تاریخ کے سبق جاوید چوھدری کی نظر میں ۔۔۔

دور حاضر کے ارسطو ادیب و محقق العصر جناب جاوید چوھدری صاحب نے تاریخ کے سبق کے عنوان کے تحت کالمز کی ایک سیریز قارئین کی خدمت میں پیش کی ہے جس میں وہ تاریخ کے گہرے سمندر میں غوطہ زن ہوکر قیمتی موتی قوم کے لئیے نکال کر لائے ہیں جس پر میں انھیں مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ تاریخ سے جو اسباق انکی بالغ نظر نے قوم کے لئیے منتخب کیے ہیں انکا خلاصہ عرض کرنے سے پیشتر تمہید کے طور پر ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ گذشتہ ایک دہائی سے نیم دانشور پاکستان کو سیکولر ریاست بنانے کے مشن پر کام کررہے ہیں اور ٹیلی ویثرن کی سکرینوں تک تو یہ کامیاب ہوچکے ہیں مگر زمینی حقائق انکا ہمیشہ منہ چڑھاتے رہیں گے ۔ غالب سے میر تقی میر تک حبیب جالب سے منیر نیازی اور حتی کہ فلمی اداکاروں کی برسیوں پر مرثیے پڑھنے والے میڈیا اور لکھاریوں نے کتنا تذکرہ کیا شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر محمد اقبال کا ۔ پچھلے دنوں اقبال کا یوم وصال گذرا ہے سب نیم دانشوروں کو سانپ سونگھ گیا تھا آخر اسکی وجہ ہے کیا ؟ وجہ صرف ایک ہے پورے کلام اقبال میں انھیں ایک مصرعہ بھی ایسا نہیں ملا جسے پیش کرکے یہ کہہ سکیں کہ اقبال سیکولر تھا ۔ قائداعظم کی تقاریر کو تو توڑ مڑوڑ کر انھیں سیکولر ثابت کرنے کی کوشیش یہ کرتے ہیں مگر اقبال کے کلام کو یہ میڈیا کی سیکولر ہٹی پر بیچ نہیں سکتے ۔ تاریخ کا یہ بھی سبق ہے زندہ قومیں محسنوں کے ساتھ ایسا ہرگز نہیں کرتیں جیسا ہمارا نیم دانشور طبقہ کرتا ہے ۔ اس تمہید کو ذہن نشین کرکے اب آئیے جاوید چوھدری صاحب کے کالمز کی طرف ، پورے کالمز کا احاطہ کرنا تو ناممکن ہے چند موٹے نکات آپکی نظر کرتا ہوں موصوف لکھتے ہیں کہ دنیا کی دس ہزار سالہ تاریخ سے مندرجہ ذیل سبق ملتے ہیں ۔

ا ۔ انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا پہلا سبق ہے کہ تاریخ میں آج تک کوئی ملٹری گورنمنٹ نہیں چل سکی، جرنیلوں نے ملک فتح ضرور کیے لیکن یہ آج تک کوئی ملک چلا نہیں سکے ۔
٢ - انسان کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری میں آج تک کوئی مذہبی ریاست بھی نہیں چل سکی - مذہب انسان اور خدا کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، ریاست اور خدا کے درمیان نہیں -
٣- تاریخ کا ایک تیسرا سبق بھی ہے، ہمیں وہ سبق بھی سمجھنا ہو گا، تاریخ بتاتی ہے ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا -
٤ - تاریخ کا چوتھا سبق ہے اور یہ سبق بتاتا ہے دنیا میں مذہب جب بے لچک اور سخت ہو جاتے ہیں تو یہ ختم ہو جاتے ہیں -
٥ - بادشاہوں کا خاتمہ تاریخ کا پانچواں سبق ہے‘ یہ سبق بتاتا ہے وقت کی اکیسویں صدی میں بادشاہت کی کوئی گنجائش نہیں - آج دنیا کے 90 فیصد حصے پر جمہوریت ہے اور اگر کسی جگہ کوئی بادشاہ یا ملکہ ہے تو یہ اپنے محل تک محدود ہے -
٦ - دنیا کی دس ہزار سال کی ریکارڈڈ ہسٹری کا ایک چھٹا سبق بھی ہے اور یہ سبق ہے قانون۔

جاوید چوھدری صاحب کے تین کالمز سے چھ اسباق میں نے اوپر درج کردیے ہیں مجھے مکمل تین کالمز بار بار پڑھنے کے بعد جو سمجھ آئی ہے وہ یہ کہ ریاست کو سیکولر ہونا چاہئیے ۔ جمہوریت بہترین نظام ہے ۔ فوج کا کردار محدود ہونا چاہئیے ۔ اور مذہب کو لچک کا مظاہرہ کرنا چاہئیے ۔ جیسا کہ ہمارے صدر ممنوں صاحب نے کہا تھا کہ علماء کو سود کے لئیے گنجائش پیدا کرنی چاہئیے آج وہی بات ایک دانشور ملفوف انداز میں کررہا ہے یہ سوچ ہوا میں رات و رات نہیں بن گئی اسکی آبیاری دہائیوں سے این جی اوز کررہی ہیں ۔ یہ بھی حالیہ تاریخ کا سبق ہے کہ مذہبی طبقہ پھر بھی لچک کا مظاہرہ کرکے فریق مخالف کی بات سن لیتا ہے دیسی سیکولر شراب کے نشے میں دھت ہٹ دھرمی سے مخالف نکتہ نظر سننے کا روادار نہیں ۔ چوھدری صاحب نے ھندؤستان کی سیکولر ریاست کی بڑی تعریف کی حالانکہ چوھدری صاحب انڈین سٹیٹ سیکولر ہرگز نہیں وہاں اقلیتوں کے ساتھ جو ناروا سلوک برتا جاتا ہے اس سے اہل عقل واقف ہیں لیکن آج معیار دانش ہی بدل چکا ہے بندہ اسوقت تک دانشور ہی نہیں کہلا سکتا جب تک ہندوستان کی تعریف نہ کرے اور اپنے ملک اور آرمی کو بھونکے نہیں ۔ چوھدری صاحب آپکو تاریخ میں جانے کا بڑا شوق ہے آئیے آپکے تخیل کی انگلی تھام کر آپکو ماضی میں لیے چلتا ہوں منظر دیکھیے ایک طرف ہلاکو خان بغداد پر چڑھائی کرنے کی بھرپور تیاری کررہا ہے تمام ریاستی وسائل آلات حرب پر خرچ کررہا ہے اور دوسری طرف عباسی حکمران مستعصم باللہ کے دربار میں اسکا وزیر ابن علقمی کہہ رہا تھا کہ ظل سبحانی سارا بجٹ تو فوج کھا جاتی ہے انکے بجٹ میں کٹوتی کریں بلکہ فوج کی تعداد بھی کم کریں ۔ وزیر نے بادشاہ کو شیشے میں اتار لیا دفاعی بجٹ کم ہوا اور بغداد ہاتھ سے گیا ۔ تاریخ کا موٹا سبق چوھدری صاحب یہ ہے کہ جب فوج کمزور ہوتی ہے ملک فنا ہوجاتے ہیں ۔ آپ دوڑ کر دس ہزار سالہ تاریخ کو جھپا ڈال رہے ہیں دس سالہ تاریخ دیکھ لیں عراق ، لبیا ، مصر کی افواج کو پہلے کمزور کیا اور پھر انکی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ عراق پر فوجی آمر مسلط تھا مگر عراق آج سے بہتر تھا ۔فوج کو کمزور کرنے کے وہی لچھن ہمارے وزیر اور نیم دانشور کررہے ہیں تاریخ کا دوسرا سبق میری نظر میں یہ ہے کہ چوکیدار کی مخالفت وہی کرتا ہے جو خود چور ہو یا چوروں سے ملا ہوا ہو ۔ جعلی جمہوریت کی محبت میں فوج کو کمزور نہ کرو ملک رہے گا تو جمہوریت اور ترقی ہوگی پٹھان کوٹ کے واقع کے بعد ہمارا نیم دانشور اپنی ہی فوج کے خلاف زہر اگل رہا تھا جبکہ آج انڈیا نے کہہ دیا کہ پاکستانی ایجنسیوں کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا ۔ شرم سے نیم دانشوروں کو ڈوب مرنا چاہئیے تھا آج ۔
میں چاہتا ہوں میرا دشمن بھی خاندانی ہو
کھائے شکست تو شرم سے پانی پانی ہو -
(باقی حصہ آئندہ )
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 186692 views System analyst, writer. .. View More