ڈرون حملہ۔امریکہ جنگل کے قانون کا علمبردار۔ چوہدری نثار کا موقف
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
موجودہ ملکی حالات میں جہاں ایک طرف سیاسی
ماحول میں عجیب رنگ نظر آتا ہے وہاں امریکہ بھارت ایران افغانستان کے بڑھتے
ہوئے میل جول کے بھی واضع اثرات نظر آرہے ہیں۔ڈہشت گردی کی جنگ امریکہ
بہادر کی جانب سے مسلط کی گئی اور امریکہ پاکستان کو اب سبق سکھانے پر تُلا
ہوا ہے۔ایف سولہ طیارئے دینے سے انکار، امداد کو شکیل آفریدی کی حوالگی سے
مشروط کرنا اور پھر حالیہ ڈرون حملہ جس میں ملا اختر منصور مارئے گئے۔اِس
پس منظر میں پاکستانی وزیر خارجہ نے روایتی جوشیلی اور بہادرانہ انداز میں
موقف پیش کیاہے۔ چودری نثار کا موقف فوج کا موقف ہی سمجھا جانا چاہیے چونکہ
اُنہوں نے قوم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ امریکہ
تو جنگل کا قانون چاہتا ہے۔وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے ڈرون
حملے پاکستان‘ امریکہ تعلقات پر نہایت سنگین اثرات ڈال سکتے ہیں۔ ڈی این اے
ٹیسٹ کے بغیر بلوچستان میں ہونیوالے امریکی ڈرون حملے میں ملا اختر منصور
کے مرنے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ سائنسی اور قانونی شہادتوں تک باضابطہ
اعلان نہیں ہو سکتا۔چوہدری نثار علی خان نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے
میں افغان طالبان کے سربراہ ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق سے انکار کرتے
ہوئے کہا ہے کہ سیاسی اور عسکری قیادت اس بات پر متفق ہے کہ پاکستان میں
امریکی ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف
ورزی، غیرقانونی اور ناقابل قبول ہیں، امریکی صدر کا پاکستان میں دشمن کو
ہر جگہ نشانہ بنانے کا بیان بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور ناقابل
قبول ہے، ڈرون حملوں سے پاکستان امریکہ تعلقات پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے
ہیں، امریکہ کے کہنے پر سب چلیں تو پھر دنیا میں جنگل کا قانون بن جائے گا،
امریکی منطق کو مان کر کیا ہم افغانستان میں دہشت گردوں پر گولہ باری کر
دیں۔ پاکستان میں دھماکے کرنے والے افغانستان میں بیٹھے اور پاکستان کی
مخالفت کرنے والے مغرب میں آزاد پھر رہے ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ ولی
محمد افغانستان میں تھا تو امریکہ کیلئے خطرہ نہیں تھا، پاکستان میں داخل
ہوتے ہی وہ کیسے خطرہ بن گیا، گاڑی کو پاکستان میں نشانہ بنانے کی منطق
سمجھ میں نہیں آتی، شنید ہے کہ ڈرون طیارے نے پاکستانی سرحد پار نہیں کی
بلکہ کسی اور ملک کی سرحد سے پاکستانی سرحد میں موجود گاڑی کو میزائل سے
نشانہ بنایا، مزید تحقیقات کر رہے ہیں، امریکہ یہ بھی فیصلہ کرلے اس خطے
میں کونسی پالیسی موثر اور کارگر ہے، افغان حکومت سے مذاکرات میں ملا منصور
نے طالبان کی قیادت کی پھر وہ کیسے مذاکرات کیلئے خطرہ تھا، وہ خطرہ ہوتا
تو مری مذاکرات کیسے ہوتے، مذاکرات کے پہلے دور سے چند دن قبل ملا عمر کی
ہلاکت کی خبر لیک کی گئی، دوسرے مرحلے میں افغانستان میں حملے نہ کرنے کا
اعلان ہونا تھا، یہ نہیں ہو سکتا سربراہ کو قتل کر کے طالبان سے کہا جائے
آؤ مذاکرات کریں، گزشتہ دوسال میں 29ہزار افراد کے پاسپورٹ منسوخ کئے، ڈرون
حملے میں ہلاک ڈرائیور کی شناخت ہونے پر نعش ورثاء کے حوالے کر دی۔ انہوں
نے کہا وہ تصدیق نہیں کر سکتے کہ جائے حادثہ سے ملنے والا پاسپورٹ اسی شخص
کے زیرِ استعمال تھا جو ڈرون حملے میں مارا گیا۔ اس سے قطع نظر کے ڈرون
حملے میں مارا جانے والا شخص کون تھا، یہ حملہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف
ورزی تھا اور حکومت اسکی شدید مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا وزیراعظم
نوازشریف کی لندن سے واپسی پر باقاعدہ ردعمل دیا جائیگا اور اس سلسلے میں
قومی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی بلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا ڈرون حملے
کے سات گھنٹے بعد امریکہ کی طرف سے پاکستان کو سرکاری طور پر اطلاع دی گئی
تھی کہ ملا منصور کو پاکستان کے اندر نشانہ بنایا گیا ہے اور وہ اس دنیا
میں نہیں۔ انھوں نے بتایا یہ واقعہ ساڑھے تین بجے کے قریب پیش آیا اور جب
ایف سی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار وہاں پہنچے تو وہاں سوائے دو
سوختہ اجسام، گاڑی کے ڈھانچے اور کچھ گز دور ایک پاسپورٹ کے علاوہ کچھ نہیں
تھا۔ انھوں نے کہا ابتدائی طور پر تفتیشی ادارے اسی تحقیق میں رہے یہ گاڑی
کس کی ہے اور یہ افراد کون ہیں اور امریکہ کی جانب سے سرکاری طور پر اطلاع
دینے کے بعد تفتیشی اداروں نے تانے بانے ملانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا
سوال کیا جا رہا ہے پاکستان ملا منصور کی ہلاکت کی سرکاری طور پر تصدیق
کیوں نہیں کر رہا لیکن حکومتِ پاکستان سائنسی اور قانونی تصدیق کے بغیر اس
کا اعلان نہیں کر سکتی۔ انھوں نے کہا ملا منصور پاکستانی نہیں اور کسی ڈین
این اے کی غیر موجودگی میں کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ سرکاری طور پر اس کی
تصدیق کر سکیں اور تاحال صورتحال یہی ہے۔ جائے وقوعہ سے ملنے والے پاسپورٹ
کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ملنے والا پاسپورٹ ولی محمد نامی
شخص کا ہے جن کا شناختی کارڈ پہلی بار 2001ء میں مینوئل بنا جبکہ 2002ء میں
اسے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ جاری کیا گیا۔ اس شخص نے 2005ء میں پہلی بار
پاسپورٹ کے لیے درخواست دی جو انھیں ملا جبکہ 2012ء میں ان کے پاسپورٹ کی
تجدید کی گئی۔ انٹیلی جنس کے ذرائع نے بتایا یہ افغان فیملی ہے جس پر گذشتہ
برس ان کا شناختی کارڈ منسوخ کر دیا گیا۔ ڈائریکٹریٹ آف پاسپورٹس کو ان کے
پاسپورٹس بھی منسوخ کرنے کو کہا گیا تاہم اس شخص کا نام پاسپورٹ کی منسوخی
کے لیے نہیں بھیجا گیا تھا۔ چودھری نثار نے کہا مری میں ہونے والے افغان
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں دونوں فریق کابل کو جنگ سے پاک
علاقہ قرار دینے کو تیار ہو گئے تھے۔ امریکہ کا یہ کہنا امریکہ کے لئے جو
خطرہ ہے اسے وہ جہاں چاہے نشانہ بنائیں گے درست نہیں۔ ’ایسا تو جنگل کا
قانون ہوتا ہے۔ یہ منطق سمجھ نہیں آتی اس شخص کو پاکستان میں کیوں نشانہ
بنایا گیا جبکہ وہ دنیا کے کئی ممالک میں سفر کرتا رہا۔ چودھری نثار نے کہا
امریکہ نے کہا تھا ان کا دشمن جہاں بھی ہو گا وہاں حملے کریں گے۔ یہ منطق
تسلیم کر لی جائے تو ولی محمد دبئی‘ ایران بھی گیا تھا وہاں حملے کیوں نہیں
کئے۔ جب یہ لوگ دیگر ممالک میں گھومتے رہے ہیں تو امریکہ کیلئے خطرہ کیوں
نہیں تھے۔ ولی محمد پوری دنیا میں گھوما جب پاکستان آیا تو مار دیا گیا۔
انہوں نے امریکی ڈرون حملے کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے
ہوئے اس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا امریکی اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور
بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی کرتا ہے جبکہ امریکہ کا اس حوالے سے
پیش کیا گیا جواز غیرقانونی ہے۔ پاکستان کا مؤقف وزیراعظم کی واپسی پر
سامنے آئے گا جبکہ مشاورت کے بعد حکومت پاکستان کا نقطہ نظر قوم کے سامنے
آئے گا۔ انہوں نے کہا 2005ء میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں
ولی محمد کا پاسپورٹ جاری ہوا تھا۔ وزیر داخلہ نے اعتراف کیا نادرا میں
کرپشن ہوتی ہے تاہم معاملات کو درست بنانے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا صرف تقریریں نہیں کیں‘ بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی بھی کی‘
نادرا سے 614ملازمین کر کرپشن پر بطرف کیا گیا ہے۔ چودھری نثار نے کہا
امریکہ کی اس منطق جس کے مطابق جہاں امریکی مفادات کو خطرہ ہو گا حملے کئے
جائیں گے‘ سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ اس منطق سے اتفاق کر لیا جائے تو
پاکستان کے دشمن بھی دیگر ممالک میں موجود ہیں تاہم ہم دیگر ممالک کی
خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔ افغان طالبان کے سربراہ کو پاکستانی انٹیلی
جنس اداروں کی۔ چو ہدری نثار کے جذبات پوری قوم کے جذبات ہیں۔قوم اِن کی
قدر کرتی ہے۔ حمایت حاصل ہوتی تو کیا وہ ایک گاڑی میں صرف ڈرائیور کے ساتھ
سفر کر رہے ہوتے۔ انہوں نے کہا امریکہ والا قانون ہر ملک اپنا لے تو دنیا
میں جنگل کا قانون ہو گا۔ امریکہ کیلئے خطرہ بننے والے لوگ صرف پاکستان میں
نشانہ کیوں؟ سرحد پار دہشت گرد بیٹھے ہیں‘ پاکستان تو گولہ باری نہیں کرتا۔
انہوں نے کہا امریکہ اس خطے میں پالیسیز کا فیصلہ کر لے۔ کہا جا رہا ہے ملا
منصور امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے لیکن مذاکرات کے حوالے سے ملا
منصور کا کردار اہم تھا۔ ملا منصور مذاکرات میں رکاوٹ ہوتا تو مری مذاکرات
کیسے ہوتے۔ وہ مذاکرات کا مخالف نہیں تھا۔ چودھری نثار نے کہا ڈیڑھ لاکھ
اتحادی فوجی افغان طالبان کو فتح نہیں کر سکے۔ افغان طالبان کو عسکری طاقت
سے ختم نہیں کیا جا سکا۔ انہوں نے کہا ملا منصور کو ہلاک کرکے پاکستان کے
لئے مشکل پیدا کر دی گئی۔ طالبان کابل کو غیرمتنازع علاقہ قرار دینے پر
متفق ہو گئے تھے۔ رہنما کو مار کر طالبان کو مذاکرات کے لئے کہنا درست
اقدام نہیں۔ طالبان سے امن مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو سبوتاژ کیا گیا۔
انہوں نے حملے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ڈرون پاکستانی علاقے میں داخل
نہیں ہوا‘ کسی اور ملک میں رہتے ہوئے یہ حملہ کیا گیا۔ چودھری نثار نے کہا
ڈرون حملے سے متعلق معلومات حملے سے قبل ہمیں نہیں دی گئیں بلکہ واقعہ کے
سات گھنٹے بعد میں آگاہ کیا گیا۔ واقعہ کے دوران پاسپورٹ اور شناختی کارڈ
کو نقصان نہ پہنچنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا اطلاع ملنے کے بعد ان کا
بھی یہی سوال تھا اور اس حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ چودھری نثار نے
کہا لیڈر کو مار کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر نہیں لایا جا سکتا۔پاک فوج
زندہ آباد پاکستان پائندہ آباد۔ |
|