یہ چیلنچ ہے

یہ چیلنچ ہے، 68سالہ مُلکی تاریخ میں فوج سے زیادہ کوئی ادارہ مُلک اور قوم سے مخلص نہیں ہے.. . ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ؟؟، غریب اور مفلوک الحال سرکاری اور نجی ملازمین کی تنخواہوں میں سالانہ صرف 10سے 15فیصداضافہ اورایک ، دوہزارروپے اضافہ
مُلکِ پاکستان کے توانائی کے بحرانوں اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل میں گھیرے اور اچھی و خالص خوراک ، پینے کے صاف پانی ،اچھی و سستی تعلیم اور جدید علاج اور بہترین سفری سہولیات اور اپنے بنیادی نوعیت کے حقوق سے محروم غریب اور مفلوک الحال عوام سے ووٹ لے کر قومی اسمبلی میں جانے والے ایوانِ نمائندگان(یعنی کہ اپنے حلقے کے غریب اور مسائل میں دفن عوام کے مسائل حل کرنے کے دعویدار عوامی نمائندوں) نے خاموشی سے قومی اسمبلی میں متفقہ طور پراپنی تنخواہوں میں 3اورمراعات میں کئی گنااضافہ کی تحریک کی منظوری دے دی ہے۔

جبکہ چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے سیننیٹرز کی تنخواہوں میں اضافے کی تحریک مستردکرتے ہوئے کہاہے کہ سینیٹرز کی تنخواہوں میں اضافے کو ناجائز مطالبہ سمجھتاہوں یہ تو بیچارے اُوپری دل سے یہ کہہ کرخاموش ہوگئے مگر اضافے کو نہ روک سکے ہواوہی جو وزیراعظم نوازشریف اور اِن کے سمدھی وزیرخزانہ اسحاق ڈار قائم مقام چیئرمین قائمہ قواعد واستحقاقات چوہدری محمود بشیرورک چاہتے ہیں یوں ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں اندھادھن اضافہ کرکے ن لیگ کی حکومت نے پانامالیکس کے معاملے پر خاموشی اختیارکرنے کے لئے ارکان پارلیمان کو قومی خزانے سے تحفے کی صورت میں اورکچھ ..... دے کراپناگرویدہ بنانے کی اچھی کوشش کی ہے اور اِس طرح یہ بھی ممکن ہے کہ اِس میں حکومت کامیاب بھی ہوگئی ہے ۔

بہرکیف ،خبریہ ہے کہ گزشتہ دِنوں قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں3اور مراعات میں یکمشت کئی گنااضافے ہوگیاہے جس کے مطابق ارکان پارلیمنٹ(غریب مُلک کے غریب عوام کے خودساختہ اور اپنے منہ غریب کہلانے والے چالاک اور مفادپرست عوامی نمائندوں ) کی تنخواہ 71ہزارسے بڑھ کر2لاکھ ہوگی،اور مزید یہ کہ اَب اِنہیں ماہانہ 2لاکھ 20ہزارالاؤنس ملیں گے ، ٹرانسپورٹ الاؤنس بھی 50ہزار تک بڑھانے کی تحریک کی منظوری دے دی گئی ہے۔

اَب جس کے بعد سرکاری اور نجی اداروں کے کم گریڈکے ہزاروں میں تنخواہیں لینے والے ملازمین کی بنیادی تنخواہوں میں وفاقی بجٹ میں سالانہ صرف 10سے 15فیصداور 1 یا2 ہزارتک بڑھانے کی منظوری دینے والے غریب عوام کے امیرنمائندے لاکھوں میں اپنی تنخواہیں لیاکریں گے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے مہنگائی کے جن سے لڑتے مرتے اور مسائل کی دلدل میں پل پل دھنستے اور اپنے بنیادی حقوق سے محروم سرکاری اور نجی اداروں کے کم گریڈ کے ملازمین کی تنخواہوں میں اگلے وفاقی بجٹ میں وہی اُونٹ کے منہ میں زیرہ جتنااضافہ کیا جائے گا ۔

جبکہ اطلاع ہے کہ قومی اسمبلی میں ارکان پارلیمان کی تنخواہوں اور مراعات میں کئی گنااضافہ کی تحریک کی منظوری کے بعد اسپیکر چیئرمین سینیٹ کی بنیادی تنخواہ 4لاکھ، ڈپٹی اسپیکر وڈپٹی چیئرمین 3لاکھ50ہزار، مختلف الاؤنس 6ہزارسے بڑھاکر50ہزار، رکن قومی اسمبلی کی بنیادی تنخواہ2لاکھ اور الاؤنس 2لاکھ بزنس کلاس ایئرریٹرن ٹکٹ یا واؤچرس کی حد3لاکھ روپے کرنے کی تجاویز پیش کی گئی پھرآنافاناََ جس کی یکدم سے منظوری بھی دے دی گئی یوں اﷲ اﷲ یکشمت عوامی نمائندگان کی تنخواہوں میں لاکھوں کا ہونے والااضافہ ہوگیاہے ۔

اَب یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں پلک جھپکتے ہی لاکھوں میں ہونے والا اضافہ کیا قومی خزانے پر بوجھ نہیں ہے؟؟ یا اِن کی تنخواہوں میں کیا جانے والایہ اضافہ نوازحکومت کسی خفیہ راستے ہونے والی مُلکی آمدنی سے کررہی ہے ؟؟یا یہ صاحب اقتدارکی کرپشن اور ارکانِ پارلیمان کو پامانالیکس کے معاملے پر خاموش رہنے کے لئے رشوت جیسا کوئی اضافہ تو نہیں ہے؟؟ یہ و ہ سوالات ہیں اَب جن کے تسلی بخش جوابات مہنگائی بھوک و افلاس اور ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا ہر پاکستانی روزانہ آئی ایم ایف سے لاکھوں ڈالراور سالانہ 5سے 15ارب ڈالرقرضہ لینے والے ن لیگ کے سربراہ اور مُلک کے شارپ مائنڈ بزنس مین وزیراعظم نوازشریف جوقومی خزانے پر اضافی بوجھ کی آڑمیں قومی اداروں سے ملازمین کی چھانٹی کررہے ہیں اور قومی خزانے کو بھرنے کے خاطر مُلک کے منافع بخش پی آئی اے اور اسٹیل ملز اور بندرگاہوں کی برتھیں اور پوری کی پوری قومی بندرگاہوں کو من پسندکاروباری افراد کے ہاتھوں کوڑیوں کے داموں فروخت کررہے ہیں اور قومی خزانے کو لبالب بھرنے کی آڑ میں قوم کو نقصان درنقصان پہنچارہے ہیں اور دوسری طرف اپنی آف شورکمپنیاں بنائے چلے جارہے ہیں۔

تودوسری طرف غریب کی جھولی میں جاتی پائی پائی کو دانت سے پکڑنے والے بازجیسی نظررکھنے والے وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار اورقائم مقام چئیرمین قائمہ کمیٹی قواعدواستحقاقات چوہدری محمود بشیرورک سے بھی پاکستانی قوم کا ہرجواب چاہتاہے جنہوں نے ارکان پارلیمان کی سابقہ تنخواہوں اور مراعات سے متعلق کہاہے ’’ تمام پارلیمنٹرینز کی تنخواہیں اور مراعات شرمناک حدتک کم تھی جس پر میں نے کئی بار احتجاج کیا‘‘اور اَب کیا چوہدری محمود بشیر ورک کا احتجاج ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں لاکھوں میں ہونے والے اضافے کے بعد ختم ہوجائے گا؟ یا یہ ابھی ارکان پارلیمان کی تنخواہوں میں ہونے والے اندھے اضافے سے مطمئن نہیں ہوں گے ؟؟ یا ارکان پارلیمان کی مزید تنخواہوں میں اضاضے کے لئے احتجاج کریں گے؟؟یا قومی خزانے میں پڑی غریب کے خون پسینے کی کمائی پر ہاتھ صاف کرکے اپنی اِس کامیابی پر تالیاں بجاکر خاموش بیٹھ جائیں گے؟؟ یایہ اگلے بجٹ میں اِسی تناسب سے مُلک کے سرکاری اور نجی اداروں کے ملازمین تنخواہوں میں اضافے کی بھی منظوری دینے کی بات کریں گے؟؟

بہرحال ،اِس تناظر میں آج اگر کسی میں ہمت ہے تو میری یہ بات ــ’’68سالہ مُلکی تاریخ میں فوج سے زیادہ کوئی ادارہ مُلک اور قوم سے مُخلص نہیں ہے‘‘ جھوٹ ثابت کرکے دِکھائے ورنہ خاموشی سے میرایہ آئینہ دیکھتا چلائے جو میں اگلے سطور میں دِکھانے جارہاہوں۔

یہاں میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہناچاہتاہوں کہ ہمیشہ ہی سے غریبوں کے ووٹ بٹورکر میرے مُلک کے ایوانوں میں بیٹھنے والوں کے مقاصدمُلک اور قوم کی ترقی اور خوشحالی سے متعلق قانون سازی کرنااور عوامی مسائل حل کرنانہیں بلکہ ایوان کی دبیز قالینوں اور ٹھنڈے کمروں اور نرم وملائم کرسیوں پر تشریف کا ٹوکرا رکھنے والوں کی خواہش جمہوراور جمہوریت کے نام پر اپنا مقام ومرتبہ بلندکرنااور پروٹوکول لیناتورہاہے مگر اپنے ماتھے اور سینے پہ عوامی خدمت کے دعویداروں نے ایوانوں میں جانے کے بعد سوائے قومی خزانے سے اپنی خدمت کرنے اور کرانے اوراللے تللے کرنے کے کچھ سوچااور سمجھاہی نہیں ہے۔

اگر68سالوں کے دوران ایوانِ نمائندگان نے زیادہ کچھ کیا تو سیاست کے اِن کمہاروں نے ایوانوں میں جانے کے بعد جمہور اور جمہوریت کی چکنی مٹی سے روز اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے خاطر جمہوریت کی دلکش اور دلنشین مٹی سے نیا قانون بنایااور پھر خود ہی کچھ عرصہ بعد اِس میں ترمیم کرتے چلے گئے اور جو بھی آیا وہ اِسی روش پر چلااور آئین کو مسخ کرتاگیااِس شک نہیں کہ مُلکی تاریخ کا ایک بڑاعرصہ اِس بات کا گواہ ہے کہ ماضی و حال میں ایوان میں جیساکمہارآیااُس نے اپنی مرضی سے جمہوریت کی چکنی مٹی سے اپنے پسند کے قوانین بنائے اور بناتاہی چلاگیاہے۔

الغرض یہ کہ میرے مُلک میں حکمرانوں، سیاستدانوں اور اداروں کے سربراہان اور بیوروکریٹس اور ٹیکنوکریٹس نے اپنی اپنی مرضی کی جمہوریت کے کلچر کو پروان چڑھایا اور اپنااپنا حصہ ڈال کراور قوم کو جمہوریت کی لال بتی کے پیچھے لگاکر اپناالوسیدھاکرکے چلتابناہے یعنی یہ کہ ہمیشہ سرزمینِ پاکستان میں سِول حکمرانوں اور سیاستدانوں نے جمہوریت کا لبادہ اُوڑھ کرسِوائے مُلک اور قوم کو لوٹنے اور کھسوٹنے کے کچھ نہیں کیا ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 971949 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.