کیا یہی جمہوریت ہے؟

پاکستان میں جب بھی الیکشن کا وقت قریب آتا جاتا ہے تو سیاست دانوں کی نقل و حرکت ظاہر ہونے لگتی ہے۔ ہر طرف گہما گہمی پھیل جاتی ہے۔ عوام سے وعدے کیے جاتے ہیں۔ مخالفین پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں۔ امیدوار عوام کے قریب آنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ عین الیکشن کے وقت بے چارے عوام جھوٹے وعدوں اور دعووں میں آکر ایک مرتبہ پھر قربانی کے جانور بن کر چھری کے نیچے آجاتے ہیں اور اپنی حماقت کو حکومت کے خاتمے تک سہنے لگتے ہیں۔

2013 کے الیکشن کے بعد وطن عزیز میں کچھ عجیب سی کیفیت جاری ہے۔ حکمران اور حزب اختلاف مسلسل ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مصروف ہیں۔ یہ اس پر الزام لگاتا ہے۔ وہ اس کو گالیاں دیتا ہے۔ یہ اس کو ملک کا دشمن ثابت کرنے میں مصروف۔ وہ اس کو بیرونی ایجنٹ گردانتا ہے۔ الغرض نہ حکمرانوں کو عوام کی فلاح و بہبود کی فکر، نہ حزب اختلاف کو کوئی پرواہ۔ تین سال گزرنے کے باوجود وطن عزیز میں کوئی کوئی ترقی کے آثار نظر نہیں آرہے۔ حکمران زیادہ عرصہ بیرونی دوروں پر رہے جبکہ حزب اختلاف دھرنوں پر۔

گذشتہ دنوں وزیر اعظم پاکستان جناب میاں نواز شریف صاحب سوات کے دورے پر تشریف لائے۔ دورے کا مقصد دو سال قبل تعمیر ہونے والے کڈنی ہسپتال کا افتتاح کرنا تھا۔ دورے کے موقع پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرکے مختلف سکیموں کے وعدے کیے گئے جن میں سوات تک موٹر وے اور کالام تک دو رویہ موٹر وے طرز کا ہائی وے، شانگلہ میں یونیورسٹی سب کیمپس کا قیام اور دوسرے چند ایک منصوبے شامل تھے۔ وزیر اعظم صاحب نے سوات اور شانگلہ کے لیے بیس بیس کروڑ روپے کی ترقیاتی گرانٹ کی منظوری دی۔ اس کے علاوہ انہوں نے بار بار یہ بات کی کہ ہم سڑکیں بناتے رہیں گے اور لوگ سڑکوں پر آتے رہیں گے۔
اس کے ٹھیک دو دن بعدجناب عمران خان صاحب سوات تشریف لائے۔ انہوں نے خیبر پختونخواہ کی تبدیلی کے دعوے کیے۔ افسوس کے ماڈل کے طور پر پشاور کے علاوہ کوئی بھی نام ان کے زبان پر نہیں آیا۔ ان کے تقریر کا مین پوائنٹ نواز شریف کی برائیاں بیان کرنا تھا۔ ان کی گرفتاری اور آف شور کمپنیاں ہی ان کے موضوع رہے۔ عوامی چندوں پر بنے شوکت خاتم ہسپتال کو اپنا کارنامہ گردانتے گئے۔ تعلیمی اصلاحات اور ہسپتالوں کی اصلاح و ترقی کو اپنی تبدیلی سے تعبیر کیا۔

جناب نواز شریف اور عمران خان کے جلسوں کا حاصل سیاسی ہمدردی حاصل کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کڈنی ہسپتال کے لیے پیسے بیرونی امداد سے ملے۔ لنڈاکے تا کالام روڈ مشرف دور میں منظور ہوا جس کی فنڈنگ ایشین ڈولپمنٹ بینک کی طرف سے ہوگی۔ سوات یونیورسٹی قیام کے کئی سال گزرنے کے بعد بھی اپنی بلڈنگ سے محروم ہے۔ سڑکوں کی یہ حالت کی جہاں سے وزیر اعظم پاکستان نے گزرنا تھا وہی مرمت کر وائی گئی۔ 20 لاکھ آبادی والے ضلع میں محض 20کروڑ سے کیا ترقیاتی منصوبے بنائے جاسکتے ہیں، جبکہ ضلع طالبان اپریشن، سیلاب اور زلزلے سے تباہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح عمران خان کا نیا پختونخواہ سب کے سامنے ہے۔ جب تین سال میں ان سے تخت بھائی کا پل نہ بن سکا تو انہوں نے کچرا وفاقی حکومت پر ڈال کر اسے وفاق کا منصوبہ قرار دیا۔ سالہاسال نظر انداز ہونے کے بعد جب سوات میں حاجی بابا جامبیل روڈ کے لیے عوام نے اپنے مدد آپ کے تحت چندہ مہم شروع کردی تو پی ٹی آئی حکومت نے زبردستی چندہ مہم بند کروایا اور ایک ماہ میں روڈ کی تعمیر کا وعدہ کیا۔ تقریبا 8 ماہ گزرنے کے بعد بھی روڈ تعمیر نہ ہوسکا۔ تعلیمی اصلاحات کی مد میں سلیبس میں تبدیلیاں کرکے اسلامی تہذیب و تمدن اور صحابہ کے واقعات نکال کر مغربی طرز معاشرت شامل کر دیا گیا۔ ہسپتالوں کی حالت زار اب بھی یہی ہے کہ مریض کو لگانے کے لیے اکسیجن تو درکنار اسے پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں ہوتا۔

جن کاموں پر مرکزی حکمران اور صوبائی حکمران ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان سے کئی گنا زیادہ تو دوسرے جماعتوں نے کیا ہے۔ مشرف نے درگئی تا چکدرہ روڈ کی توسیع کی ہے۔ ایم ایم اے نے ملاکنڈ یونیورسٹی، سوات میڈیکل کالج سمیت سرکاری سکولوں میں فری بکس کا آغاز کیا۔ اسی طرح اے این پی اور پی پی پی بھی اپنے دور حکومت میں چند ایک کام کر چکی ہے۔ نون لیگ حکومت نے عوام کو مہنگائی، غربت،ٹیکسوں کے بوجھ اور بے روزگاری کے علاوہ کیا دیا؟ پی ٹی آئی نے فوری انصاف کا دعوی کیا۔ کہاں ہیں ان کے موبائل کورٹس۔ وی آئی پی کلچر کے خاتمے کا دعوہ کیالیکن سڑکوں پر پروٹوکول کے بغیر نظر نہیں آئے۔ تبدیلی کے نام پر ملک میں فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلانے کے علاوہ پی ٹی آئی کا کیا کارنامہ ہے؟

خدا را عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنا چھوڑ دے۔ آپ تو عوام کا خون چوس کر ان کے کمائی کے پیسوں پر جلسے منعقد کر واچند لمحوں کے لیے اپنا دل بھلا دیتے ہوں۔ لیکن کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ہمارے جلسے جلوسوں سے ملک و قوم اور غریب عوام کا کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ آپ کے وی آئی پروٹوکول کی وجہ سے مریض ہسپتال نہیں پہنچ پاتے اور راستے میں مر جاتے ہیں۔ آپ کے جلسوں کی وجہ سے طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ آپ کے جلسوں کی وجہ سے غریب کا چولہا بجھا رہتا ہے اور اس کے بچے بھوکے پیٹ سو جاتے ہیں۔ آپ کے جلسوں کی وجہ سے شہریوں کا کاروبار متاثر ہو جاتا ہے۔ایک جلسے کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کا عوام نقصان کراکے آپ لوگ کیا ثابت کر نا چاہتے ہیں؟ کیا یہی جمہوریت ہے۔ کیا اسی لیے آپ لوگوں کو منتخب کیا جاتا ہے؟ کہاں گئے عوام سے کیے گئے وعدے؟ کہاں گئے شہریوں کے حقوق؟ چند ہفتے پہلے کسٹم ایکٹ پر سیاست کرنے والے اس وقت کیوں بھول گئے؟

تاریخ گواہ ہے کہ جن حکمرانوں نے عیاشی میں وقت صرف کیا۔ ذاتی مفادات کو مقدم رکھا۔ عوام کو اپنا غلام سمجھا۔ وہ پورے دنیا کے لیے نشان عبرت بن چکے ہیں۔
 
Abid Ali Yousufzai
About the Author: Abid Ali Yousufzai Read More Articles by Abid Ali Yousufzai: 97 Articles with 83129 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.