ایک عام پاکستانی کی سوچ کا محور ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ
جب بھی ملک میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہو تو ہم سب ہمیشہ یہی بات
کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر یہ زرداری کب جائے گا، اس وقت ہماری نظر میں
زرداری سے برا انسان پورے ملک میں نہیں تھا.
آج کل ہمارا یہی حال نواز شریف کے بارے میں ہے، چوں کہ پاکستان میں اس وقت
مسلم لیگ (نواز) کی حکومت چل رہی ہے تو اس کو ہٹانے کے لیے سب چھوٹی بڑی
سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک ہو رہی ہیں.
یہاں پاکستان میں کسی بھی جہموری حکومت کو اپنی آئینی مدّت سے پہلے ختم
کرنے کی جو اصل وجہہ ہمیشہ سے سامنے آتی ہے وہ کرپشن ہی ہے.
چلو مان لیا کہ آج تمام سیاسی جماعتیں مل کر احتجاجی تحریک چلا کر نواز
شریف کی حکومت کو ختم بھی کر دیں.... پھر اس کے بعد کیا اس ملک سے کرپشن
ختم ہو جاۓ گی..... کبھی بھی نہیں، کیوں کہ نواز شریف کی حکومت کے بعد پھر
سے پاکستان پیپلز پارٹی کی باری ہے حکومت کرنے کی جن کی نیک نیتی کے چرچے
ہر آنکھ اور ہر ذھن میں محفوظ ہیں.
کوئی ہیرا پھیری کر کے کھا رہا ہے یہ ایک آرٹ ہے، یہ الگ بات ہے کہ جو پکڑا
گیا سمجھو کہ کچا کھلاڑی ہے. کوئی لوٹ کے کھا رہا ہے، کوئی طاقت کے بل پہ
کھا رہا ہے، کوئی چھین کے کھا رہا ہے، مطلب سب عام عوام جب لوٹ رہے ہیں،
کھا رہے ہیں تو حکومت وقت پہ اتنا شور کیوں.
ہماری اپنی عام زندگی میں ہی اتنی کرپشن ہے کہ اب ہم کو محسوس ہی نہیں
ہوتی، کم از کم مجھے تو اپنی پوری زندگی میں کوئی بھی ایسا عام آدمی نہیں
ملا جو یہ که سکے کہ اس نے کسی سرکاری دفتر میں جا کر بنا رشوت دئیے اپنا
کوئی مسلہ حل کروایا ہو.
یہاں ایک مزے کا واقعہ یاد آیا رمضان کے دن تھے اور میں شام کو ٹھیلے والے
سے پھل خرید رہا تھا کہ اچانک وہاں دو پولیس والے آئے اور انہوں نے ٹھیلے
والے کی طرف ہاتھ بڑھایا، ٹھیلے والے نے ایک سیب ان کے ہاتھ پے رکھ دیا پھر
وہ خاموشی سے چلے گۓ، میں یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ صرف ایک
سیب... تو پھل والے نے کہا کہ اس علاقے میں بیس پچیس پھل والے ہیں یہ پولیس
والے ہر ٹھیلے پر جا کر فقط ایک پھل کا ہی تقاضا کرتے ہیں اور شام تک ان کے
پاس افطار کا پورا سامان جمع ہو جاتا ہے جو یہ اپنے بچوں کے لیے گھر لے
جاتے ہیں،
بات یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں حکومت وقت کو ہی الزام دیتے ہیں جب کہ ہر
محکمے میں ایک عام آدمی ایک عام پاکستانی ہی کام کرتا ہے جو دوسرے عام آدمی
کو کسی نہ کسی صورت دھوکہ دے رہا ہوتا ہے یا لوٹ رہا ہوتا ہے. جہاں جس کا
داؤ پیچ چل گیا وہاں وہ کامیاب.
اصل میں ہم ہی کرپٹ عوام ہیں جبھی تو کرپٹ حکمرانوں کو منتخب کرنے کا بائس
بنتے ہیں. یہاں یہ بات بہت افسوس کے ساتھ کہنی پڑ رہی ہے کہ ہم پاکستانی
عوام کرپشن کی دوڑ میں سب سے آگے بھاگ رہے ہیں، وہ کہتے ہیں نہ کہ کوئی
مقابلہ نہیں دور تک بلکہ بہت دور تک.
ضروری تو نہیں کہ کرپشن صرف ان ہی اداروں میں ہی ہو جہاں عام لوگوں کی
ضروریات زندگی کے معاملات کا لیں دیں ہوتا ہو، یہاں تو ہر آدمی اپنا الو
سیدھا کر رہا ہے، جو پکڑا گیا وہ چور اور جو نہیں پکڑا گیا وہ ساہوکار.
ہم اکثر اپنے گلی محلے میں کسی ہیروئن کے نشے کے عادی کو گٹر کا ڈھکن چرانے
پر مار پیٹ رہے ہوتے ہیں یا کبھی کسی سائیکل چور کی درگت بنا رہے ہوتے ہیں،
یہ وہ بیچارے لوگ ہوتے ہیں جن پہ ہمارا زور چلتا ہے، باقی ہر جگہہ ہم کبوتر
کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں.
اردو لغت میں کرپشن کے لفظی معنی بد عملی کے ہیں مگر ہم میں سے اکثریت اس
لفظ سے واقف نہیں ہیں جبھی تو ہم عام پاکستانی عوام بجلی کے تاروں پر کنڈا
ڈال کر رات بھر محفل میلاد کا پروگرام چلاتے ہیں، حرام کی کمائی سے قربانی
کا جانور خریدتے ہیں، سال بھر سود کھا کر آخر میں عمرہ ادا کرتے ہیں اور
کرپشن پر گالیاں حکومت وقت کو دیتے ہیں..... واہ رے پاکستانی |