اپنے گھر کا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا؟
(عابد محمود عزام, Karachi)
پاکستان میں غریب عوام کے لیے دیگر بہت سے
مسائل کے ساتھ ساتھ سستے دام پر رہائش کی عدم دستیابی بھی سنگین مسئلہ بن
چکی ہے۔ مکانات اور زمینوں کی قیمتوں میں تیز رفتاری کے ساتھ ہونے والے
ہوشربا اضافے نے محنت کش، مزدور اورغریب طبقے کو اپنے گھر کے خواب کو حقیقت
میں بدلنے سے محروم کردیا ہے۔ پاکستان کو آزاد ہوئے انہتر برس بیت گئے،
لیکن آج بھی کروڑوں لوگ بے گھر ہیں، ایک بڑی تعداد جھگیوں میں بستی
ہے۔دوسری جانب ہزاروں گز پر مشتمل محلوں میں چند لاکھ لوگ بستے ہیں جو محل
ان غریبوں کے خون چوس کر ہی تعمیر ہوتے ہیں۔ تمام لوگوں کو مکانات فراہم
کرنا انتہائی ضروری ہے، اس کے بغیر انسان، انسان کی طرح گزر بسر نہیں
کرسکتا۔ غریب عوام کو سستے داموں رہائش فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے،
لیکن حکومت نے اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بجائے پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیوں،
قبضہ گروپوں اور نجی ڈیولپرز کو لوٹ مار اور استحصال کی کھلی چھوٹ دے رکھی
ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف نئی نئی امیر اور درمیانے طبقے کی
خوشحال بستیاں بسائی جارہی ہیں، جبکہ دوسری طرف ملک کے تمام شہروں میں
لاکھوں کی تعداد میں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور ایک
بڑی تعداد ویران جگہوں پر کچی آبادیاں بسا رہے ہیں، جو ہر قسم کی بنیادی
سہولت اور ضرورت سے محروم ہیں۔ مکانات کے کرایے آسمان سے باتیں کررہے ہیں،
محنت کش خاندان کے خاندان ایک کمرے میں رہنے پر مجبور ہیں، بہت سوں کے پاس
رہنے کو ایک کمرہ بھی نہیں ہے، وہ کھلے آسمان تلے پڑے زندگی بسر کررہے ہیں۔
عوام کو رہائش کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن پاکستانی
حکومت اس ذمے داری سے خود کو مبرا سمجھتی ہے۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے کچی
آبادیوں سے متعلق کیس میں کم قیمتوں والی ہاﺅسنگ اسکیم کے حوالے سے وفاقی
اور صوبائی حکومتوں کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کم قیمتوں والی ہاﺅسنگ
اسکیموں کے حوالے سے دوبارہ رپورٹ طلب کر لی ہے، جبکہ جسٹس شیخ عظمت سعید
نے ریمارکس دیے ہیں کہ سی ڈی اے خود اسلام آباد میں کچی آبادیوں کو سپورٹ
کرتی ہے۔ پنجاب میں حالیہ بنائی گئی کم قیمت والی ہاﺅسنگ سوسائٹی محض
دکھاوا ہے۔ اپر مڈل اور لوئر مڈل کے لیے تو اسکیمیں ہیں، غریبوں کے لیے
نہیں ہیں۔ ملک میں 50 سے 60 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے
ہیں۔ غریبوں کو مناسب قیمت پر چھت فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات کے ریڈار
میں شامل ہی نہیں ہے۔ واضح رہے چند ماہ قبل بھی سپریم کورٹ نے کم آمدنی
والے اور بے گھر افراد کو رہائشی سہولیات فراہم کرنے سے متعلق وفاقی اور
صوبائی حکومتوں کوآخری موقع دیتے ہوئے دو ماہ میں قانون سازی کرنے کا حکم
دیا تھا،سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر عدالتی حکم پر عمل نہ ہوا تو
حکومتوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ جسٹس دوست محمد کا کہنا تھا کہ
حکومت دہشت گردی کی جنگ میں کھربوں روپے لگا رہی ہے، مگر غریب اور بے آسرا
لوگوں کو سستی اور مفت رہائش فراہم کرنے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔
یہ حقیقت ہے کہ بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی حکومت کی آئینی اور قانونی
ذمہ داری ہے، لیکن لگتا ہے کہ حکومت کو غریب اور محنت کش مزدور طبقے کی
بنیادی ضروریات سے کو سروکار ہی نہیں ہے۔اگرچہ رہائش کا مسئلہ دیگر ممالک
میں بھی ہے، لیکن وہاں حکومت کی طرف سے عوام کو مختلف اسکیموں کے ذریعے
رہائش فراہم کی جاتی ہے، گزشتہ دنوں لندن کے منتخب ہونے والے پاکستانی نژاد
مئیر صادق خاں نے بے گھر افراد کو سستی رہائش فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے،
جس کو بہت سراہا گیا ہے، لیکن پاکستان میں کوئی حکمران غریب عوام کو سستی
رہائش فراہم نہیں کرتا۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ملک میں صرف امیر ہی بستے ہیں، اسی وجہ سے سرمایہ دار
طبقے پر مشتمل حکومتیں غریب عوام کے لیے سرکاری رہائشی ا سکیموں کی منصوبہ
بندی نہیں کرتیں۔ حکمرانوں کو ان عوام کی پریشانیوں کا رتی بھر احساس نہیں،
جن غریب عوام سے ووٹ لیتے ہیں۔ اس مہنگے دور میں ایک غریب آدمی کے لیے روٹی،
کپڑے اور صحت و بچوں کی تعلیم کا انتظام کرنا انتہائی مشکل ہے۔ ایک مزدور
اور درمیانے درجے کا ملازم ساری زندگی بچت کر کے بھی مکان کی جگہ خرید کر
ایک دو کمرے کا مکان نہیںبنا سکتا۔مکان بنانا اس کی ساری زندگی کا خواب
ہوتا ہے، جو آخر دم تک خواب ہی رہتا ہے۔یوں تو ملک میں جگہ جگہ سرمایہ
داروں نے ہاﺅسنگ اسکیمیں شروع کی ہوئی ہیں، لیکن یہاں قیمتیں اتنی مہنگی
ہیں کہ غریب آدمی یہاں جگہ خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ حکومتی نااہلی
کا ہی نتیجہ ہے کہ بلڈرز نے جو جگہ جگہ رہائشی اسکیمیں شروع کی ہوئی ہیں،
ان میں مناسب ضروریات زندگی کی مکمل طور پر فراہمی نہ ہونے کے باوجود ان کی
قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہوتی ہیں اور ہر کوئی اپنی مرضی سے قیمت
مقرر کرتا ہے، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی روک تھام نہیں ہوتی، بلکہ الٹا
بلڈرز پیسے لے کر ان کو مکمل طور پر من مانی کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جب خواہش ہوتی ہے تو راستہ بن ہی جاتا ہے لیکن یہاں تو
حکومتوں کو عوام کو رہائش فرام کرنے کی خواہش ہی نہیں ہے، کیوں کہ ان کے
خیال میں ملک میں صرف امیر ہی بستے ہیں جن کے اپنے محلات ہیں۔ ملک کے چاروں
صوبوں میں حکومتیں سرکاری زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیموں کی منصوبہ بندی کریں
اور ان اسکیموں میں کم از کم دو دو سو مربع گز کے پلاٹ بنائیں اور ضرورت
مندوں کو فراہم کریں تو ضرورت مندوں کی پریشانی کافی حد تک کم ہوسکتی ہے۔
رہائشی اسکیموں کو ایسے علاقوں میں قائم کیا جا نا ضروری ہے جہاں پانی
موجود ہو، جہاں آنے جانے کے لیے سڑک موجود ہو، جہاں پبلک ٹرانسپورٹ پہلے سے
چلتی ہو۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں تو کوئی قابل ذکرسکیم بنائی ہی نہیں گئی
اور اگر کوئی بنائی بھی گئی ہے تو پانی نہیں، بجلی نہیں، گیس نہیں،
ٹرانسپورٹ نہیں۔ گھر محض در و دیوار اور چھت کا نام نہیں ہوتا بلکہ یہ
مسئلہ پینے کے صاف پانی کی فراہمی، گندگی کی نکاسی کے بہترین نظام، بجلی کی
سستی اور لگاتار فراہمی، صاف ستھری گلیوں اور سڑکوں سمیت کئی دوسری بنیادی
سہولتوں کی یقینی فراہمی کے بغیر حل نہیں ہوتا۔ایسی رہائشی بستیوں میں
ملازمت پیشہ، محنت کش یا غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ کیوں کر رہائش
اختیار کر سکتے ہیں۔ حکومتوں کی اس کمزوری سے سرمایہ کار اور بلڈر فائدہ
اٹھاتے ہیں۔ غریب شہروں میں یا قریب ترین علاقوں میں کچی آبادیاں بساتے ہیں۔
کرایہ کے مکانات میں رہائش رکھنے والے کم تن خواہ والے سفید پوش لوگ بھی
کرایوں میں کئی گنا اضافے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔رہائشی سہولیات کی
فراہمی، منصوبوں کا آغاز، کچی آبادیوں اور بے ہنگم پرانے مکانات کی جگہ نئے
اور جدید مکانات کی تعمیر اور مفت فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان منصوبوں
کو بدعنوانی اور اقربا پروری سے پاک رکھا جائے۔ لاکھوں نئے گھروں کی تعمیر
کے نتیجے میں نہ صرف صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہوگی بلکہ لاکھوں افراد کو
روزگار بھی فراہم ہوگا۔ شہری آبادی میں دو کنال سے بڑے گھروں کی تعمیر پر
پابندی لگادی جائے۔ سرکاری اہلکاروں کے زیر استعمال تمام بڑے سرکاری گھروں
کو چھوٹے مکانات میں تبدیل کرکے لوگوں کو فراہم کیے جائیں۔ سرکاری زمینوں
پر مکانات تعمیر کر کے ضرورت مندوں میں تقسیم کیے جائیں۔ مکانات کی تعمیر،
سیوریج، سڑکوں، پانی، گیس کی پائپ لائنوں، بجلی کی فراہمی، اسکولوں اور
اسپتالوں کی تعمیر اور دوسری سہولتوں کی فراہمی کے لیے ٹھیکے داری نظام ختم
کیا جائے۔ نئے شہر تعمیر کیے جائیں، تاکہ شہروں پر آبادی کے بوجھ کو کم کیا
جاسکے اور دور دراز علاقوں میں تمام بنیادی ضروریات زندگی فراہم کی جائیں
گی تاکہ آبادی کی منتقلی کو روکا جاسکے۔ تعمیر نو کے ان منصوبوں اور
پروگرام پر محنت کش عوام اور ماہرین کی کمیٹیوں کے ذریعے عملدرآمد کروایا
جائے۔ |
|