ارباب اختیار،سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا طرز عمل !

یہ بات کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے کہ دشمن قوتیں پاکستان کو کمزور سے کمزور پوزیشن میں لانے کے مذموم منصوبوں پر تیزی سے عمل پیرا ہیں۔پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے ہی ملکی دہشت گردی کے علاوہ افغانستان اور ہندوستان کی تخریبی کاروائیوں کا سامنا بھی ہے۔اگر افغان حکومت خود پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرانے میں ملوث نہیں تو بھی افغانستان کی سرزمین ہندوستان اور دوسرے ملکوں کی طرف سے پاکستان کے خلاف استعمال کی جا رہی ہے۔دوسری طرف امریکہ کی بھرپور مدد اور حمایت سے ہندوستان اپنی جارحانہ جنگی طاقت میں تیزی سے اضافہ کررہا ہے اور اس سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھارت کے حق میں جا رہا ہے۔اس صورتحال میں پاکستان کے لئے جنگی ہتھیاروں کی فراہمی مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتی نظر آتی ہے۔امریکہ کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان کی فوجی مدد کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جاتا رہا کہ یہ جنگی ہتھیار کسی طور بھی بھارت کے خلاف استعمال نہ ہو سکیں۔اب بھی پاکستان کی لئے جنگی ہتھیاروں کی فراہمی کی وجہ دہشت گردی کے خلاف جنگ بتایا جاتا ہے،ہندوستان کے پاکستان کے خلاف خطرناک عزائم کو وجہ نہیں بتایا جاتا۔امریکہ کی طرف سے چند ایف 16طیاروں کی فراہمی کے حوالے سے امریکہ کی طرف سے پاکستان کو طیاروں کی قیمت میں’’سبسڈی‘‘ کے بجائے پاکستان کو ان کی پوری قیمت ادا کرنے کو کہا جا رہا ہے۔پاکستان کے لئے ناگزیر ہو چلا ہے کہ اب امریکہ پر کلی انحصار کی پالیسی کو تبدیل کیا جائے ۔امریکہ اپنی یہ مستحکم پالیسی واضح کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کو کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث ہونے نہیں دے گا جو کسی طور بھی بھارت کے لئے خطرات کا موجب ہو۔کچھ ہی عرصہ قبل روس نے پاکستان کو ہر طرح کے جنگی ہتھیار فروخت کرنے کی پیشکش کی تھی،پاکستان کو اب روس کے ساتھ تعلقات میں اضافے پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں بلکہ اس بارے میں عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے،کیونکہ پاکستان کی سلامتی اور مفادات کے تحفظ کے لئے یہ ناگزیر ہو چلا ہے۔

اس خطرناک منظر نامے کے باوجود ملک کو ترقی اور استحکام کی راہ میں ڈالنے کے حوالے سے ایسے بڑے منصوبے بھی جاری ہیں جو پاکستان کی پائیدار ترقی کی اہم بنیاد ہو سکتے ہیں۔ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہوئے اسے کمزور سے کمزور تر کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور جنگی مذموم منصوبے ہی نہیں ،ملک کو بدترین سیاسی خلفشار میں مبتلاکرتے ہوئے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرکے، لاغر اور مجبور کرنے کی سازشیں بھی زور و شور سے جاری نظر آتی ہیں۔ملک کی کئی سیاسی جماعتیں ’’ چاہتے اور نا چاہتے ہوئے‘‘ ملک میں ایسے سیاسی انتشار میں آلہ کار بنتے نظر آ رہی ہیں ،جس کے نتائج ملک کے لئے مہلک ترین ہونے پر خود ان جماعتوں کو بھی اتفاق ہے۔سرکاری محکموں ،اداروں کی کارکردگی کی اصلاح بدستور’’شجر ممنوع‘‘ بنی نظر آتی ہے۔ملک میں سیاسی کلچر کو بدستور کرپٹ اور نااہل بنائے رکھے کے’’ انتظامات‘‘ بھی مکمل نظر آتے ہیں۔ملک میں عقل و شعور کو پابند رکھناملکی مفاد میں ضروری قرار دینا ہی غلط اور نقصاندہ پالیسیوں کے واضح ثبوت کے طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔پاکستان کی اسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں اپنے قبضے کو دائمی بنانے کے لئے مقبوضہ ریاست میں مسلم آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے لئے ایسے خطرناک منصوبوں پر عمل پیرا ہے جس کے نتائج کشمیر کی اکثریتی مسلم آباد کے لئے تو تباہ کن ہوں گے ہی لیکن ان نتائج کے عوامل پاکستان کے لئے بھی ناقابل برداشت مہلک صورتحال پر مبنی ہو سکتے ہیں۔یوں یہ تاریخی جملہ آج بھی ایک زندہ حقیقت کے طور پر درپیش ہے کہ ’’ اگر ہم نے کشمیر کو چھوڑ دیا تو کشمیرہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گا‘‘۔

اگر ملک کے تمام اہم ترین امور حکومت کے ہاتھوں میں ہیں تو اس کا محاسبہ کیوں نہیں؟ اگر یہ اہم ترین امور سول حکومت کے’’ دائرہ کار‘‘سے باہر ہیں تو اس پہ فریاد ،واویلا کیوں نہیں؟پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور ہمارا میڈیا پاکستان کو درپیش اس تمام صورتحال کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے ’’پانامہ لیکس‘‘ کی طرح کے ایسے امور میں محدود و مقید نظر آرہے ہیں۔سیاسی جماعتیں اور میڈیا عوام کو بہتری کی راہ دکھلاتی ہیں لیکن یہ دونوں ہی اپنی اس صلاحیت سے محروم ہوتے نظر آ تے ہیں۔مختصر طور پر یہی کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کو پاکستان کی قدر کرنا چاہئے،اسے اگر آباد و خوشحال کرنے کی صلاحیت نہیں تو اسے برباد کرتے ہوئے بدترین طرز انسانی کا مظاہرہ تو نہ کیا جائے!
 
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699506 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More