اول الکلا م تو شاعر سے معذرت کے ساتھ ہم بلا اجازت جرم تخفیفِ شعر کے
مرتکب ہوئے ۔دوسرا اصل میں شعر کچھ یوں ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے
بات کچھ یوں ہے عثمان نیاز ۔ز وہیب گوندل اور نعمان جاوید کے ہمراہ قافلہ ء
شوق ارباب فہم دودانش کی آماجگاہ پاک ٹی ہاؤس کی جانب خراماں خراماں رواں
تھا ۔ حسب سابق راستے بھر کارل مارکس جالب و فیض اقبال کے نظریات و افکار
پر دھواں دھار گفتگو کرتے منزل پر پہنچے ۔ پاک ٹی ہاؤس میں پہنچ کر آج بھی
یوں لگ رہا تھا جیسے وہ سامنے فیض احمد فض سگریٹ سلگائے بیٹھے ہوں اور کہیں
سے ساغر پرانابوسیدہ لباس پہنے نکل آیا ہو ۔ اور کہیں ساتھ ٹیبل پرمنیر
نیازی اور احمد ندیم قاسمی کے لمس کی خوشبو آرہی ہو اور اہل فکر وذوق کی
محفل میں واصف علی واصف علم وحکمت کے موتی بکھیر رہے ہوں اور اشفاق احمد
بانوقدسیہ جیسے آفتاب فہم زانوؤے تلمذ کئے بارگاہ واصف میں بیٹھے ہوں آج
بھی وہ خا موشی وہ رومانوی و روحانی ماحول ادب اور اہل ادب سے محبت کرنے
والوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے پاک ٹی ہاؤس کے منیجر قابل تحسین ہیں جنہوں
نے وہ فطری اور روایتی حسن کو کچھ اس انداز سے اپنایا اور سجایا کہ آج بھی
ماضی کے ادبی ستاروں کی بھینی بھینی روشنی فکروشعور کو تازگی وفرحت بخشتی
محسوس ہو تی ہے ۔ وہاں بیٹھے تو خوب محفل جمی انتظارحسین جالب و ساحر کی
یادوں سے روح شاداب ہوئی ۔ ایسے اپنائیت اور خلوص بھرے ماحول میں زوہیب
نذیر گوندل نے کلام اقبال سناکر روح کے خوابیدہ دریچوں کوبیدار کر دیاپھر
فکر اقبال اور فلسفہ اقبال پر دیار شاعر مشرق کے فرزند نعمان جاوید نے
رموزواوقاف سمجھائے اس مادہ پر ستی کے دور میں بھی خلوص اور اپنائیت بھرے
دوستوں کی ادبی محفل مسرت و شادمانیاں بکھیر رہی تھی کہ وقت یوں گزرا جیسے
ہمارا بچپن بیت گیا اور خبرنہ ہوئی ۔ وہ ظفراقبال صاحب کا شاید شعر ہے
جانے کب کہاں اور کیسے میرابچپن گزرا
میں جواں عمری میں برسوں پرانا ہو گیا
اسی اثناء میں وقت نے تنگی ء داماں کا شکوہ کر دیا توحسب سابق بادل نخواستہ
ہم سب تصورات میں اہل فکر کو سلام عقیدت پیش کرتے ہوئے نکل آئے پاک ٹی ہاؤس
سے کچہری چوک پہنچے تو وہاں کوئیک ریسپانس فورس کے جوانوں کی دوڑیں لگی
ہوئیں تھیں ٹریفک بند اور روٹ کلئیر کروایاجارہا تھا ایمبولینسز کے ہارنز
گاڑیوں کا شور سکولز اور کالجز یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس ہسپتالوں کو جانے
والے مریض اور انکے لواحقین مئی کی شدید گر می میں سب مجسمہ مظلومیت بنے
ہوئے حیرت سے ایک دوسرے کو تک رہے تھے جب پو لیس کے نوجوان جانفشانی کے
ساتھ روٹ کلئیر کروارہے تھے اور یہ سب کچھ اتنی پھرتی کے ساتھ ہور ہا تھا
کہ ہم سب آنکھیں مَل مَل کر دیکھ رہے تھے کہ پنجاب پو لیس بھی اتنی چست اور
چاق وچوبند ہو سکتی ہے ہم ابھی اسی تجسس میں کھڑے محوحیرت تھے کہ آخر شاہی
سواری کب تک پہنچے گی اور ہم شاہی سوار کو دیکھنے کی حسرت بھی پوری کر
پائیں گے یا نہیں ایک دم طوفان اٹھا ۔ ہٹو بچو کا شور پو لیس کے نوجوان
گاڑی کے آگے پیچھے دیوانہ واردوڑتے ہوئے ۔ باادب باملاحظہ ہو شیار کے نعرے
لگاتے ہو ئے گاڑی کے ساتھ بھاگ رہے تھے جب تجسس اور شوق بڑھا تو واقفان حال
سے یہ راز منکشف ہوا موصوف ڈی آئی جی پنجاب ہیں اور اسی معمول سے گزرتے ہیں
تو گو یا گتھی سلجھ چکی تھی اور روح قائد میرے تصورات پر پنجے گاڑ چکی تھی
اور دماغ تھا کہ سوچوں کے گرداب میں دھنستا ہی چلا جا رہا تھا اور وہ منظر
کسی فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے چلنے لگا جب ہمارے عظیم قائد محمد علی
جناح سٹوڈنٹ کنونشن میں شرکت کیلئے جارہے تھے راستے میں ریلوے پھاٹک پڑتا
تھا ۔پہنچے تو پھاٹک بند اورٹرین کا وقت ہو چکا تھا قائد کی گاڑی رکی
قائداعظم کے اے ڈی سی دوڑتے ہوئے ریلوے پھاٹک پہ موجود ریلوے ملازم کے پاس
گئے اور اسے کہا کہ تمھیں معلوم ہے پیچھے گاڑی میں کو ن شخصیت موجود ہے
ملازم نے انکار میں سر ہلایا تو اے ڈی سی نے بتایا پاکستان کے گورنر جنرل
محمد علی جناح گاڑی میں بیٹھے ہیں اور فوری پھاٹک کھول دو یہ سنتے ہی ملازم
نے پھاٹک کھول دیا اور اے ڈی سی واپس گاڑ ی میں بیٹھے تو قائد نے پوچھا
کہاں گئے تھے تو اے ڈی سی نے بتا یا کہ پھاٹک کھلوا کہ آیا ہوں ٹرین کی آمد
میں ابھی تاخیر ہے اس لئے انتظا ر کرنا پڑے گا ۔ قائد نے سخت ناگواری کا
اظہار کیا اور فوری طور پر کہا کہ پھا ٹک بند کروادو میں نے اگر آج پھا ٹک
کھلواد یا تو پھر یہ کبھی بند نہیں ہوگا ۔میں یہ گناہ جاریہ نہیں کرونگا
فوری اترو اور جا کر پھا ٹک بند کرواؤ جب تک ریل گاڑی نہیں گزرے گی ہم عام
لوگوں کیساتھ یہیں انتظار کرینگے ۔ تمہید تفصیل یا تنقید کا مقصد کسی
فردواحد کو ٹارگٹ کر نا نہیں یہ ہماری شاہانہ بیوروکریسی کی ایک ہلکی سی
جھلک ہے مگر اس کا ذمہ دار کون ہے اس پروٹوکول کی بیماری کا شکا ر سیاستدان
بیوروکریٹس ملٹری آفیسر ز علماء مذہبی سیاسی قائدین سمیت تما م طاقت ور لوگ
ہیں ۔مخدوم جاوید ہاشمی نے زمانہ اسیری میں ایک کتاب لکھی ۔ تختہ دار کے
سائے تلے ، اس میں ایک واقعہ لکھا ہوا ہے مخدوم صاحب سے کسی نے پو چھا کہ
آپ جاگیردار پاکستان کی تباہی اور پستی کے ذمہ دار ہیں ۔مخدوم جاوید ہاشمی
لکھتے ہیں میں سوال سن کر اپنی ہنسی روک نہ سکا مسکرادیا بھائی اب ہماری
کہاں جاگیریں اور اب ہم کہاں کہ جاگیر دار۔ ایک اسلام آباد میں گھر خریدا
جو ریٹائر ڈ بیوروکریٹ کی ملکیت تھا اور اس کی مالیت کروڑوں تھی ۔مجھے یہ
گھر خریدنے کیلئے اپنی آبائی زمین کافی زیادہ بیچنی پڑی جس کے بعد میں اس
قابل ہوا کہ یہ گھر خرید سکوں جاوید ہاشمی لکھتے ہیں میں بڑاحیران تھا کہ
اس ریٹائر ڈ سیکرٹری نے اتنی مالیت کا گھر کیسے حاصل کر لیا چھان بین اور
معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے بعد بھید یہ کھلا مو صوف کی ریٹائر منٹ پر
محکمے نے یہ پلاٹ پچیس ہزار روپے میں دے دیا اور سیکر ٹری صاحب نے چند لاکھ
لگا کر کروڑوں روپے منافع کما کر اپنے دوسر ے گھر میں منتقل ہو گئے ۔ ہاشمی
صاحب لکھتے ہیں میں یہ سوچ کر حیران و ششدر رہ گیا کہ اس ملک کیلئے اس بیور
وکریٹ کی قربانی زیاد ہ ہے یا میر ی جو ساری عمرماتحتوں کی ہتھیلیوں پر
ٹھنڈے کمروں میں بیٹھا رہا یا میر ی جو ساری زندگی جیلوں میں دھکے کھا تا
رہا خیر بات کسی اور طرف نکل گئی میں واپس مو ضوع کی طرف آتا ہوں ۔یہ پرو
ٹو کو ل ہٹو بچو کی صدائیں یہ چمچماتی لشکارے مارتی دھول اڑاتی لگژی گاڑیاں
جب کسی سفید پوش محنت کش کے چہرے پر دھول مَلتی ہوئی برق رفتاری سے گزرتی
ہیں تو پھر وہ رزق حلال کی تگ ود و میں نکلنے والا مزدور ایک بار سوچتا
ضرور ہے ۔ کہ
تو بھی پاکستان ہے میں بھی پاکستا ن ہوں
اور ہمارے سیاستدانوں بیو روکریٹس جرنیلوں کے دفاتر میں سر کے اوپر لگی
ہوئی قائد کی تصویر کیا یہ روح قائد کے ساتھ کھلم کھلا مذاق اور توہین کے
مترادف نہیں بات دراصل یہ ہے کہ ہم من حیث القوم اس کلچر کو پسند کرتے ہیں
ہم ذہنی وفکری طور پر بیمار پسماند ہ اور غلام ہیں ہم درحقیقت نسل درنسل
محکمومی وغلامی میں چلے آرہے ہیں اور یہ طرززندگی ہماری فطرت میں سرایت کر
چکا ہے ۔ حکیم سعید اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں ، سمیت چند
ایک ایسے لوگ گزرے ہیں جو پروٹوکو ل کی لعنت سے دور رہے ۔ ہمارے یہاں معراج
خالد جب وزیراعظم پاکستان تھے تو تب بھی انکی بیگم رکشہ میں سفر کرتی تھیں
وزیراعظم ہاؤس کے کچن کا خرچہ پندرہ ہزار روپیہ ماہانہ تھا جو وہ خوداپنی
جیب سے ادا کرتے تھے مگر صدا فسو س آج کتنے لوگ معراج خالد کو جانتے ہوں گے
کیونکہ ہم ایسے لوگوں کو پسند ہی نہیں کرتے ۔ کتنے دکھ اورشرم کی بات ہے جو
لوگ عوام کے تحفظ اور فلاح کے لئے چُنے اور مقر ر کئے جاتے ہیں جن کی ذمہ
داری فقط عام آدمی کا تحفظ اور فلاح ہوتی ہے اگر انہی لوگوں کو خطرہ ہے اور
وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے تو پھر یہاں عام آدمی تو جیسے بھی مرے
جیئے کسی کو کیا پرواہ۔ پختونخواہ میں عمران خان نے پروٹوکول کے خلاف مہم
شروع کی مگر وہ بھی سر د خانے کی نذر ہوگئی ۔یہ کیا ریاست ہے جہاں لوگ مرتے
ہیں ذلیل ہوتے ہیں پر سان حال کوئی نہیں پو لیس کا کام عوام کا تحفظ ہے مگر
وہ خواص کے تحفظ میں لگی ہوئی ہے او ر ان لوگوں کے تحفظ میں لگی ہے جن کی
ذمہ داری ہی عوامی خدمت ہے وہ اس خدمت کی شاندار اور قابل رشک اجرت لیتے
ہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ خود کو خادم اعلیٰ کہلوا کر فخر محسوس کرنے والے
کیلئے پانچ ہزار پولیس محافظ ہوں او ر لاہور کے 413 شہریوں کیلئے اوسطاََ
ایک پولیس اہلکار میسر ہو یہ کوئی وائسراے ہیں خود کو جمہوریت کی پیداوراور
جمہوری لیڈر کہلوانے والوں کا طرززندگی اگر مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفراٹھ کے
آجائے ایک نظر دیکھ لے تو وہ بھی ما رے شرم کے چِلو بھر پانی میں ڈوب کہ مر
جائے |