پولیس فورس کو جدید بنانے کی خواہش

سندھ پولیس نے جرائم پیشہ افراد کی نگرانی کیلئے ڈرون ٹیکنالوجی حاصل کرلی ہے۔ چھ جدید ڈرون طیارے اور چارڈرون کیمروں سے جلوسوں کی نگرانی بھی کی جاسکے گی۔ ان ڈرونز کو چلانے کے لیے پولیس اہلکاروں کی تربیت کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ ابتدائی طور پر 23 اہلکاروں نے سیمولیٹرز پر چالیس گھنٹے کی ڈرون اڑانے کی خصوصی تربیت حاصل کی۔ ڈرون طیارہ آٹو پائلٹ پروگرام کے تحت ازخود بھی اڑان بھر سکتا ہے اور یہ فیڈ کئے جانیوالے مقامات پر از خود پہنچ کر عکس بندی بھی کرسکتا ہے۔ لاکھوں روپے مالیت کے یہ ڈرون آئندہ چند دنوں میں باقاعدہ پولیس کے حوالے کردیئے جائیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیس کو جدید بنا کر جرائم پر موثر طور پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اس سلسلے میں حکومت سندھ کا پولیس کے لیے جدید ہتھیار اور آلات کا حصول خوش آئند ہے۔ خاص طور پر کراچی جہاں گزشتہ کئی سال سے ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، لوٹ مار اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ موبائل چھیننے جیسے سٹریٹ کرائم تو معمول کی بات ہیں۔ جس طرح وہاں لاقانونیت کا دور دورہ ہے، اس کے مقابلے میں پولیس کی کارکردگی صفر بلکہ منفی درجوں تک پہنچ چکی ہے۔ پولیس کی ناکامی اور ہٹ دھرمی کے باعث ہی رینجرز کو وہاں نگرانی اور حفاظت کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

جدید ڈرون کہاں تک جرائم کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم پولیس کو جدید اسلحہ کے ساتھ ساتھ فرض شناسی اور اخلاقیات سے بھی آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر پولیس کا محکمہ بند کردیا جائے تو پچاس فیصد سے زیادہ جرائم خود بخود ختم ہوجائیں کیونکہ پولیس ہی جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کررہی ہوتی ہے۔ بہت سی وارداتوں میں پولیس اہلکار خود ملوث پائے گئے۔ جرائم پیشہ افراد پولیس سے رابطے میں رہ کر اپنے لوگوں کے تحفظ کو یقینی بناتے ہیں۔ پولیس گردی سے دہشت گرد تو خوفزدہ نہیں تاہم عام شہری ان سے بہت خوفزدہ ہیں۔کسی بھی واردات کے بعد جرائم پیشہ افراد پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے پولیس بہت سے بے قصور لوگوں کے نام پرچے میں ڈال دیتی ہے اور جتنے نام اس میں شامل ہوں اتنی ان کی جیب گرم ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ہماری پولیس بدعنوانی میں شہرت رکھنے کے ساتھ ساتھ سیاست زدہ بھی ہے۔ اس کی بڑی وجہ برسراقتدار پارٹیاں اپنے من پسند اور سفارشی افراد کو بھرتی کرتیں اور انہیں اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرتی ہیں۔ ترقی اور تنزلی کی لگامیں بھی سیاست دانوں کے پاس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس ملک و قوم سے زیادہ اپنے ان ’’آقاؤں‘‘ کی زیادہ وفادار ہے اور قانون کے یہ رکھوالے ان کی خاطر قانون کی دھجیاں بکھیرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔پولیس کی اس روش کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے انہیں جدید اسلحہ سے لیس کرنے سے ان کی ’’وفاداریاں‘‘ تبدیل نہیں کی جاسکتیں۔ اگر حکومت واقعی ملک میں سول قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال بنانا چاہتی ہے تو وہ سب سے پہلے ان اداروں سے سیاسی مداخلت کو ختم کرے، میرٹ کو سفارش پر ترجیح دے، پولیس کی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت کا اہتمام کرے، ان میں فرض سے لگن کا جذبہ پیدا کیا جائے، ترقی کارکردگی کی بنیاد پر کرے، تھانے کا روایتی کلچر ختم کرے۔جب وہ یہ منزلیں طے کرچکے تو تھانوں کو جدید بنائے، تفتیش کا طریقہ کار کو سائنسی بنانے کے ساتھ ساتھ وہ تمام سہولتیں فراہم کرے جس سے جرائم پیشہ افراد بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ورنہ اکیلے ڈرونز کچھ نہ کرسکیں گے۔

پولیس افسران کی اس حوالے سے بھی تربیت کی جائے کہ وہ اپنے جونیئر اہلکاروں کی صرف بازپرس نہ کریں بلکہ ان کا خیال بھی رکھیں۔ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ پولیس اہلکار اپنی مدد آپ کے تحت تعیناتی کے مقام پر جارہے ہوتے ہیں۔ واپسی پر بھی انہیں خجل خراب ہونا پڑتا ہے۔ اس سے پولیس اہلکاروں میں مایوسی بڑھتی ہے۔ اس حوالے سے پاک فوج کی مثال سب کے سامنے ہے۔ افواج پاکستان کی ذمہ داریاں انتہائی اہم اور پولیس کی نسبت بہت حساس اور لامتناہی ہیں۔ پورے ملک کی حفاظت ان کے ذمہ ہے۔ اندرونی و بیرونی نامساعد حالات میں اس کے چوکس افسر اور جوان پل بھر میں متحرک ہوجاتے ہیں۔ ان کا کردار اور فرض سے لگن کے جذبے کو قوم سراہتی ہے۔ اس نے خود کو جدید خطوط پراستوار کررکھا ہے اوران کی اسی تیاری، جذبے اور جدت کی وجہ سے دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرسکتی۔ پاک فوج کے افسر اپنے جوانوں کی خاص خیال رکھتے ہیں۔ انہیں گاڑیاں مقام ڈیوٹی پر پہنچاتی اور انہیں واپس لے کر آتی ہیں۔ ان کی خوراک اور آرام کا خاص خیال بھی رکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت امتحان ہم دیکھتے ہیں کہ پاک فوج کے افسر اور جوان بڑی دیدہ دلیری سے کسی بھی کڑے امتحان میں قوم کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں۔ جہاں وہ اپنے فرض کی تکمیل پر خود مطمئن ہوتے ہیں وہاں پوری قوم بھی انہیں آنکھوں پر بٹھاتی ہے۔

افواج پاکستان کی طرح اگر پولیس کو بھی جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور ان کردارسازی کی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی جرائم کا گراف نیچے آجائے۔ پولیس کی ذمہ داری اس حوالے سے بھی اہم ہے کہ اس کا تعلق براہ راست عوام سے ہے۔ عوام کے ساتھ حسن سلوک سے وہ اپنی ساکھ کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے وہ دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کا عفریت ہماری جڑوں میں سراعت کرچکا ہے۔ افواج پاکستان اس وقت وہ واحد قوت ہے جو دہشت گردوں کے خلاف ڈٹی ہوئی ہیں۔ اگر پولیس جدید خطوط پر استوار ہو اوراس کے اہلکار سیاست سے بالاتر ہوکر ملک اور عوام کی خدمت کو ترجیح دیں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان اندرونی طور پر مستحکم ہوکر ترقی کی منزلیں طے کرسکے گااور افواج پاکستان کی طرح پولیس کو بھی عوام اپنی پلکوں پر بٹھائیں گے۔ پولیس بھی ایک موثر فورس کے طور پر کسی بھی ہنگامی صورتحال پر قابو پانے کے قابل ہوسکے گی۔ یہ خواہش ایک خواب سی ہے ، اسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے نظام اور ذہنیت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی ضرورت ہے لیکن اگر ہم نے اپنی ذہنیت میں تبدیلی پیدا نہ کی تو اک دن لاقانونیت ، ناانصافی اور افراتفری کے عفریت بے قابو ہوکر ہماری گردنیں دبوچ لیں گے اور پولیس کا کوئی ڈرون ہماری مدد کو نہ آسکے گا۔
 
ibn-e-shamsi
About the Author: ibn-e-shamsi Read More Articles by ibn-e-shamsi: 55 Articles with 38861 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.