ہندو پاک خارجہ سکریٹریوں کی ملاقات
(Falah Uddin Falahi, India)
ہندو پاک ایک ایسا معمہ ہے جو اول روز سے
ہی ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیں ۔جس کی متعدد وجوہات ہیں ۔لیکن اس میں
ایک بڑی وجہ جو ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ میں بھی
یہ معاملہ پہنچ چکا ہے لیکن اس کو سلجھانے اور حل کرنے کا فارمولہ کسی کے
پاس نظر نہیں آرہا ہے ۔ملک کی آزادی اور تقسیم ہوئے تقریباً ۶۸ سال ہو چکے
ہیں لیکن اب تک صرف زبان بازی اور ایک دوسرے پر غاصب کی الزام تراشی ہی
جاری ہے ۔ہند کو شکوہ ہے کہ پورا کشمیر ہمار ا ہے اور پاک کو شکوہ ہے کہ
پورا کشمیر ہمارا ہے ۔جبکہ قسمت دیکھے کہ تقسیم تو الگ بات ہے لیکن دونوں
کے پاس ایک ایک ٹکڑا جانے انجانے میں قدر ت نے مہیا کرادیا ہے ۔کشمیر کی
جنت نشاں وادیوں سے دونوں ملکوں کو ہوا کے جھونکے کھانے کا موقع فراہم کر
دیا ہے ۔دونوں ملکوں میں کشمیر کے سیب اور میوہ جات دستیاب ہیں ۔یعنی دونوں
ملک کشمیر کا مزہ اول روز سے ہی لے رہے ہیں لیکن اس کے با وجود دونوں کو
مکمل اور مزید کی خواہش ہے ۔جس کی وجہ سے طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے رہے
ہیں ۔جہاں ایک طرف علیحدگی پسند ہیں جو خود مختاری چاہتے ہیں وہیں پاک ہے
جو اس پر اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے اور حریت بھی شاید یہی چاہتی ہے کہ
پاک میں شامل ہوجائیں ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو کیوں بار بار کشمیر میں پاک
کے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں ،کیوں وہاں کے نوجوان ہند مخالف نعرہ بازی کرتے
ہیں ۔جبکہ پاک کی آزادی کی بعد جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے ۔آج
تک ان مہاجرین کو وہ حقوق نہیں دے سکے جو ہندوستان سے ہجرت کر قومی جذبہ سے
سرساز ہو کر پاک گئے تھے ۔وہاں کی زندگی دن بدن اجیرن بنتی جارہی ہے ۔ہر
روز وہاں تخریب کاروں کا بڑا بڑا حملہ ہوتا ہے جس پر سرکار قابو کرنے میں
ناکام ہے۔مختلف طرح کی تنظیم اور سیاسی بازی گر کے علاوہ مذہبی بازی گر ہیں
جو اپنی چودراہٹ میں خود کو پاک کا حاکم بھی تصور کرتے ہیں ۔ویسے تو واردات
ہر ملک میں ہوتے ہیں لیکن پاک پر تبصرہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاک کی
بنیاد ہی اسلام پر رکھی گئی تھی جو اول روز سے اسلام کا لبادہ اڑھنے سے
قاصر ہے ۔جس ملک کے دستور کو بالائے طاق رکھ کر قانون سازی کی گئی ہواور
قرآن اور اسلام کی بنیاد کو اول روز سے پس پشت ڈال دیا گیا ہو وہاں شامل
ہونے کو اسلام پسند نوجوان بے قرار کیوں ہیں ۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہند
سے بدتر سماجی حالت پاک کی ہے ،اس کے با وجود کشمیری نوجوان دور اندیش کیوں
نہیں ہے ۔خیر یہ الگ بات ہے لیکن ہر انسان اپنا نفع و نقصان ضرور دیکھتا ہے
۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ نوجوانوں کو غلط سمت رہنمائی کی جا رہی ہے ۔بہر
کیف بات چل رہی تھی کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے الگ ہندوستان اور پاکستان
کے خارجہ سکریٹریوں کی پونے دو گھنٹے چلی ملاقات کا کوئی حل نہیں نکلنے
والا ہے یا نہیں ،اس لئے کہ اس سے پہلے کی ملاقاتوں کا کوئی حل نہیں
نکلا۔یہ تو طے ہے کہ پاکستان جیسے پڑوسی ملک سے بات کرنا ہندوستان کی
مجبوری ہے اور ضروری بھی ہے اس لئے کہ بات کرنے سے کچھ نہ کچھ تلخیاں کم
ہوتی ہیں،بات نہ کی جائے تو تلخیاں اور بڑھ جاتی ہیں۔ ہندوستانی حکومت یہ
جانتی ہے کہ پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آنے والا۔پاکستان کی جو دہشت
پسندی کی پالیسی ہے اور وہاں جو داخلی تنازعہ ہیں وہ کبھی ختم نہیں ہونے
والے اس لئے کہ اگر یہ ختم ہوگئے تو حکومتوں کو اپنے آپ کوباقی رکھنا مشکل
ہو جائے گا۔اسی پر ان کی سیاسی بساط قائم ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں ہندوستان
پاکستان سے اس طرح کی بات تو کرتا رہے اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی اچھائیوں
کو پاکستان تک پہنچاتا رہے۔تاکہ دونوں ملکوں کے ما بین بات چیت کے بہانے ہی
صحیح خیر سگالی کا ماحول تو پروان چڑھے ہی گا۔ہاں اس وقت دونوں ممالک کے جس
طرح کے حالات ہیں اس کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں اس مسئلہ کا کوئی حل
نظر نہیں آتا ہے۔چونکہ کشمیر کا مسئلہ تین خاص پارٹیاں کے درمیان گردش کر
رہا ہے۔ ایک ہندوستا نی حکومت ہے دوسری پاکستانی حکومت اور تیسرے خود کشمیر
ہیں جن کے مختلف گروہ ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ اس مسئلہ کوہندوستان اور پاکستان
سے زیادہ خود کشمیر کی سیاست نے الجھا رکھا ہے۔ ۶۸؍سالوں میں کشمیر کی
سیاست نے کشمیریوں کو مجموعی طور پر اتنا مبہم کر دیا ہے کہ وہ یہ بھی نہیں
جانتے کہ وہ چاہتے کیا ہیں اور وہ جو چاہتے ہیں وہ انہیں کیسے ملے گا۔جس کا
فائدہ حریت اور پاکستان اٹھا رہا ہے ،اور ان سب سے زیادہ فائدہ مغربی ممالک
اٹھا رہے ہیں اوردونوں ممالک کاکشمیر کے مسئلہ پر استحصال کر رہے ہیں۔کبھی
ہندوستان کو پورا کشمیر دینے کی غرض سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے تو کبھی
پاکستان کو ۔اس طرح جب ایک ملک مغربی ملک سے قربت زیادہ بڑھاتا ہے تو دوسرا
ملک بھی آگے بڑھ کر ان سے زیادہ قریب آنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کے حق
میں فیصلہ ہو جائے اور ان کا ساتھ دینے لگے ۔حالانکہ ان دونوں ملکوں کا
زبردست نقصان ہو رہا ہے اور دونوں کی خود مختاری بھی متزلزل ہے۔ |
|