ابو ظہبی کے شہزادہ محمد بن زائد انہیانی کی ہندوستان آمد
اور وزیر اعظم مودی کا پروٹوکال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ائیرپورٹ پر ان
کا استقبال کرنے اور جس طرح سے ایک مسلم شہزادہ کو گلے لگا کر استقبال کیا
ہے کہ وہ اگر اسی طرح ملک کے مسلمانوں کو بھی گلے لگائیں تو شاید مسلمانوں
کے اندر سے عدم تحفظ اور عدم اعتماد کے احساس کو کم کیا جا سکے ۔یہ بات اس
لئے ہو رہی ہے کہ ہندوستان کے بیس کروڑ مسلمانوں نے دیکھا ہے کہ جب کوئی
لیڈر یا کوئی سماج دشمن مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے تو اس پر
حکومتی سطح سے کوئی روک نہیں لگائی گئی ہے ۔ہاں ٹی وی وغیرہ پر تو بحث و
مباحثہ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن وہ بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتا
ہے ۔یہ تو سب جانتے ہیں کہ وزیر اعظم نے ہمیشہ سب کاساتھ اور سب کے وکاس کا
نعرہ دیا ہے اور وہ جگہ جگہ آج بھی بولتے ہیں کہ میرے نزدیک صرف ملک کی
ترقی اور بھائی چارہ کی اہمیت ہے لیکن جو کچھ آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے اس
پر لگام کیوں نہیں لگایا جاتا ہے ۔یہ سوال آج ہر اقلیت وزیر اعظم سے کر رہے
ہیں ،ملک میں دلتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا ہے اور جگہ جگہ اس
پر جو مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اس کے خلاف اگر وزیر اعظم زبان کھولیں
تو یقینا سماج میں اقلیت مخالف گروپوں پر لگام لگ سکتی ہے ۔قانونی کارروائی
تو ہوتی ہے لیکن اس کی اہمیت انفرادی ہوتی ہے اور پھر کوئی دوسرا واقعہ
رونما ہوجاتا ہے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ آج جب اقلیتوں میں خوف و
ہراس کا ماحول ہے اس کے اعتماد کو جگہ جگہ ٹھیس پہنچائی جا رہی ہے اسے بحال
کیا جائے اور یہ کام وزیر اعظم کو ہی کرنا ہوگا۔آج اقلیتوں کی نگاہیں وزیر
اعظم کی جانب مرکوز ہیں کہ وہ ہمارے اوپر ہو رہے ظلم کو کب اور کس طرح
روکنے میں کامیاب ہوتے ہیں اس لئے اس جانب توجہ دینا بہت ضروری ہے۔بطور خاص
مسلمان یہ دیکھتا ہے کہ ہمارا وزیر اعظم اسلامی ممالک کے سربراہوں سے ملنے
میں اور ان سے تعلقات بحال کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں یہ بھی
خوش آئند قدم ہے لیکن یہی حسرت ملک کے اندر رہ رہے بیس کروڑ مسلمانوں کی
بھی ہے کہ وہ وقت کب آئے گا جب وزیر اعظم اپنی زبان سے ہی مسلمانوں کو گلے
لگانے کا کام کریں گے۔دیکھا تو یہ جارہا ہے کہ مسلمانوں کے ایک بڑے طقے کو
نظر انداز کر کے کچھ طبقے کو گلے لگایا جا رہا ہے جس سے مسلمانوں اور بے
چینی پائی جا رہی ہے کہ کہیں یہ دانستہ یا غیر دانستہ تو نہیں ہے جس کی
پردا داری کچھ اور ہو یعنی مسلکی اختلاف کو ہدا دینے کی کوشش تو نہیں ہو
رہی ہے ۔جسٹس راجیندر سچر کا بیان بھی آج کے اخبارات میں آیا ہے کہ جس میں
انہوں نے کہا کہ مودی حکومت مسلمانوں کے تحفظ اور ترقی میں ناکام ہے ۔یہ
اور اس طرح کی بہت سی باتیں ملک میں گردش کر رہی ہیں کہ ملک میں مسلمانوں
کا تحفظ داؤ پر لگا ہوا ہے جس کی مثالیں مل چکی ہیں ۔کوئی بھی کہیں بھی کسی
بھی وقت قانون کو ہاتھ میں لیکر مسلمانوں کے خلاف صف ارا ہے اور حکومت اس
پر کچھ بولنے کو تیار نہیں ہے آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے جبکہ وزیر اعظم نے
اپنی زبان سے اب تک اس کی نہ تو تائید کی ہے اور نہ ستائش تو یہ سب کس کے
ایماں پر ہو رہا ہے اور ملک کو کون انارکی کی جانب لے جارہا ہے ۔کس کی
ایماں پر حکومت خاموش ہے یہ بات تو سامنے آنی چاہئے کہ آخر ملک کا مستقبل
کیا ہے اور اس ملک میں مسلمانوں کے لئے کیا لائحہ عمل تیار کیا جا رہا
ہے۔وزیر اعظم نرنیدر مودی جی کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
بہر کیف عرب امارات کے شہزادے کا یہ دورہ ملک کے عوام کے لئے کتنا فائدہ
مند ہوگایہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن عوام میں ایک امید ضرور ہے کہ
دیگر ممالک تو کچھ ہچکچاہٹ محسوس کر رہے ہیں ہندوستان میں سرمایاکار ی کرنے
سے لیکن اسلامی ممالک کا رجحان کچھ الگ ہوگا۔چونکہ مسلم ممالک میں ہندوستان
کے بہت سے عوام کام کرنے جاتے ہیں جس کا انہیں اعتراف بھی ہے اور ملک کو
بھی اس لئے یہ امید جتائی جا رہی ہے کہ مسلم ممالک ضرور ہندوستان میں
سرمایا کاری کریں گے۔یقینا یہ دورہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ دے
گا۔ متحدہ عرب امارات اور ہندوستان کے درمیان رشتہ بہت پرانا ہے ۔ سب سے
پہلے آنجہانی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے وہاں کا دورہ کیا تھا جس کے بعد سے
مسلسل دونوں ممالک کے درمیا رشتہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے بھی
اگست میں وہاں کا دورہ کیا تھا اور رشتوں کو اور مضبوط کرنے میں اہم کردار
ادا کیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط اور ہموار رشتہ کے لئے عوام کا
بھی بڑا اہم کردار ہے جو وہاں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
|