ویسے تو ملک پاکستان کا باوا آدم اس
لحاظ سے نرالا ہے کہ یہاں سب پتہ ہونے کے باوجود کہ یہ چور ہیں یہ لٹیرے
اور کرپٹ ہیں مگر ووٹ پھر بھی انہی کو ملتا ہے،اﷲ کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا
کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا مگر یہاں ایک نہیں کئی کئی
بار ڈنگ مارے اور کھائے جا رہے ہیں تو کیا مطلب ہے پھر اسکا کیا اﷲ کے آخری
رسولﷺ کا فرمان غلط ہے نعوذ باﷲ جو کہ غلط ہو ہی نہیں سکتا کہ نبوت تو بعد
کی بات ہے لوگ نبوت سے پہلے بھی ان کی سچائی اور دیانت و امانت کی قسمیں
کھاتے تھے یہ بات صحیح ہے اور ہمیشہ رہے گی تو پھر معاملہ کیا ہے کیا یہ ہی
نہیں کہ یہ فرمان مومنین کے بارے میں ہے تو کیا پھر ہم؟؟؟ اس سے آگے اگر
میں وضاحت نہ ہی کر وں تو بہتر ہے،زیادہ قصور مگر عوام کا بھی نہیں کہ
دستیاب سودا سارے کا سارا ایک جیسا ہی ہے مگر کسی حد تک استثناء( واضح رہے
کہ میں نے کسی حد تک لکھا ہے ) اگر کسی جماعت کو حاصل ہے تو وہ جماعت
اسلامی ہے،مانا کہ جماعت اسلامی میں اب نہ اس طرح مولانا مودودی کی فکر ہے
جو کبھی ان کا خاصہ ہوتی تھی نہ قاضی حسین احمد جیسا طنطنہ و بانکپن ،نہ
لشکر اسلام جیسی سٹریٹ پاور اور نہ ہی کردار و عظمت کی بلندیوں پر رخت سفر
وہ لوگ کہ جن کا نام سن کے ہی حکمرانوں کی سٹی گم ہو جایا کرتی تھی، کبھی
یہ طفیل محمد اور پروفیسر غفور احمد جیسے کوہ گراں اپنے اندر رکھتی تھی اور
آج،،،کبھی ان کے پاس وہ جماعت تھی حلم اور برد باری جس کا خاصہ تھا آج ان
کے پاس جمیعت طلبہ ہے جوبولتی بعد میں اور مرنے مارنے کو تیار پہلے ہوتی ہے
مگر جو کچھ بچا کچھا ہے وہ اپنے ہاں موجود مال سے بدرجہا بہتر ہے،اب بھی اس
دور میں بھی ان میں کوئی ایسا نہیں جو پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر جماعت
پہ سوار ہویا کسی ایسے عہدے پر ہی براجمان ہو،جماعت اسلامی اس وقت ملک کی
اس لحاظ سے وہ واحد جماعت ہے جس میں ہر قسم کا پارٹی عہدہ مکمل طور پر
منتخب شدہ فرد یا افراد کو دیا جاتا ہے اس میں باقاعدہ ایک الیکشن کا نظام
ہے جس میں بڑے سے بڑا اور ادنیٰ سے ادنیٰ فرد بھی حصہ لے سکتا ہے،نہ صرف
حصہ لے سکتا ہے بلکہ اگر ووٹ لے لے تو اسے کھلے دل سے اپنا امیر تسلیم بھی
صرف اسی جماعت میں کیا جاتا ہے یہ دیکھے بغیر کے اس کا تعلق کس خاندان سے
ہے یا اس کا فیملی بیک گراؤنڈ کیا اور کیسا ہے اس کے ہاں دولت کی ریل پیل
ہے یا یہ ایک عام غریب شخص ہے اس سے جماعت کے لوگوں کو کوئی سروکار نہیں
اور جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں اس جماعت میں ذات پات اور کمی کمین کی
بھی کسی فرسودہ روایت کا نام ونشان تک نہیں یہاں آنے والے ہر شخص کے لیے
محض دو شرطوں پہ پورا اترنا ضروری ہے جن میں پہلے انسان اور پھر مسلمان
ہونا ہے اس کے علاوہ یہاں نہ سرمایہ چاہیے نہ کوئی بڑا خاندانی بیک
گراؤنڈ،مگر اس سب کے باوجود کوئی بھی غیر جانبدار تجزیہ کار جماعت کو کلین
چٹ نہیں دے سکتا ایل ایف او سمیت متعدد ڈکٹیٹروں کے ساتھ جماعت کی کسی نہ
کسی حد تک وابستگی کے علاوہ بھی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی وجہ سے سب
سے دیانتدار قیادت اور حلقہ احباب رکھنے کے باوجود عام پاکستانی ووٹ دینے
سے ہچکچاتا ہے،کیوں؟اس پہ جماعت کے سنجیدہ فکر لوگوں کو ضرو ر غور کرنا
چاہیے،ہم وجوہات بیان کریں گے تو بہت سے آبگینوں کو شاید ٹھیس پہنچے سو
ہمارا اس سے احتراز ہی بہتر ہے،جماعت کی سیاست عموماً پاکستانی عوام کی
سمجھ سے بالا ہی رہتی ہے مگر آج کل جماعت جس نکتے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے
وہ یقیناً ہر پاکستانی کے دل کی آواز ہے،اور وہ ہے کرپشن کے خلاف جدوجہد ،جماعت
اسلامی کی اس مہم کے شروع ہوتے ہی ان کو غائبانہ مدد پانامہ لیکس کی شکل
میں قدرت نے مہیا کر دی،پانامہ لیکس کا اس وقت جتنا شور اور غلغلہ مچا ہوا
ہے اس لحاظ سے اس وقت یہ ملک کا سب سے بڑا ایشو ہے اور اگر یہ لیکس اور ان
کے ذریعے سامنے آنے والی کرپشن ایک حقیقت ہے تو اس سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے
کہ تاحال عام آدمی نہ ان لیکس کو سمجھ سکا ہے اور نہ ہی اسے کسی حکومتی یا
اپوزیشنز کے ٹی او آرز کی ہی سمجھ بوجھ ہے،جماعت اگر کرپشن کے خلاف علم لے
کر چلی ہے تو اسے یہ مہم پٹواری اور پولیس سے اسٹارٹ کرنی چاہیے اس کے لیے
باقاعدہ ہوم ورک مکمل کیا جائے،لوگوں کو کوئی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جس
پہ و ہ اپنی شکایت درج کرائیں اور اگر ممکن ہو تو شکایت کنندہ کے تحفظ اور
اس کے معاملات کی بھی ذمہ داری اٹھائی جائے عام آدمی میں اس کے اپنے حقوق
اور ان کی وصولیابی کا شعور اجاگر کیا جائے ،وکلا،سول سوسائٹی کے مخیر
حضرات،صحافیوں ،دانشوروں اور معاشرے کے دیگر اہم طبقوں سے روابط بڑھائے
جائیں،کرپٹ عناصر کو خالی بے نقاب نہ کیا جائے بلکہ ان کو کیفر کردار تک
پہنچانے کا مکمل اہتمام کیا جائے اس کے لیے جماعت اسلامی کو سخت محنت کرنا
پڑے گی،وہ اپنا کام ایک سمت سے شروع کرے ایک وقت میں کسی ایک محاذ پہ اپنی
ساری توجہ فوکس کرے اور کرپٹ عناصر کو عام افراد کے خلاف مل کر نہ صرف
میڈیا کے ذریعے قوم کے سامنے لائے بلکہ ان کے احتساب کے لیے حکومت کو مجبور
کرے جس کے لیے عدالتوں کا سہار لیا جا سکتا ہے، ویسے تو عام آدمی اس وقت
تقریباً ہر ہی سرکاری محکمے سے نکو نک ہے مگر واپڈا،پولیس،پٹواری و محکمہ
مال کے اعلیٰ حکام،بلدیہ کے اہلکار،سوئی گیس و ٹیلی فون کے محکموں نے
معاشرے کے چھوٹے طبقے کا خصوصاً جینا حرام کر رکھا ہے،ان کے خلاف شکایت کا
کوئی باقاعدہ کاؤنٹر قائم کیا جا سکتا ہے ،جس پر کوئی بھی شکایت آنے کے بعد
باقاعدہ میڈیا کو ساتھ رکھ کے متعلقہ محکمے سے باز پرس کی جا سکتی ہے،خالی
ریلیاں نکالنے اور رکشوں پہ بینرز لگا دینے سے کم از کم اپنے ملک میں کرپشن
نہیں رکنے والی یہ عمل بھی صائب ضرور مگریہاں عملی طور پر کچھ بلکہ بہت کچھ
کرنے کی ضرورت ہے،جماعت اسلامی کو عرض کی گئی گذارشات کے علاوہ کرپشن اور
کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کے لیے اپنے ہاں بھی چائنہ کی طرح موئثر قانون سازی
کے لیے بھی عملی جد و جہد کرنا پڑے گی،اگر جماعت اسلامی اپنی اس مہم میں
کامیاب ہو جاتی ہے اور حکمرانوں سے ذرا فاصلہ رکھنے میں استقامت کا مظاہر ہ
کر سکتی ہے تو یقین کریں عوام خود بخود ان کی طرف راغب ہو جائیں گے انہیں
کسی لمبے چوڑے تردد کی ضرورت نہیں پڑے گی،پاکستانی عوام اب کسی پہ یوں
آسانی سے اعتبار کرنے کو ہر گز تیار نہیں کیوں کہ یہاں سلطانی تو عیاری تھی
درویشی بھی بہت بڑا بہروپ اور عیاری میں کسی سے کم نہیں،جماعت اسلامی نے
ایک خالصتاً عوامی مفاد کے معاملے کو مد نظر رکھ کہ اس کام کا بیڑا اٹھایا
ہے دعا ہے اﷲ انہیں اس مقصد میں کامیاب کرے اور ان کا حامی و ناصر ہو۔ |