بادشاہ اور مداری
(aamer malik, Rawalpindi)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی ملک کے ایک وزیر
کا گزر ایک شہر سے ہوا، وہاں اس نے لوگوں کا ایک مجمع دیکھا، یہ جاننے کے
لئے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے، وزیر بھی راستہ بناتا وہاں تک پہنچ گیا۔ وہاں
اس نے ایک شخص کو کرتب کرتے دیکھا۔ ا س شخص کے ہاتھ میں ایک سوئی تھی اور
بالکل اسی طرح کی ایک اور سوئی اس سے کافی دور زمین میں گڑھی ہوئی تھی کہ
غور سے دیکھنے پر ہی وہ سوئی نظر آتی تھی۔ مداری نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی
سوئی سے زمین میں گڑھی ہوئی سوئی کا نشانہ باندھا اور سوئی ہوا میں اچھال
دی۔ اس کے ہاتھ سے نکلی ہوئی سوئی زمین میں گڑھی ہوئی سوئی کے ٹھیک نکے (وہ
جگہ جہاں سوئی میں دھاگہ ڈالا جاتا ہے)میں جا کے پیوست ہو گئی۔ اس کے نشانے
کا کمال دیکھ کر تمام لوگ اس کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور پورا شہر
تالیوں کے شورسے گونج اٹھا، ہر شخص نے اس کے فن کی تعریف کی۔ و زیر بھی اس
کے فن سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس نے سوچا کہ بادشاہ کو بھی یہ
کمال ضرور دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ وہ مداری کو اپنے ساتھ لے کر بادشاہ کی
خدمت میں حاضر ہوا اور بادشاہ کو اس شخص کے بارے میں بتایا۔ بادشاہ نے
فوراً دربار لگانے اور مداری کو کمال دکھانے کا حکم دیا۔ تھوڑی دیر میں
تمام تیاریاں مکمل کر لی گئیں، دربار تمام وزیروں سے بھر گیا اور عام شہری
بھی اس تماشے کو دیکھنے وہاں پہنچ گئے۔ مداری نے سوئی والا کرتب دہرایا،
ایک سوئی سے نشانہ باندھا اور دوسری سوئی کے نکے میں سوئی گاڑھ دی۔ بادشاہ
سمیت سارا درباراس کے فن کے کمال کو دیکھ کر حیران ہو گیا اور اس کی خوب
حوصلہ افزائی کی۔ جب تماشہ ختم ہوا تو بادشاہ نے مداری کو اپنے پاس بلایا
اور اس کو بیش قیمت انعامات سے نوازا، مداری بہت خوش ہوا۔ لیکن اس کے بعد
بادشاہ نے جلاد کو بلایا اور اس کو حکم دیا کہ اس مداری کے دونوں ہاتھ کاٹ
دو۔ یہ حکم سن کر تو سب پہ جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ سب لوگ حیران و پریشان
بادشاہ کو دیکھ رہے تھے پھر بالآخر وزیر نے ہمت کر کے بادشاہ سے پوچھا کہ
عالی جاہ!آپ اس شخص کے ہاتھ کیوں قلم کروانا چاہتے ہیں، حالانکہ اس کے ہنر
کا کمال تو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور سراہا۔ تو بادشاہ نے جواب دیا
کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شخص نے جو دکھایا وہ واقعی لاجواب تھا اس لئے
تو ہم نے اسے انعامات سے نوازا، لیکن بات یہ ہے کہ اس شخص نے اپنی ساری
زندگی میں بس یہی کچھ سیکھا کہ سوئی میں سوئی کیسے گاڑھنی ہے!!! اگر ساری
قوم اس سے متاثر ہو کر یہی کچھ کرنے لگ گئی تو سوچو کہ ہمارے ملک کا مستقبل
کیا ہو گا۔ ہر شہر میں، ہر گاؤں میں بلکہ ہر گھر میں لوگ سوئیاں لے کر
نشانہ بازی کی مشق کرتے نظر آئیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسے تمام کاموں
کی حوصلہ شکنی کی جائے جن کا کوئی فائدہ نہ ہو اور جن کو سیکھنا وقت کو
ضائع کرنے کے برابر ہو۔ کیسا انوکھا فیصلہ تھا، بادشاہ سلامت کا، لیکن یہ
فیصلہ صرف اور صرف وہی کر سکتا ہے جس کو وقت کی قدر ہو، جووقت کی اہمیت کو
سمجھتا اور جانتا ہو۔ لیکن جن بادشاہوں کا کام ہی وقت کو دھکا دینا ہو، وقت
کا گزارنا ہو، وہ تو خود مداریوں کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں، ویسے مداریوں کی
کوئی کمی تو نہیں لیکن پھر بھی اگر ان کو کوئی مداری نہ ملے تو وہ خود ہی
مداری بن جاتے ہیں۔ جگہ جگہ تماشا کرتے ہیں، سوئی کو سوئی کے نکے میں
گاڑھنے جیسے فضول کاموں پر اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ جس دور
کا یہ واقعہ ہے اس دور میں چونکہ میڈیا موجود نہیں تھا اس لئے بہت سارے
ایسے لوگ جو اس وقت وہاں موجود نہیں ہوتے تھے وہ اپنا وقت ضائعہونے سے بچا
لیتے تھے، لیکن آج کل کے دور میں تو آپ کو تماشا دیکھنے کے لئے تماشاہ گاہ
میں جانا ضروری نہیں بلکہ اب تو میڈیا کے ذریعے تماشا خود چل کر آپ کے پاس
آپ کے گھر تک آ جاتا ہے۔ آپ گھر بیٹھے تماشے کا حصہ بن سکتے ہیں، تماشا
شروع ہونے سے پہلے اور بعد کے تمام مناظر سارا دن اپنی ٹی وی پر دیکھ سکتے
ہیں اور یوں سارا ملک ہی تماشے کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور یوں ساری قوم اپنا
قیمتی وقت اس تماشے کی نظر کر دیتی ہے۔ اس سارے کھیل میں نہ تماشا دکھانے
والے کو ہوش ہے کہ وہ اپنا قیمتی وقت ضائع کر رہا ہے اور نہ ہی تماشا
دیکھنے والوں کو اپنے وقت کے ضائع ہونے کا احساس ہے۔ حالانکہ اس سارے وقت
میں پتا نہیں کتنے ایسے اہم اور ضروری کام ہیں جو کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن
چونکہ نہ ہی مداری کو اس سے بڑھ کر کوئی اور ضروری کام ہے اور نہ ہی تماشا
دیکھنے والوں کو اس سے بڑھ کر اور کوئی ضروری کام ہے۔ اس لئے دونوں وہاں
موجود ہیں۔ ایسے تماشے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں واقعی ہی کسی کو
کسی کام سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ان تماشوں سے نہ ہی تو کوئی بہتری آنی ہے
اور نہ ہی کسی کو کوئی فائدہ ہونا ہے، ہاں بس ایک کام ضرور ہونا ہے اور وہ
ہے وقت کا ضیاع۔ اور جب قومیں اپنا وقت خود ہی اپنے ہاتھوں سے ضائع کرنے لگ
جائیں تو پھر قوم کے مستقبل پہ سوالیہ نشان واضح ہو جاتے ہیں۔ مسائل کے
انبار لگتے جاتے ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کو درست کر لیں۔
وقت کا صحیح استعمال سیکھ لیں اور وقت کو ضائع ہونے سے بچا لیں۔ جتنا وقت
ہم جلسوں اور جلوسوں پر خرچ کرتے ہیں اتنی دیر اگر ہم کسی سکول میں ،
ہسپتال میں یا کسی سرکاری دفتر میں چلے جائیں، وہاں بیٹھ کراس محکمے کی
حالت زار کو دیکھیں اور لوگوں کو مہیا کی جانے والی خدمات کو بہتربنانے کے
لئے فوری فیصلے کریں تو کم از کم کچھ تو بہتری آ جائے گی، چلو کچھ تو ٹھیک
ہو جائے گا۔ لیکن یوں سوئی میں سوئی ٹھوکنے سے تو کچھ بھی نہیں ہو گا سوائے
وقت ضائع کرنے کے۔ جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، جمہوریت میں عوام
ہی اصل بادشاہ ہیں، وہ وقت دور نہیں کہ جب عوام بھی اس حقیقت سے مکمل طور
پر روشناس ہو جائیں گے اور اپنے لئے ان رہنماؤں کا انتخاب کریں گے جو ان کے
لئے کچھ اچھا کریں، کچھ اچھا سوچیں نہ کہ لایعنی باتوں میں ان کا وقت ضائع
کریں۔ اب عوام صرف ان نمائندوں کا انتخاب کریں گے جو ان کے بچوں کے مستقبل
کو محفوظ بنائیں، ان کو تعلیم کی اعلیٰ سہولیات فراہم کریں، قوم کو یکجا
کریں ، ایک صحت مند اور پر امن معاشرے کی تشکیل کریں اور ایک روشن مستقبل
کا راستہ دکھائیں۔ لیکن اگر ان کے منتخب کردہ رہنما ایسا نہیں کریں گے اور
لایعنی باتوں میں اپنا اور قوم کا وقت برباد کرتے رہیں گے تو یاد رکھیں آنے
والے الیکشن میں عوام بادشاہ بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو بادشاہ نے
اس مداری کے ساتھ کیا تھا۔ |
|