اپوزیشن کے بار بار مطالبے اور احتجاج کے
بعد وزیراعظم محمد نواز شریف سولہ مئی سوموار کے دن قومی اسمبلی میں تشریف
تو لائے اورتیس منٹ سے زیادہ طویل تقریر میں پانامہ دستاویزات پر اپنی
وضاحت بھی پیش کی لیکن ان کے خطاب کے فوراََ بعد اپوزیشن جس طرح غیر متوقع
طو رپر ایوان سے بھاگی یہ سب کے لئے حیران کن تھا،جس سے سیاسی اور صحافتی
حلقوں نے یہ رائے قائم کی کہ ملکی سیاسی حالات میں ایک خطرناک ڈیڈ لاک پید
اہو چکا ہے اور حکومت ایک بند گلی میں داخل ہو گئی ہے۔ بعض سیاسی تجزیہ
نگار تو اب بھی اسی رائے پر قائم ہیں کہ سیاسی حالات انتہا ئی ابتر ہوچکے
ہیں بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ان کی یہ رائے ہے کہ پاکستان میں
ایک بار پھر فوجی مداخلت ناگزیر ہوگئی ہے۔مجھے یاد ہے پیپلزپارٹی کے گزشتہ
پانچ سالہ دورحکومت میں کچھ تجزیہ نگار اور سیاسی پنڈت ہر شام ٹی وی
سکرینوں پر نمودار ہوتے تھے اور ماتم کے سے انداز میں جنرل کیانی سے
التجائیں کرتے تھے ۔ سرخی پاؤڈر لگا کر ٹی وی سکرینوں پر شام غریباں برپا
کرنے والے یہ سیاسی پنڈت ہر رات اپنے تئیں حکومت گرا کر سوتے تھے لیکن
زرداری صاحب نے جانا تھا نہ گئے بلکہ اس طرح کے ایک تجزیہ نگار کا ڈنک تو
انہوں نے صرف ایک سرکاری نوکری کے چمٹے سے پکڑ کر نکال دیا۔ صحافتی حلقوں
سے اس طرح کی آوازیں بلند ہوناجمہورپسند حلقوں کے لئے تکلیف دہ امر ہے ۔قابل
احترام ارشاد عار ف صاحب نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’فوج کی براہ راست مداخلت
کے سواتبدیلی کا کوئی دوسرا دروازہ کھلا نہیں‘‘۔خاکی وردی سے محبت کرنے
والے ایک سابق وفاقی سیکرٹری جو ہر حکومت وقت سے خداکا واسطے کا بیر رکھتے
ہیں ،ان کی رائے تو میرے لئے انتہائی مضحکہ خیز ہے۔فرماتے ہیں ’’موجودہ
حالات میں پاکستان کے عوام سیاست دانوں (ظاہر ہے ان کی مراد حکومت ہے)کی
طرف نہیں دیکھ رہے بلکہ ان کی نظریں اور امیدیں عدلیہ اور افواج پاکستان پر
لگی ہیں‘‘۔ان دونوں آرا پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ہے لیکن بصد
احترام ان دونوں آراء سے اختلاف کرتے ہوئے اتنا ضرور کہوں گا کہ انیس سو
اٹھاسی سے لے کر انیس سو ننانوے تک ہم نے چار بار جمہوریت کا ’’ابارشن ‘‘
کیا،اس کے بعددس بار وردی کو منتخب کرانے کے خواہش مندوں کا جو حشر عوام نے
کیا وہ سب کے سامنے ہے۔زرداری صاحب نے اپنی آئینی مدت پوری کی اورعوام نے
ان کی کارکردگی پر اپنا فیصلہ سنا دیا ۔موجودہ حکومت یااسمبلی کوبھی اپنی
آئینی مدت پوری کرنی چاہیے تاکہ عوام اس کے بارے میں بھی یکسو ہو کر فیصلہ
کرسکیں کیونکہ سیاسی نظام اسی طرح پرورش پاتے اور مستحکم ہوتے ہیں۔حکومت
وقت کا دفاع مقصود نہیں،نہ کسی کی کرپشن کا تحفظ کسی صحافی کا منصب ہے۔اس
کے لئے ریاست کے قوانین کو بروئے کار آنا چاہیے اور پوری طاقت کے ساتھ
بروئے کا رآنا چاہیے ،۔لیکن اس طرح کی آراء میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی
خواہشات پر مبنی ہو سکتی ہیں حقائق کا ان سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا۔
پا نامہ دستاویزات سے متعلق اپنے کالمز میں خاکسار بہت پہلے عرض کر چکا ہے
کہ فوجی مداخلت اول تو مسئلے کا حل ہر گز بھی نہیں ہے،خاص طور پر ان حالات
میں اگر یہ غلطی ایک بار پھر دہرائی گئی تو تمام تر مقبولیت کے باوجود فوج
کوجمہوری عوامی حلقوں،وکلااور میڈیاکی طرف سے ملکی تاریخ کی شدید ترین
مزاحمت سامنا کرنا پڑے گا،میر ی رائے آج بھی یہی ہے۔دنیا بھر میں افواج
حکومتوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں اور پاکستان میں بھی یہ کوئی
انہونی بات نہیں لیکن فوج اب براہ راست مداخلت کے موڈ میں نہیں ہے۔
بہر حال قومی اسمبلی میں وزیراعظم کے خطاب اور اپوزیشن کے واک آؤٹ کے بعد
راتوں رات اس قدر بڑی تبدیلی آئی کہ نہ صرف اپوزیشن نے قومی اسمبلی اور
سینیٹ سے واک آؤٹ ختم کرنے کا اعلان کردیا بلکہ وزیراعظم کی تجویز کے عین
مطابق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر بھی رضا مند ہوگئی ۔ اس وقت
صورتحال یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتفاق رائے سے پانامہ
دستاویزات،قرضے معاف کرانے او ر کک بیکس لینے والوں کے خلاف تحقیقات کے لئے
مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کام شروع کرچکی ہے ۔ واضح طور پر حالات اس طرف جاتے
دکھائی دے رہے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی اپنے
مقررہ وقت دو ہفتوں یا ممکنہ طو ر پر کچھ تاخیر سے اپنی تجاویز یا سفارشات
پارلیمنٹ کو پیش کردے گی جس کے بعدپانامہ دستاویزات سمیت تمام آف شور
کمپنیوں ،قرضے معاف کرانے والوں اور کک بیکس سے دولت کمانے والوں کے خلاف
تحقیقات کے لئے ضوابط کار(ٹی او آرز)سے متعلق قانون سازی بھی ہو گی اور یہ
ضوابط کار سپریم کورٹ کو بھی ارسال کر دئیے جائیں گے۔
میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں یہ اشارہ بھی کیا تھا کہ پانامہ دستاویزات
اور اس سے جڑے دوسرے مبینہ بدعنوانی کے معاملات کی تحقیق کے لئے نئی قانون
سازی ایک’’ وقت طلب‘‘ اور مشکل کام ہے اور وقت ہی وہ اہم فیکٹر ہے جو اس
معاملے کو غیر محسوس انداز سے ماضی کی گرد میں چھپا دے گا اورسیاسی کیفیات
میں جو بظاہر شدید غیر یقینی صورتحال نظر آتی ہے وہ بتدریج پر سکون ہوجائے
گی ۔ سیاسی حالات نارمل ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس ملک میں بدعنوان
عناصر موجو د نہیں ہیں یا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ اصل بات یہ ہے کہ
بعض سیاستدان صرف دوسروں کااحتساب چاہتے ہیں اپنا نہیں ،اس کا واضح ثبوت یہ
ہے کہ پرویز مشرف کے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد سے لے کر اب تک
تقریباََ آٹھ برس میں احتساب بل پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔بقول وزیراعظم
’’سب کا ایک ترازومیں تلنا ‘‘ اتنا بھی آسان نہیں۔لیکن فوجی مداخلت کبھی
بھی پاکستان کے لئے سود مند نہیں رہی اور دنیا بھر کا یہی دستور اور تاریخی
سبق ہے۔کیونکہ فوجی آمر ایک کام سنوارتے سنوارتے اتنے کام بگاڑ دیتا ہے کہ
آنے والی نسلیں بھی چاہنے کے باوجود اس کی قیمت نہیں چکا سکتیں ۔ افغانستان
کا رستا ہو ا ناسور اس بات کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔اس لئے سیاستدانوں کو
چاہیے کہ غلطیوں کو سدھارنے کے لئے ان کی نشاندہی ضرور کریں تنقید بھی ان
کا حق ہے لیکن اوئے توئے کی سیاست سے پرہیز کریں کیونکہ گھر میں لڑائی بڑھ
جائے تو پڑوسی گھر میں گھس آتے ہیں اور جب باہر سے کوئی گھر میں گھس آئے تو
نظام چوپٹ ہوجاتا ہے۔دانش مندی کا تقاضہ یہ ہے کہ تمام سیاسی حلقے ذاتی
مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کچھ فیصلے خالصتاََملکی مفاد میں بھی کریں ۔
ہوسکتا ہے وقتی طور پر یہ فیصلے ہضم کرنا ان کے لئے مشکل ہو لیکن مستقبل
میں یہ فیصلے نہ صرف پاکستان بلکہ سیاستدانوں کے لئے بھی یکساں طو ر مفید
ہوں گے ۔
واﷲ عالم باالصواب |