے سیلز ٹیکس بھی بچاتے اور اپنی آمدنی
بھی کم ظاہر کرتے ہیں، اس طرح اگر گاہک ادائیگی کرے اور رسید لے تو یہ چور
راستہ بند ہوسکتا ہے۔ پنجاب حکومت کی ’’امانت سکیم‘‘ کی تعریف کی جانا
چاہیے اور اس سکیم کو کامیاب بنانے کے لئے ہر شہری کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے
۔ اس منفردسکیم کو کامیاب بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب بھی ریسٹورنٹس
سے کھانا کھائیں تو رسید منگوا کر ادائیگی کریں، اسی طرح جنرل سٹوروں سے
خریدی جانے والی اشیاء کی رسیدیں حاصل کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہونا چاہیے،
اس سے عام شہری کو کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ ٹیکس تو اسی کی جیب سے
جانا ہے اور اگر یہ کٹوتی ٹیکس کی مد میں نہیں جاتی تو حکومتی آمدنی متاثر
ہوتی ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد ’’امانت سکیم‘‘ کے تحت
ترغیب کے اس سلسلے سے حالات میں بہتری آئی ہے اورٹیکس کی مد حکومتی آمدنی
میں بہتری آئی ہے۔ یہاں یہ امربھی خوش آئند ہے کہ اس نئے نظام کے تحت
انتہائی محدود وقت میں لاکھوں رسیدیں جمع کرائی گئی ہیں اور پنجاب ریونیو
اتھارٹی کے تحت ’’امانت سکیم‘‘ کی دوسری قرعہ انداز ی بھی عمل میں آ چکی ہے۔
وزیر اعلیٰ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ ریسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ سسٹم کے
تحت ’’امانت سکیم‘‘کی قرعہ اندازی ہرماہ ہوا کر یگی۔خادم اعلیٰ کی جانب سے
صوبے میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کیلئے نئی راویت کو فروغ دیاگیا ہے لیکن
پنجاب کے 10 کروڑ عوام کو صحت ،تعلیم ،پبلک ٹرانسپورٹ اوردیگر خدمات کی
فراہمی کیلئے ریونیو بڑھانا ضروری ہے اوراس مقصد کیلئے رضاکارانہ طورپر
ٹیکس دینے کے کلچر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔پنجاب حکومت نے اس جانب درست
قدم اٹھایا ہے اوراس پروگرام میں ابھی 90ریسٹورنٹ شامل ہیں اوریہ نظام
پنجاب کے تمام اضلاع تک پہنچایا جائے گا۔’’ امانت سکیم‘‘ کا آغازانتہائی
خوبصورت اقدام ہے، جس سے صوبے میں ٹیکس کلچر فروغ پائے گا، کیونکہ امن
وامان کی بحالی، شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ٹیکس کی وصولی
ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ عمومی طورپر وہی ریاست کامیاب کہلاتی ہے جو
ان تینوں ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھانے میں کامیاب ہوتی ہے۔ جس سے صوبے
میں ٹیکس کلچر فروغ پائے گا کیونکہ امن وامان کی بحالی،شہریوں کو بنیادی
سہولتوں کی فراہمی اورٹیکس کی وصولی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔پنجاب
حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ طاقت کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کرنے
کے بجائے ترغیب،پرکشش اقدامات اوررضاکارانہ طورپر ٹیکس اکٹھا کرنے کی
انوکھی اورمنفرد سکیم متعارف کرائی ہے ، جس کے تحت ٹیکس دینے والے شہریوں
کو قرعہ اندازی کے ذریعے قیمتی انعامات دیئے جارہے ہیں۔حکومت اس سکیم کو
بھر پور آگاہی مہم کے ذریعے مزیدآگے لیکرجانا چاہتی ہے جس سے ٹیکس کلچر جڑ
پکڑے گا۔حکومت کے مالیاتی امور کیلئے ٹیکس انتہائی اہمیت کے حامل ہے
اورعوام کو سہولتوں کی فراہمی اور واجبات کی ادائیگی بھی ٹیکسوں کی وصولی
سے ہی مشروط ہے۔ٹیکسیشن کا عمل ترقی کیلئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے ۔حکومت
کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وصول شدہ ٹیکسوں کو شفاف اورذمہ داری کے ساتھ
عوام کی فلاح وبہبود پر خرچ کرے تاہم شہری ٹیکس جمع کرانے سے اس وقت
ہچکچاتے ہیں جب انہیں ان کے دیئے جانے والے ٹیکس کے شفاف استعمال کا یقین
نہ ہواورانہیں خدشہ ہوکہ سیاستدان،بیوروکریٹس اورٹھیکیداروں کے ناپاک گٹھ
جوڑ کی وجہ سے ان کا دیاگیا ٹیکس ضائع نہ ہو۔پنجاب حکومت نے ان خدشات کو
دور کرنے کیلئے ترغیبات سے بھر پورنئی سکیم کاآغاز کیا ہے جوکہ مکمل طورپر
کمپیوٹرائزڈہے ۔ ٹیکس وصولی کے نظام میں خامیاں موجود ہیں تاہم پاکستان
مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے ان خامیوں کو بہت حد تک دور کیا ہے اورپنجاب حکومت
نے صوبے میں شفافیت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ صوبہ میں تمام وسائل نہایت
شفاف طریقے سے عوام کو بہتر سے بہتر خدمات کی فراہمی پر صرف کیے جارہے ہیں
۔ ٹیکس ریونیو بڑھائے بغیرعوام کی ترقی و خوشحالی ممکن نہیں ۔پنجاب حکومت
نے ریسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ سسٹم کا آغاز کر کے سبقت لی ہے ۔اس نئے نظام
کومختلف جہتوں میں پھیلانے کے لئے عوام کو حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا
ہو گاتاکہ ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والے وسائل تعلیم ،صحت،پینے کے صاف پانی
کی فراہمی اوردیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کئے جاسکیں۔ قومی ترقی
اور معیشت کی مضبوطی کیلئے محاصل میں اضافہ اور ٹیکس دینے کی اہلیت رکھنے
والوں کو ٹیکس کے دائرہ کار میں لانا ہوگا۔ٹیکس کلچر کو فروغ دینا وقت کی
ضرورت ہے ۔پنجاب حکومت نے صوبے میں ترغیبات کے ذریعے ٹیکس اکٹھا کرنے کے
منفرد کلچرکو فروغ دینے کیلئے ریسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا
ہے ۔قوموں کو اپنے پاؤں پر کھڑاکرنے کے لئے بڑے فیصلے کرنے پڑتے ہیں ،صرف
نعرے لگانے سے قومیں نہیں بنتیں۔ایسے لوگ جو ٹیکس دینے اہلیت رکھتے ہو اور
وہ قرضے معاف کرائیں اس قومیں تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔ پنجاب حکومت نے
ٹیکس کلچر کے فروغ کیلئے شاندار قدم اٹھا یا ہے ۔اگرٹیکس ادا کرنے کی طاقت
رکھنے والوں سے ٹیکس نہ لیا جائے اوردوسری طرف کھربوں کے اثاثے رکھنے والوں
کے قرضے معاف کردیئے جائیں تو اس طرح قومیں تباہ ہوتی ہیں اورمعیشت پر کاری
ضرب لگتی ہے ۔حکومت کے مالیاتی امور کیلئے ٹیکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں
اورعوام کو سہولتوں کی فراہمی اور واجبات کی ادائیگی بھی ٹیکسوں کی وصولی
سے ہی مشروط ہے۔ٹیکسوں کی بنیاد کو وسیع کرنا اور ٹیکس کلچر کو فروغ دینا
پورے ملک کے مفاد میں ہے۔ ٹیکس کلچر کو فروغ دینے سے نہ صرف موجودہ نسل
بلکہ آنے والی نسلوں کا بھی بھلا ہوگا۔عالمی برادری میں ان قوموں کو اچھا
اور محب وطن تصور کیا جاتا ہے جو ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ جن ممالک میں لوگ ٹیکس
نہیں دیتے وہاں حکومتیں پٹرولیم پراڈکٹس اور بجلی جیسی روزمرہ اشیاء پر
ٹیکس لگانے پر مجبور ہوتی ہیں جس سے معاشرے کا غریب طبقہ متاثر ہوتا
ہے۔’’امانت سکیم ‘‘سے خادم اعلیٰ نے ایک اعلیٰ ترغیب دی ہے اور مکمل طورپر
شفاف اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آراستہ پیراستہ ہے۔دیگر صوبوں اورپنجاب کے
دیگر اضلاع کی عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایسی سکیم انکے صوبے
یا شہر میں بھی شروع کی جائے اوریہ امر اس سکیم کی کامیابی کا بین ثبوت ہے
۔ ابھی ابتداء ہے تاہم اس سکیم کو بھر پور آگاہی مہم کے ذریعے مزیدآگے تک
لیکرجایا جا سکتا ہے اس سے یقینا ٹیکس کلچر کو فروغ ملے گا۔ ٹیکس کلچر سے
صوبہ پنجاب بھر میں تعمیراتی کاموں میں تیز آئیگی ،صوبہ کے ریونیو میں
اضافہ ہوگا اور مالیاتی بحران حل ہوجائیگا۔ وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف کے
صوبے میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے اقدامات قابل ستائش ہیں اور
ریسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ سسٹم سے صوبائی ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ |