ہر سال بجٹ پیش ہوتا ہے۔اعلانات اور وعدے
ہوتے ہیں۔لیکن عوام کے حالات میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی۔جناب اسحاق ڈار
صاحب اب3۔جون کی شام کو پھر بے شمار اعدادوشمار کا اعلان کریں گے۔پہلے 2سال
کے بجٹ اعلان کے وقت وہ بتایا کرتے تھے کہ2سال مشکل ہونگے لیکن اب تک
تو3سال گزر چکے ہیں اور جناب ڈارصاحب چوتھے سال کے میزانیے کے بارے گفتگو
کریں گے۔لوگوں کا نئے بجٹ سے توقعات باندھنا قدرتی بات ہے۔چند دن پہلے
انہوں نےPre-Budgetسیمنار سے گفتگو کرتے ہوئے2باتوں کا خصوصی ذکر کیا
تھا۔پہلی اہم بات تو ریاست پاکستان کے زرمبادلہ کے بارے تھی۔مجموعی
زرمبادلہ کے ذخائر اب21۔ارب ڈالر سے بھی زیادہ بتائے جاتے ہیں۔دوسری
خوشخبری انہوں نے قوم کو یہ سنائی کہ موجودہ سال میں وصولیاں3100۔ارب روپے
ہوچکی ہیں یہ1946ارب سے56فیصد بڑھ چکی ہیں۔اگر یہ واقعی درست ہیں تو
یہFBRکی واقعی کارکردگی ہے۔میں نے واقعی کا لفظ اس لئے لکھا کہ اسی سیمنار
میں موجود ایک ماہر نے انکے منہ پر یہ کہہ دیا تھا کہ یہ اعدادوشمار درست
نہیں ہیں۔مرکزی حکومت کے شائع کردہ اعدادوشمار پر اکثر مبالغہ آمیزی کا
الزام لگتا رہتا ہے۔اگر وصولیوں کے یہ اعدادوشمار درست ہیں۔تو پھر تو میری
حکومت سے درخواست ہوگی کہ وصولیوں کے بڑے حصے کو اس دفعہ سماجی شعبہ کے لئے
مختص کردیاجائے۔سماجی شعبے کے اکثر کاموں کی ذمہ داری اب صوبوں کو منتقل
ہوگئی ہے۔لہذا یہ فالتو وصولیاں صوبوں کومنتقل کردی جائیں اور انہیں پابند
کیاجائے کہ وہ اپنے اور مرکزی حکومت سے وصول کردہ وسائل کو صرف اور
صرف3۔شعبوں پر ذمہ داری سے صرف کرے۔جیساکہ ہم سب جانتے ہیں سب سے اہم شعبہ
تعلیم ہے۔تعلیم کی ذمہ داری4سال پہلے تقریباً مکمل طورپر صوبوں کو منتقل
کردی گئی تھی۔مرکز کے پاس برئے نام تعداد میں تعلیمی ادارے ہیں۔صوبوں کے
پاس پرائمری سکولوں سے لیکر یونیورسٹیوں سطح تک کے ہزاروں تعلیمی ادارے
ہیں۔یہ ادارے دہائیوں سے بچوں کو تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔لیکن پاکستان کی
خواندگی کی شرح بڑھنے میں نہیں آرہی۔میں جب کالج میں پڑھاتاتھا تب بھی بچوں
کو خواندگی کی شرح58۔فیصد بتایا کرتاتھا۔11سال بعد یہ اب بھی تقریباً وہیں
پر کھڑی ہے۔آج کے پریس میں ایک صاحب کا یہ ذمہ دارانہ بیان ہے کہ خواندگی
کی شرح پچھلے چند سالوں میں کم ہوگئی ہے۔یہ افسوس کا مقام ہے۔پنجاب میں
گزشتہ دورمیں تو تعلیم کی طرف توجہ زیادہ تھی لیکن اس دوسرے دورمیں تو صرف
اشتہارات میں تعلیم کی بات ہوتی ہے۔"پڑھو پنجاب اور بڑھو پنجاب"کے اشتہارات
کی بجائے دور ونزدیک کے سکولوں اور کالجوں کا معیار اونچا کرنا انتہائی
ضروری ہے۔سکولوں میں سہولیات ہونگی توبچوں کا دل سکولوں میں لگے گا۔یہ
واقعی سچی باتیں ہیں کہ پورے ملک میں اب بھی بہت سے سکولز بغیر چھت کے کام
کررہے ہیں۔کہیں درختوں کا سایہ میسر ہوتا ہے اور کہیں نہیں بھی۔بجلی ،پنکھے
اور پینے کا صاف پانی تقریباً نصف سکولوں میں نہیں ہے۔سندھ اور بلوچستان کے
حالات تو سب سے برے ہیں۔قدیم زمانے میں بنی ہوئی عمارتوں پر وڈیروں نے قبضے
کرکے وہاں انہوں نے اپنے جانور باندھ دیئے ہیں۔یا اپنے گودام بنا لئے
ہیں۔سندھ کے دور دراز علاقوں میں گھوسٹ سکول ومدارس ہیں۔گھوسٹ مدارس کی
رپورٹ میں ابھی1200مدارس کا ذکر ہوا ہے۔یہ دین کے نام پر ڈاکہ ڈالا جارہا
ہے۔بلڈنگوں کے ساتھ سکولوں میں لائبریریوں اور لیبارٹریوں کامکمل ہونا
ضروری ہے۔اور علم مخلصانہ انداز سے منتقل کرنے والے اساتذہ توبنیاد کی
اہمیت رکھتے ہیں۔غرضیکہ تعلیم کا شعبہ بہت زیادہ توجہ مانگتا ہے۔صوبائی
حکومتوں کو چاہیئے کہ اپنے بجٹ کے وسائل اور مرکز سے ملنے والے وسائل کا
بڑا حصہ تعلیم پر صرف کرے۔یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ70سال کے بعد ہمارے تعلیمی
ادارے"تخلیقی"نہیں بن سکے۔ سکول سے لیکر یونیورسٹی تک ڈگریاں اور سرٹیفکیٹس
تقسیم ہورہے ہیں۔چند دن پہلے 100 اور پھر500یونیورسٹیوں کی عالمی
Rankingشائع ہوئی۔ہمارے کسی بھی ادارے کا نام اس میں نہ تھا۔یہ بات تو پڑھے
لوگ جانتے ہی ہیں کہ دنیا میں صرف ان قوموں کا اعتبار ہوتا ہے جو تحقیق اور
تخلیق میں امام ہوتے ہیں۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیش رفت کرتے رہتے
ہیں۔صوبائی حکومتوں کو اپنے صوبوں میں قائم یونیورسٹیوں اور کالجوں کو
تحقیق و تخلیق کے حامل ادارے بنانے چاہیئے۔اس کے لئے فنڈز کے منہ کھول دیئے
جائیں۔یونیورسٹیوں اور کالجوں کے سربراہ بھی ایسے ہی ذوق و شوق کے حامل
حضرات متعین کئے جائیں۔مرکز کو اپنے ماتحت HECکی طرف توجہ دینی چاہیئے۔کبھی
کبھی محترم جناب نواز شریف کو سڑکوں اورموٹرویز کی افتتحاحی تقریبات کے
ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کا بھی Visitکرنا چاہیئے۔تصور کیجئے کہ اگر وہ کسی
یونیورسٹی کی تجربہ گاہ میں اچانک پہنچ جائیں اور چیک کریں کہ وہاں تجربات
کا معیار کیا ہے۔اساتذہ کا لیکچر اچانک سننے کے بڑے عجیب نتائج محسوس
ہونگے۔اور ان 2۔کروڑ بچوں کا بھی کچھ ہونا چاہیئے جو سرے سے سکولوں میں گئے
ہیں نہیں۔میں چاہتا ہوں کہ موجودہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے بجٹ کو
تعلیمی بجٹ کہاجائے۔دوسرا شعبہ سب ہی جانتے ہیں کہ صحت ہے۔سرکاری ہسپتال
چاہے مرکز کے تحت ہوں(جو صرف چند ہی ہیں) یا صوبائی حکومتوں کے تحت ہرجگہ
برے حالات ہیں۔اور پرائیویٹ کلینکس میں تو غریب مریض جانے کا تصور بھی نہیں
کرسکتے۔کیا اکیلے شہباز شریف،پرویز خٹک،قائم علی شاہ اور نواب زہری ہر
ہسپتال کوخود جاکر دیکھ سکتے ہیں۔مسٔلہCheck and Balancesکے نظام کو قائم
کرنا ہے۔شہروں میں بہت سے نئے سرکاری ہسپتالوں کا قیام ضروری ہے۔میرے سامنے
تو لاہور کے سرکاری ہسپتال ہیں۔جہاں کے سسٹم کو دیکھ کر پاکستانی قوم کے
ڈسپلن کا اندازہ ہوتا ہے۔ان سرکاری ہسپتالوں کے بالکل سامنے باہر میڈیکل
سٹوروں کی لمبی لائنیں ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سرکاری ہسپتال ان
فارمیسیوں کے لئے بنے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر کی لکھی ہوئی پرچی فوراًیہاں آجاتی
ہے۔یہ بات غور کرنے کی ہے کہ یہ پرچی سرکاری فارمیسی کی طرف نہیں جاتی۔اگر
کوئی مریض لے بھی جاتا ہے تو اسے Panadolکے علاوہ کچھ اور نہیں ملتا۔پنجاب
کے ہسپتالوں کی ادویات صوبہ خیبر پختونخواہ کے میڈیکل سٹوروں پر فروخت کی
خبریں ابھی ابھی پریس میں آئی ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں بستروں کی تعداد بھی
نہ ہونے کے برابر ہے۔20۔کروڑ کی آبادی میں کئی کروڑ مریضوں کے لئے ہسپتالوں
اور بستروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ہسپتالوں کی تعداد بستروں کی تعداد اور دوسری
بہت سی طبی سہولیات بہت ہی کم ہیں۔ہم تو قومی سطح پر صحت جیسے اہم شعبے کے
لئے ایک فیصد سے بھی کم رقم صرف کررہے ہیں۔مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے
میزانیے میں صحت کے وسائل کو بڑھنا چاہیئے۔پاکستان کئی خطرناک بیماریوں
کاملک بن چکا ہے۔کینسر،ہیپاٹائٹس،دل کی بیماریاں اور گردوں کے مسائل عام
ہوچکے ہیں۔جب تک بجٹ میں صحت کے شعبے کے لئے 2۔فیصد سے بھی زیادہ وسائل
مختص نہیں کئے جاتے۔پاکستانی ایک صحت مند قوم نہیں بن سکتی۔قارئین اب تک
میں نے پینے کے صاف پانی کا ذکر نہیں کیا۔یہ صاف پانی قوم کا ایک اہم مسٔلہ
ہے اور یہ صحت سے ہی متعلق ہے۔اس کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو نئے
بجٹ میں خصوصی اعلانات کرنے چاہیئے۔صاف پانی آدھی سے زیادہ آبادی کو میسر
نہیں ہے۔میں نے سماجی خدمات کے3۔اہم اور بنیادی شعبوں کی طرف توجہ دلائی
ہے۔نئے بجٹ میں اس دفعہ انہی سماجی شعبوں کی طرف توجہ ہونی چاہیئے۔بجٹ
انسان کی ترقی کی طرف توجہ دے۔جب انسان صحت مند اور تعلیم یافتہ ہونگے تو
قوم اپنے آپ ترقی کرے گی۔روزگار کے مواقع تعلیم یافتہ اور صحت مند لوگ
آسانی سے پیدا کرلیتے ہیں۔نئے بجٹ کا رخ کس طرف ہو یہ رخ میں نے طے کرنیکی
کوشش کی ہے۔ |