اچھی حکمرانی کا خواب؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
’’نہ جانے اقربا پروری اور سفارشی کلچر کب
ختم ہوگااور ملک میں اچھی حکمرانی آئے گی ․․‘‘۔ یہ ریمارکس چیف جسٹس آف
پاکستان انور ظہیر جمالی کے ہیں، جنہیں آئے روز نئے سے نئے مقدمات سے واسطہ
پڑتا ہے، عوام کے نئے مسائل ان کے سامنے پیش ہوتے ہیں ، حکومتی مظالم کی
نئی نئی مثالیں دیکھنے میں آتی ہیں۔ چیف جسٹس کا تجربہ اس قدر ضرور ہو جاتا
ہے کہ اچھے برے کی پہچان کرنا ان کے لئے مشکل نہیں ہوتا۔ اچھی حکمرانی کو
پوری قوم ترس گئی ہے، اگر کوئی کسی حکمرانی سے مطمئن ہے تو صرف وہ لوگ جو
حکمران پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض اوقا ت ایسا موقع بھی آتا ہے کہ انسان
کسی بات کو غلط سمجھ رہا ہوتا ہے مگر اس کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے کہ اسے
اپنی حکومت کے اس عمل کی تعریف کرتے ہی بنتی ہے۔ حکمران کوئی ظالمانہ قدم
بھی اٹھائیں تو ان کی پارٹی کے حامی ان کے حق میں دلائل نکالتے دکھائی دیتے
ہیں۔ صدمہ تو اس وقت ہوتا ہے جب حکومتی پارٹی کسی علاقے کا استحصال کرکے
کسی دوسرے علاقے یا شہر کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جارہا ہوتا ہے، اور
اسی محروم رکھے جانے والے علاقے کے پارٹی رہنما اپنے قائدین کی تعریف میں
زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہوتے ہیں، ان کی ہر ادا کو درست اور ضروری
قرار دے رہے ہوتے ہیں۔
ستم یہ ہے کہ کوئی حکمران یہ تسلیم نہیں کرتا کہ وہ اقربا پروری یا سفارش
وغیرہ میں ملوث ہے، اور یہ کہ وہ خود کو ہمیشہ اچھی حکمرانی کے دعوے دار ہی
قرار دیتے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے موجود حکمرانوں کے تناظر میں ہی بات کی ہے۔
مگر اپنے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ وہ خود کو پاکستان کے سب سے بہتر حکمران
قرار دیتے ہیں، عوام بلاشبہ ان کی تائید کرتے ہیں، یعنی وہ ان کو ووٹ دیتے
ہیں تو کوئی حکمران بنتا ہے۔ اسی عوامی تائید کو ہی وہ احتساب بھی قرار
دیتے ہیں، کہ اگر ہم عوام کو پسند نہ ہوتے اور کرپشن وغیرہ میں ملوث ہوتے
تو عوام ہمیں ووٹ کیوں دیتے۔ گویا عوام کے ووٹ کا مطلب حکمرانی کا
سرٹیفیکیٹ بھی ہے اور اس بات کا مینڈیٹ بھی کہ وہ اپنے ویژن کے مطابق
منصوبہ بندی کریں اور ملک کا نظم ونسق چلائیں۔ ہو تو یہی کچھ رہا ہے، ایک
دھیلے کی کرپشن ثابت کرنے کی صورت میں نام تبدیل کردینے کی اجازت ، یا پھر
قیامت تک کرپشن ثابت ہو جانے کی صورت میں قبر سے نکال کر پھانسی دینے کی
بات۔ ان میں سے کچھ بھی ممکن نہیں۔ جن باتوں کا چیف جسٹس نے ذکر کیا ہے، ان
کو تو کوئی کرپشن تصور ہی نہیں کرتا، خالص میرٹ کے دعوے بھی موجود ہیں اور
اپنے من پسند لوگوں کو مراعات دینا، ان کے لئے ترقی کے مواقع فراہم کرنا
انہیں ٹھیکوں وغیرہ میں ایڈجسٹ کرنا عام سی باتیں ہیں۔ ان بیماریوں سے دو ر
رہ کر حکمرانی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے۔
گزشتہ روز لاہور کے ایک شہری نے وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کے خلاف
عدالتِ عالیہ میں درخواست گزاری ہے کہ یہ دورے بے مقصد کئے جارہے ہیں، ان
پر اٹھنے والے اخراجات کا حساب لگایا جائے ، ان میں اپنے خاندان اور دوست
احباب کو دوسرے ملکوں کی سیر کروائی جاتی ہے۔ اگر واقعی وزیراعظم کے غیر
ملکی دورو ں کا حساب کیا جائے تو ان میں بہت سے سیر سپاٹا کی ذیل میں آتے
ہیں، حتیٰ کہ علاج یا میڈیکل چیک اپ کے لئے باہر جانا بھی گڈ گورننس نہیں۔
اگر ہمارے وسائل اتنے زیادہ ہیں، اور ہم بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں تو ہم
اپنے ہی ملک میں اس سطح کے ہسپتال کیوں قائم نہیں کرسکتے کہ ہمارے حکمران
اور دیگر سرمایہ دار لوگ ملک کے اندر ہی چیک اپ اور علاج کروانے کی پوزیشن
میں آجائیں۔ حکمرانوں، بیورکریسی اور ارکان پارلیمنٹ کی مراعات پر نگاہ
ڈالی جائے ، تو معلوم ہوگا کہ ملک کے بہت زیادہ وسائل حکمرانوں کی عیاشیوں
پر ہی خرچ ہو جاتے ہیں۔ کرپشن مراعات کے علاوہ ہے، اگر حکمران ذاتی طور پر
یہ فریضہ نہیں نبھا رہے تو ان کی ناک کے نیچے بہت سے لوگ اس کام میں مصروف
ہیں۔ اگر واقعی ملک میں کرپشن کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے، میرٹ کا دور دورہ
ہے،انصاف اور احتساب کا عمل جاری ہے، عوام تو بنیادی سہولتیں میسر ہیں، تو
پھر ملک ترقی کی منزل تک کیوں نہیں پہنچ سکا؟ یا پھر یہ تسلیم کرنا چاہیے
کہ بہت سی کمیاں کوتاہیاں موجود ہیں، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ نہ جانے
اقربا پروری،سفارشی کلچر کب ختم ہوگا اور اچھی حکمرانی کب آئے گی؟ |
|