نہ دہشت گرد ہے ٹوپی اور نہ غدارڈاڑھی ہے . امریکااور سعودی عرب کے کشیدہ ہوتے تعلقات.
(Muhammad Azam Azim Azam, Karachi)
اورامریکی سینیٹ نے 9/11میں ہلاکتوں پر سعودی عرب پر مقدمے کی منظوری کا بل منظورکرلیا.... !!
|
|
آج امریکا نے نائن الیون کے بعد مسلم اُمہ
کو دہشت گردگرداننے کے لئے اپنی ایڑی چوٹی کاجس طرح کا زور لگا رکھاہے اِس
سے امریکاکا پاگل پن ٹپک رہاہے اور نائن الیون کا بدلہ لینے کے لئے اپنے
وسائل جس طرح مسلم ممالک میں اپنے اتحادیوں اور حواریوں کے ہمراہ دہشت گردی
پھیلاکراور خودساختہ جنگ مسلط کرکے ضائع کررہاہے یہ اِس کی معیشت اور بقاء
پر بہت بڑاسوالیہ نشان ہے اور دنیابالخصوص مسلم ممالک کو طاقت کے بل بوتے
فتح کرنے والے امریکاکا گھمنڈ کسی سے بھی ڈھکا چھپانہیں ہے۔
اِن دِنوں جس طرح امریکا اسرائیلیوں کے بہکاوے میں آکرمسلم اُمہ سے انتقام
کی آگ میں جلتے جلتے اُس حدتک چلاگیاہے کہ اَب جہاں سے اِس کی واپسی بہت
مشکل ہے، اوراِ س سے بھی انکار نہیں کہ اَب تک امریکا نائن الیون کے انتقام
کی آگ کا بدلہ لینے کے لئے مشرقی وسطیٰ سمیت جنوبی ایشیاکے کئی مسلم ممالک
کو شدیدنقصان پہنچاچکاہے اوراُمتِ مسلمہ کے ممالک کو مزید جانی ، مالی ،
سیاسی، سماجی، اقتصادی اور اخلاقی نقصانات پہنچانے کی سازشیں تیارکرچکاہے۔
آج اگر ایسے میں مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے ممالک کا جائزہ لیا جائے
تو اِن خطوں کے جن ممالک میں کسی بھی حوالے سے جتنی بھی شورش ہے یاجب کبھی
رہی ہے اِن سب کے درپردہ امریکا کا ہی ہاتھ اور سازش کارفرماہے۔
کیونکہ آج امریکا واضح طور پر مسلم اُمہ کو سُنی اور شیعہ بلاکس میں باٹنے
کی منصوبہ بندی کرچکاہے،اور بڑے عرصے سے امریکا کی یہی کوشش رہی ہے کہ مسلم
ممالک کے سُنی بلاکس سے تعلقات میں کمی لاکرپہلے شیعہ ممالک سے دوستی کا
ہاتھ بڑھایاجائے اور مسلم ممالک کے سُنی بلاکس کے مقابلے میں شیعہ بلاکس کو
اقتصادی اور جنگی سازوسامان کے حوالے سے مضبوط بنایاجائے اور مسلم ممالک کو
شیعہ اور سُنی بلاکس میں بانٹ کر اِن کے درمیان اتنی کشیدگی پیداکردی جائے
جو آہستہ آہستہ خوبخود دومسلم بلاکس کی جنگ میں بدل جائے ۔
یہی وہ ایک سازش ہے جس پر امریکا کافی عرصے سے کام کررہاہے اور پچھلے دِنوں
اِس کا ثبوت اچانک ایران پر سے پابندیاں ہٹاکر امریکانے خود دے دیاہے اَب
یہ بات مسلم اُمہ کے ایران جیسے دیگر شیعہ برادر ممالک کوبھی سمجھنی چاہئے
کہ وہ امریکی سازش کا حصہ بننے سے بچیں تو امریکی سازش کوناکام
بنایاجاسکتاہے ورنہ...؟؟۔
بہرحال، آج یقینی طور پرامریکا کی قربتیں سعودی عرب سے زیادہ ایران سمیت
دیگر فرقے والے ممالک سے بڑھ گئی ہیں کیونکہ امریکا یہ بات اچھی طرح سے
سمجھتاہے کہ اُمتِ مسلمہ میں سعودی عرب اپنے اسلامی اُصولوں اور ضابطوں اور
معاشی و سیاسی لحاظ اور فہم وفراست اور تدبرکے حوالوں سے ایران دوسرے فرقوں
والے ممالک اور ریاستوں سے زیادہ معتبراور قابلِ احترام حیثیت رکھتاہے جبکہ
ایران اور دوسرے فرقوں والے ممالک کو اقتصادی ، سیاسی اور دیگرحوالوں سے
اتناخاص مقام توحاصل نہیں ہے اور نہ ہی فرقے کے حوالے سے ساری اُمتِ مسلمہ
ایران اور دیگرکو اُس طرح دیکھتی ہے جیساکہ سعودی عرب کو اپنامرکزمانتی
اورجانتی ہے اِس لحاظ سے بھی سعودی عرب کا ایک خاص اور بلندمقام ہے ایسے
میں کسی شیعہ ملک کو سعودی عرب کے مقابلے میں لاکھڑاکردیاجائے اور جب اِس
کی طوطی بولنے لگے تو پھر جلدہی اُس کا حشر بھی ویساہی کردیاجائے جیساکہ
شیعہ ملک کے ہاتھوں سُنی ملک کا کیاگیاتھا۔
تاہم سعودی عرب کے مقام اور مرتبے میں اندرونی طور پر کمی لانے کے لئے
سعودی عرب کے زمینی حقائق اورحالات اور واقعات کی بنیاد پر امریکا کا زیادہ
تر جھکاؤ ایران کی جانب ہوگیاہے تاکہ ایران کوجلدازجلد مضبوط کرکے سعودی
عرب کے مدِمقابل لایاجائے اور سعودی عرب کو نقصان پہنچایاجائے یوں امریکاکی
سعودی عرب سے بڑھنے والی کشیدگی مشرقی وسطیٰ کے حالات کو مزید گھمبیربنادے
گی۔
جبکہ گزشتہ دِنوں جس طرح پندرہ برس بعد امریکی سینیٹ نے نائن الیون میں
ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین اور رشتے داروں کو سعودی عرب پر مقدمے کی
اجازت دینے کے حوالے سے ایک ایسا بل بھی منظورکرلیاگیاہے جو سعودی عرب کے
امریکاسے تعلقات کے حوالے سے وائٹ ہاؤس اور اوباماانتظامیہ کی دوغلی پا
لیسی کا بین ثبوت ہے اِس کے بعد تویہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ
امریکی سینیٹ میں پاس ہونے والے بل جس کا نام جسٹس اگینسٹ اسپانسرزآف
ٹیرارزم ایکٹ JASTAرکھاگیاہے اِس سے سعودی عرب اور امریکاکے نہ صرف دوستانہ
بلکہ دیگر ظاہر وباطن معاملات بھی شدیدمتاثر ہوسکتے ہیں بلکہ پہلے سے مسائل
میں گھیرا مشرقی وسطیٰ بھی مزیدبحرانوں کا شکارہوجائے گا ۔
اگرچہ اِس بل سے متعلق امریکی حکام کا کہناہے کہ یہ ایکٹ ایوان زیریں میں
منظوری اور صدرکے دستخط کے بعد قانون کا درجہ حاصل کرلے گا اِس طرح یقینی
طور پر نائن الیون کے متاثرین کو کھلی طور پر یہ اجازت حاصل ہوجائے گی کہ
وہ نیویارک کی عدالت میں سعودی حکومت کے خلاف مقدمے اور ہرجانے کے دعوے
کرسکیں گے،اورسعودی عرب سے خون بہالیں گے۔
تاہم اِسی حوالے سے ایک خبریہ بھی ہے کہ نائن الیون میں ہلاک ہونے والے
لواحقین کی نمائندگی کرنے والے وکلاء کا موقف ہے کہ2001میں امریکامیں ہونے
والے حملوں میں پندرہ سعودی بھی ملوث تھے جن کے دہشت گردوں تعلقات تھے اور
پندرہ سعودی باشندوں نے نائن الیون کے دہشت گردوں کی معاونت کی تھی جن کی
مدد سے دہشت گرد امریکا میں سانحہ نائن الیون رونماکرنے میں کامیاب ہوئے
اور سیکڑوں امریکیوں کو واصلِ جہنم کیا۔
جبکہ سعودی عرب پہلے ہی واضح طور پر یہ کہہ چکاہے کہ نائن الیون کے حادثے
سے سعودی حکومت اور سعودی باشندوں کا کوئی تعلق نہیں ہے آج اگر امریکی
حکومت اور امریکی سینیٹ مفروضوں کی بنیاد پر بغیر کسی وجہ اور بلاجواز
اورعدم تحقیقات کی بنیاد پر سعودی عرب پر نائن الیون میں ہلاک ہونے والے
افراد کا الزام لگاکر کسی قسم کا کوئی مقدمہ قائم کرتی ہے تو پھرسعودی عرب
امریکامیں اپنے ساڑے سات سو ارب ڈالرز یا اِس سے زائد کی انویسمنٹ منجمد
کردے گا یا فروخت کردے گا ۔
یوں آج سعودی عرب کی جانب سے آنے والے اِس سخت ردِ عمل پروائٹ ہاؤس نے
سینیٹ میں بل کی منظوری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے 80سالہ امریکااور
سعودی عرب کے تعلقات کی روشنی میں بس اتناہی کہاہے کہ ’’ یہ تصورکرنامشکل
ہے کہ صدراوبامااِس بل پردستخط کریں گے ‘‘تووہیں امریکی صدراوباما کا یہ
کہناہے کہ اگرسعودی عرب اِس میں ملوث نہیں ہے تو پھر سعودی عرب کو احتساب
سے گھبرانے کی بھی کوئی ضرور ت نہیں ہے؟؟ اگر ایسانہیں ہے تو پھر امریکی
انتظامیہ اور امریکی سینیٹ کو بھی تو یہ چاہئے کہ وہ تن من دھن کی بازی
لگادے کہ وہ سعودی عرب کے خلاف ایساکوئی اندھاقانون کبھی بھی نہیں بنائے
گااور منظورہوکربھی نامنظورجانے گا جس سے سعودی عرب کے خلاف امریکیوں کی
سازش بے نقاب ہو۔
بہرکیف، ایک طرف امریکا کی مسلم اُمہ کو ایک ایک کرکے پیس ڈالنے کی سازش ہے
تودوسری طرف انتقام آگ میں جلتے امریکاکو اپنے بغل بچے اسرائیل کی نائن
الیون کی سازش ابھی تک نظرنہیں آئی ہے جو نائن الیون کا اصل ذمہ دار ہے اور
جس نے خود کو بچاتے ہوئے امریکیوں کے کان میں یہ پھونک دیاہے کہ نائن الیون
کی ذمہ دارصرف مسلم اُمہ ہے، آج اگر سعودی عرب پر امریکیوں کی جانب سے
ایساقانون بن سکتاہے تو پھر امریکیوں کو بھی اپنی کمرضرورمضبوط کرنی ہوگی
کہ امریکاپر بھی دنیادہشت گردی کے مقدمات بناکر امریکااور امریکیوں کے لئے
بھی حالات تنگ کرسکتی ہے اور جب سعودی عرب اور امریکاکے ساتھ ایساہوسکتاہے
تو پھر لامحالہ پاکستان سمیت دنیاکے دیگر ممالک پر بھی اُوٹِ دہشت گردی سے
مقدمات بنائے جاسکتے ہیں امریکاکو سعودی عرب پرایسے مقدمات بنانے سے ہر حال
میں اجتناب برتناہوگاورنہ دنیامیں کوئی بھی مُلک مقدمات سے نہیں بچ سکے گا۔
اَب آخر میں ، میں امریکیوں سے مخاطب ہوں اوربرصغیر کی معروف خوش الحان
شاعرہ لتا حیاء کا یہ شعرپیش کرکے اجازت چاہوں گاکہ:۔
’’نہ دہشت گرد ہے ٹوپی اور نہ غدار ڈاڑھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقت جو نہیں سمجھے
حیاء وہ بلکل اناڑی ہے‘‘۔
|
|