20 نومبر کو وزیر اعظم پاکستان محمد نواز شریف سوات کے
مختصر دورے پر آئے اس سے قبل وزیرا عظم کے دورہ ملتوی ہونے کے حوالے سے
مختلف خبریں بھی زیر گردش رہیں لیکن پھر وزیر اعظم کے مشیر انجینئر امیر
مقام نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دورہ شیڈ ول کے مطابق یقینی قرار دیا ،اس
دوران مسلم لیگ ن کے مقامی قائدین کی جانب سے یہ دعوے کئے گئے کہ وزیر اعظم
صاحب دورہ سوات میں کئی میگا پراجیکٹس کا اعلان تو کریں گے ہی لیکن سب سے
اہم ایشو یعنی ملاکنڈ ڈویژن میں حالیہ لگنے والے کسٹم ایکٹ کے خاتمے کا بھی
اعلان کیا جائے گا ۔ اس کے علاوہ سوات کے مرکزی شہر مینگورہ کی تمام سڑکیں
خواہ وہ اندرون شہر کی سڑکیں ہوں یا شہر سے باہر آنے جانے کی سڑکیں ہوں اور
جو سب کی سب کھنڈرات کا نمونہ بنے ہوئے ہیں کی تعمیر ومرمت کے منصوبے کا
بھی اعلان کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ یہ بھی دعویٰ ہوتار ہا کہ سوات کے اہم
گاﺅں مرغزار تک سوئی گیس پہنچانے کے منصوبے کا بھی وزیر اعظم اعلان کریں گے
لیکن نتیجہ اس کے برعکس ثابت ہوا ، نواز شریف نے سوات پہنچ کر سب سے پہلے
طے شدہ شیڈول کے مطابق سب سے پہلے منگلور کڈنی اسپتال کا افتتاح کیا جس کے
بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اسے پنجاب کی حکومت نے سوات کی عوام کے
لئے تحفہ کے طورپر بنا کردیا ہے جبکہ صوبائی حکومت اس کے جواب میں کہتی ہے
کہ اس اسپتال کی تعمیر کے لئے زمین صوبائی حکومت نے فراہم کردی ہے جبکہ اس
کے لئے عملے کا تعین بھی صوبائی حکومت نے کرتے ہوئے ان کا تمام خرچہ صوبائی
حکومت برداشت کررہی ہے ایسے میںمرکز کا اس اسپتال کی تعمیر میں کونسا حصہ
رہ جاتا ہے ۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ملاکنڈ ڈویژن باالخصوص سوات کی عوام
گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے گوناگوں مشکلات کے شکار رہے ہیں ، سب سے پہلے عسکریت
پسندی ،بعدا زاں ملکی تاریخ کی بدترین سیلاب اور آخر میں دودفعہ کے زلزلوں
نے سوات اور شانگلہ کے علاقوں میں وہ تباہی مچائی اور انفراسٹرکچر کو اس
بری طرح متاثر کیا جس کی بحالی اور حکومتی اقدامات میں غفلت سے بحالی کا
خواب پورا ہونے میں صدیوں کا فاصلہ معلوم ہوتا ہے ایسے میں دو ماہ قبل
ملاکنڈ ڈویژن میں لگنے والی کسٹم ایکٹ نے ڈویژن کے لوگوں کی زندگی کو مزید
مشکلات کا شکار بنا دیا ہے ، کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ اگر چہ عوام
سمجھتے ہیں کہ کس کی ایما ءپر کیا گیا ہے لیکن مرکز اور صوبہ ایک دوسرے کو
مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ذمہ داری قبول کرنے سے انکاری ہیں مرکزکہتا ہے کہ
صوبے کی پروپوزل پر وفاق کے نمائندے گورنر خیبرپختونخوا نے قاصدکا کردار
ادا کرتے ہوئے سمری مرکز میں بھیجی اور ضروری کارروائی کے بعد اسے مزید آگے
بڑھاتے ہوئے لاگو کیا گیا جبکہ صوبہ اس حوالے سے اپنی مرضی کی عجیب سی منطق
پیش کررہی ہے ۔ بہر حال عوامی دباﺅ اور احتجاجوں کے بعد صوبہ اس بات پر
راضی ہوا کہ ایک اور سمری مرکز کو روانہ کی جس میں ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم
ایکٹ کے خاتمے کی استدعا کی گئی تھی اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے مقامی
قائدین مسلسل دعویٰ کررہے تھے کہ نوازشریف سوات دورے کے موقع پر یہاںکی
عوام کو کسٹم ایکٹ کے خاتمے کی نوید سنائیں گے ۔ اس کے علاوہ سوات کی
سڑکوںکی حالت جو کسی سے پوشیدہ نہیں اندرون شہر سمیت لنڈاکی تک مین جی ٹی
روڈ موہنجو داڑو کی کھنڈرات کا نمونہ بنے ہوئے ہیں جس پرا گر ایک صحت مند
انسان بھی سفر کرلے تو وہ ایک ہفتے تک اپنے آپ کو مریض تصور کرتے ہوئے کسی
کا م کاقابل نہیں رہتا اس حوا لے سے بھی بڑے دعوے سامنے آرہے تھے کہ
نوازشریف سوات کے مرکزی شہر کی سڑکیں تعمیر کرانے کا منصوبہ منظور کرنے کا
اعلان کریں گے جبکہ مرغزار گاﺅں جو قدرتی جنگلات سے مالا مال علاقہ ہے لیکن
اس میں سوختنی ضروریات کو پور ا کرنے کےلئے سہولیات دستیاب نہیں اس کے بارے
میں بھی دعویٰ کیا جارہا تھا کہ نواز شریف اس گاﺅں تک گیس فراہمی کے منصوبے
کا اعلان کریں گے لیکن یہ تمام باتیں اور دعوے دعوے ہی رہے ۔
نوازشریف نے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے سڑکیں تعمیر کرانے کی بات
ضرور کی لیکن یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کہاں کی سڑکوں کی بات ہورہی ہے اور
جو اہم مسئلہ تھا یعنی ملاکنڈ ڈویژن سے کسٹم ایکٹ کے خاتمے کا اس کا تو
جناب وزیرا عظم صاحب نے اشارتاً بھی ذکر کرنا گوارہ نہیں کیا ، بلکہ جلسہ
گاہ میں شریک عوام سے لے کر گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے نواز شریف کی
تقریب سننے والوںکی کانیں اس خبر کو سننے کیلئے آخرتک محو رہیں لیکن یہ
خیال بس خیال ہی رہا اور مقامی قیادت کی جانب سے کئے گئے دعوے ہوا میں معلق
رہے ، اسی طرح موصوف نے چکدرہ سے کالام تک 133 کلومیٹر سڑک چاررویہ بنانے
کی بات ضرور کی لیکن اندرون شہر کی کھنڈرات بنی سڑکوں کی تعمیر کے حوالے سے
کسی منصوبے کا ذکر سامنے نہیں آسکا یہاں عوامی حلقوں کی جانب سے جس بات کی
سب سے زیادہ توقع کی جارہی تھی کہ سیاحتی علاقے کالام کی سڑک جو سال 2010
کے سیلاب میں بہہ گئی ہے اور اب اس کی جگہ کھنڈرات کی شکل میں ایک لکیر
باقی رہ گئی ہے اور بحرین تا کالام راستہ جو سڑک کے ذریعے محض ایک گھنٹے کی
مسافت کا تھا اب اسے طے کرنے کے لئے پورا ایک دن درکار ہوتا ہے کے بارے میں
کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چونکہ سیاحتی سیزن عروج پر
ہے اور ملک بھر سمیت بیرون ممالک سے سیاح کالام میں قدرت کی حسین نظاروں سے
لطف اندوز ہونے کے لئے بے تاب ہیں لیکن سڑک وہاں تک پہنچنے میں آڑے آرہی ہے
اس پر سب سے زیادہ توجہ کی ضرورت تھی لیکن اسے بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا
گیااور آخر میں بات آجاتی ہے مرغزار گاﺅں کی تو اس کو نظر انداز کرنے کے
بھی بڑے بھیانک نتائج سامنے آئیں گے کیونکہ اس علاقے میں سوختنی ضروریات کو
پورا کرنے کے لئے مقامی لوگ جنگلا کی کٹائی پر مجبور ہیں اور یہ سب ہی
جانتے ہیں کہ جنگلا ت کی کٹائی کیا رنگ لائے گی ،یقینی طورپر اس سے
ماحولیات کا مسئلہ پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی قدرتی خوبصورتی کو
داغ لگے گا چونکہ اس علاقے کی خوبصورتی کا اصل حسن یہی جنگلات ہی ہیں لیکن
بے دریغ کٹائی سے جب اس کے جنگلات چٹیل میدانوں میں تبدیل ہوںگے تو یقینی
طورپر پھر سیاح وہاں کیا دیکھنے کے لئے جائیں گے ایسے میں سوات کی عوام یہ
سوچنے میں حق بہ جانب ہیں کہ یہاں کی خوبصورت علاقوںکے مسائل سے قصداً چشم
پوشی برتی جارہی ہے جس کیو جہ سے یہاں کی سیاحت کے شعبے کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچ رہا ہے ، وزیر اعظم نے سوات کے بنیادی مسائل کو چھوڑ کر جن
منصوبوںکا ذکر کیا ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن دورے کے حوالے سے جو
دعوے کئے جارہے تھے وہ پورا نہ ہونے کی بناءپر وزیراعظم پاکستان کی حیثیت
سے موجودہ دورے کو ناکام ہی کہا جائے گا۔ |