سابق وزیراعظم گیلانی نے امریکہ سے کہا: ڈرون حملوں پر ھمارے احتجاج کو اہمیت نہ دیں
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ امریکہ 2004ء سے اب تک ہماری سرزمین پر 390 ڈرون حملے کرچکا ہے‘ ان حملوں پر احتجاج کی پالیسی مشرف کے آمرانہ اور نیم جمہوری دور کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے جمہوری ادوار میں یکساں رہی ہے۔ مذمت‘ شدید مذمت‘ امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج اور تشویش کا اظہار کیا جاتا ہے مگر امریکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے احتجاج کو اہمیت کیوں نہیں دیتا؟ اس راز سے پردہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وکی لیکس میں یہ کہہ کر اٹھایا گیا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ سے کہا آپ حملے جاری رکھیں‘ ہمارے احتجاج کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ |
|
صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے
مشترکہ اجلاس سے خطاب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی
کیخلاف جنگ میں ناکامی کوئی آپشن نہیں‘ ضرب عضب اپریشن میں 99 فیصد کامیابی
حاصل کرلی ہے‘ باقی ایک فیصد بھی جلد ہو جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان
کی حدود میں ڈرون حملہ افسوسناک اور پاکستان کی خودمختاری کیخلاف ہے۔ ڈرون
کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا‘ یہ بند ہونے چاہئیں۔ ڈرون حملوں کی
مذمت بہت چھوٹا لفظ ہے۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بلوچستان میں امریکی ڈرون
حملے پر شدید ردعمل کا اظہار کرچکے ۔ یہ بلوچستان میں گزشتہ 21 مئی کو پہلا
ڈرون حملہ تھا جس میں افغان طالبان کے امیر ملااختر منصور مارے گئے تھے۔
جنرل راحیل شریف نے حملے پر تشویش کا اظہار امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے کیا،
جنہوں نے راولپنڈی میں اْن سے ملاقات کی تھی۔ فوج کے سربراہ نے اس موقع پر
امریکی سفیر کو باور کرایا کہ ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کی خلاف ورزی
اور دوطرفہ تعلقات کیلئے نقصان دہ ہیں۔ اس طرح کی کارروائیاں امن عمل اور
علاقائی استحکام کیلئے بھی سود مند نہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کی پروردہ حکومت
نے بھی ان حملوں کو پاکستان کی خودمختاری اور سالمیت کیخلاف قرار دیا تھا
مگر امریکہ کے کان پر جوں تک نہ رینگی‘ پیپلزپارٹی کے دور کے بعد مسلم لیگ
(ن) کے موجودہ دور حکومت میں بھی ڈرون حملوں کا تسلسل جاری ہے۔ مشیر خارجہ
سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ امریکہ 2004ء سے اب تک ہماری سرزمین پر 390 ڈرون
حملے کرچکا ہے‘ ان حملوں پر احتجاج کی پالیسی مشرف کے آمرانہ اور نیم
جمہوری دور کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے جمہوری ادوار میں یکساں
رہی ہے۔ مذمت‘ شدید مذمت‘ امریکی سفیر کو طلب کرکے احتجاج اور تشویش کا
اظہار کیا جاتا ہے مگر امریکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کے احتجاج کو
اہمیت کیوں نہیں دیتا؟ اس راز سے پردہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں وکی
لیکس میں یہ کہہ کر اٹھایا گیا تھا کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ
سے کہا آپ حملے جاری رکھیں‘ ہمارے احتجاج کو اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔ خود
حملوں کا کہہ کر اس پر رسمی احتجاج منافقت ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی
برائے امور خارجہ طارق فاطمی کا ملا منصور اختر پر امریکی ڈرون حملے پر
کہتے ہیں کہ ’’نوشکی ڈرون حملے کا عسکری قیادت کو بھی علم نہیں تھا‘ اس
حملے کو انٹیلی جنس کی ناکامی کہنا درست نہیں‘ اس میں کئی اندرونی اور
بیرونی عناصر ملوث ہیں لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جنہیں افشا نہیں کیا جا
سکتا۔ پاکستان ڈرون حملوں پر احتجاج تو کرسکتا ہے مگر ان کا منہ توڑ جواب
دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے پاس ابھی تک ایسی ٹیکنالوجی موجود نہیں
جس سے ڈرون کا پتہ لگایا جاسکے۔‘‘ معاون خصوصی نے جو فرمایا اس سے لگتا ہے
وہ قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں یا وہ خود کو فریب دے رہے ہیں۔ پاک فضائیہ کے
کم از کم دو سابق ایئرچیف اپنی ملازمت کے دوران قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ
پاک فضائیہ کے پاس ڈرون گرانے کی مکمل صلاحیت ہے۔ ایئرڈیفنس اگر ڈرون کی
نشاندہی نہیں کر سکتی تو اس پر اربوں کے اخراجات کرنے کی ضرورت کیا ہے‘ اسے
بند کر دیں۔ پاکستان کے پاس ڈرون کی نشاندہی کرنے اور اسے گرانے کی مکمل
صلاحیت ہے جس کا مظاہرہ بھارت کا قصور کے قریب ڈرون گرا کر کیا جاچکا ہے۔
جان کیری کہتے ہیں کہ ملا اختر منصور پر حملے کے بارے میں پاکستان کو آگاہ
کر دیا تھا‘ انکی وزیراعظم نوازشریف سے بھی بات ہوئی۔ اس موقع پر وزیراعظم
نے تشویش کا اظہار کیا نہ ان حکام نے احتجاج کیا ۔ وزیراعظم کو لندن جا کر
تشویش کا اظہار کرنا یاد آیا۔ پاکستان کے پاس خدا کے فضل سے نہ صرف ڈرون کی
نشاندہی کرنے اور اسے گرانے کی ٹیکنالوجی موجود ہے بلکہ پاکستان خود ڈرون
بنا چکا ہے۔ حکمران طبقہ منافقت اور مصلحت سے کام نہ لے اور جرأت کا
مظاہرہ کرے تو ڈرون گرائے جاسکتے ہیں۔ ایران نے دو امریکی ڈرون مار گرائے‘
ایک کو بحفاظت اتار لیا۔ پاکستان کے پاس تو ایران کے مقابلے میں کہیں زیادہ
معیاری اورجدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔ جنرل راحیل شریف کہتے ہیں کہ ضرب عضب
میں 99 فیصد کامیابی حاصل کرلی ہے تو مزید ایک فیصد کیلئے امریکہ کو ڈرون
حملوں کی اجازت کیوں دی گئی ہے۔ اگر اجازت نہیں دی گئی تو ان ڈرونز کو کیوں
مار نہیں گرایا جاتا۔ بالفرض پاکستان کے پاس ڈرون گرانے کی ٹیکنالوجی نہیں
ہے اور اصل مقصد ڈرون گرانا نہیں ڈرون حملے بند کرانا ہے تو وہ امریکہ پر
دبائو ڈال کر بھی بند کرائے جاسکتے ہیں۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملوں اور مابعد
پاکستان کے اقدامات کی ذرا یاد ذہن میں تازہ کریں‘ پاکستان نے نیٹو کی
سپلائی بند کرکے امریکہ کو اپنے مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا
تھا۔ اب ایسا کیوں نہیں ہو سکتا؟ امریکہ کے ہزاروں فوجی اب بھی افغانستان
میں موجود ہیں‘ انکی ضروریات پاکستان کے ذریعے پوری ہوتی ہیں‘ پاکستان
امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے پر کئی اور طریقوں سے بھی مجبور کر سکتا ہے۔
ضرورت تھوڑی سی جرأت‘ ہمت‘ حمیت کی اور مفادات سے بالاتر ہونے کی ہے۔ جنرل
راحیل شریف سے قوم نے بڑی بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں۔ پاک فوج وطن عزیز
و عظیم کی جغرافیائی سرحدوں کی محافظ ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کیلئے خطرہ بننے
والے عوامل کا فوری تدارک کیا جاتا ہے‘ اسکے بعد حالات کے مطابق معاملات
متعلقہ فورموں پر اٹھائے جاتے ہیں۔ فوج کو یہ فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اسکی
طرف سے ملکی دفاع کیلئے فرائض کی بجاآوری میں کسی ملک سے تعلقات متاثر ہو
سکتے ہیں۔ افواج پاکستان پوری تندہی اور احسن طریقے سے وطن کا دفاع کریں‘
یہی انکی اصل ذمہ داری ہے اور ترجیحاً اسی کو ڈرون حملے روکنا ہونگے۔ ہمارے
حکمرانوں کو بھی اب ملکی سلامتی و خودمختاری کے تقاضوں کے تحت ڈرون حملوں
سے متعلق اپنی پالیسی تبدیلی کرلینی چاہیے ۔ |
|