وکلا عقل و شعور اور حالات کا مکمل ادراک
بھی رکھتے ہیں۔ ان کی وفاداریاں خریدنا یا فروخت ہونا ان کا ضمیر ہے اور یہ
تو ملکی آئینہ ہے جسے خدشات زیادہ ہیں وہ پہلے اس آئینے میں اپنا چہرہ بھی
دیکھ لیتے تو شاید انہیں کہنے کی ضرورت نہ پیش آتی۔
اختیارات کا ناجائز استعمال اس قوم کے حکمرانوں کا خاصہ ہے وفاقی وزیر
قانون متنازع ڈاکٹریٹ کے حامل ائیر فورس کا چارٹرڈ جہاز دو دن کے لئے لے کر
کوئٹہ اور جنوبی پنجاب پہنچے۔ وہاں انہوں نے کروڑوں روپے کے پیکیج کا اعلان
کیا۔ ان پیکیجز کی اہمیت زیادہ ہو جاتی ہے کہ سپریم بار کونسل کے الیکشن
قریب ہیں حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کروڑوں روپے فیسوں کی مد میں سینئر
وکلا کی خدمات حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
ادھر پنجاب حکومت بھی کچھ کم نہیں وہ تو سینئر وکلا کو اپنے کیسوں کے لئے
ہائر کر رہے ہیں اور اس مد میں کروڑوں روپے فیس کے چیک بھی ایشو کر دئے ہیں۔
مطمع نظر ایک لیکن انداز جدا۔ یہ صوابدیدی اختیارات کا معاملہ ہے اس سے سب
نے فیض حاصل کیا ۔ اعتراض تو کرتے اچھے لگتے ہیں جن کے دامن صاف ہوں۔
حیرت انگیز طور پر علی احمد کرد ججوں کی بحالی کے بعد سے پس منظر میں چلے
گئے۔ وہ بھی تو ہر اول دستے میں تھے لگتا ہے انہیں مقاصد کے لئے استعمال
کیا اور بھلا دیا۔
اکتوبر 99 سے 2008 تک کیا سیاست دانوں نے اپنی غلطیوں سے کچھ بھی سبق حاصل
نہیں کیا۔ 88 سے 99 دس سال پاکستانی قوم کے لئے بد ترین کرپشن کے سال تھے۔
ملک بدترین مالی بدعنوانیوں میں عالمی مالیاتی اداروں کے آگے سرنگوں ہو گیا۔
پرویز مشرف نے نیب کو کافی مؤثر کر کے سیاسی لٹیروں کا پورا کچا چھٹا کھول
کر رکھ دیا۔
عوام کو امید تھی کہ پرویز مشرف اس گند کو صاف کر کے کرپشن کو ملکی افق سے
نکال باہر کریں گے۔ اگر وہ اس گندگی کو صاف کر کے الیکشن کراتے تو ممکن تھا
کہ وہ واقعات نہ ہوتے لوگوں کو حکومتی رٹ چیلنج کرنے کی نوبت ہی نہ ہوتی سب
کو اپنی پڑی ہوتی۔ لیکن افسوس اس میں تو مزید نکھار پیدا ہو گیا۔ اس بار
عدلیہ کا کردار میں جانب داری کی جھلک نظر آ رہی ہے۔ لیکن اس بار ٹکراؤ
فوجی ڈکٹیٹر سے نہیں سیاست دانوں سے ہے۔ اور سیاست دان لوگوں کی کمزوری اور
قومی مزاج شناس ہوتا ہے۔
وکلا تحریک دراصل سیاست دانوں کا شو تھا اور امریکہ اشارے پر کھیلا گیا اس
کی بھی خواہش تھی کہ اب پرویز مشرف سے اس سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا ہے۔
امریکیوں نے پرویز مشرف کے اقتدار چھوڑنے کی اطلاع حکمران اور فرینڈلی
اپوزیشن کو رائیونڈ اپنے پانچ رکنی ٹیم کے ساتھ جا کر دی گئی تھی۔ اور یہ
انتباہ بھی تھا کہ آپ کوئی مشکلات یا کوئی کاروائی نہیں کریں گے۔ اسلئے
مشرف مستعفی ہو کر باہر چلدیے کوئی سیاست دان یا حکومت پرویز مشرف پر مقدمہ
نہیں چلائے گی۔
ججوں کی بحالی میں وکلا برادری نے تو بڑی یکجہتی دکھلائی اب کیوں یہ
وفاداریاں بیچ رہے ہیں۔ اس موقع پر وکلا نے وزیر قانون سے وکلا کے لئے
کالونی کی بھی فرمائش کی تو موصوف نے یقین دلایا کہ اس سلسلے میں جلد
بھرپور کردار ادا کریں گے۔
وکلا تو قانون اور انصاف بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وقت کا تقاضہ تو یہ کہتا
ہے کہ ایسے کوئی بھی پیکیج مسترد کر دیں جس سے وکلا کے نام پر حرف آتا ہو۔
ملک ایک بار پھر ٹکراؤ دھونس اور دھمکیوں کی پالیسی پر جاتا نظر آ رہا ہے۔
میں اس کو سیاسی سرکس سے تشبیہ دیتا ہوں۔ اس سرکس میں عوام کی تفریح اور ان
کو بہلانے سامان کر رہے ہیں۔ کوئی شیر کے کرتب دکھا رہا ہے کوئی جھولے جھول
رہا ہے کوئی قلابازیاں کھا رہا ہے کوئی موت کے گولے میں موٹر سائیکل چلا کر
لوگوں سے داد وصول کر رہا ہے۔
یہ سب حرکات عوام دیکھتے دیکھتے اب اکسانے لگے ہیں۔ اور ویسے بھی لوگ فوائد
حاصل کر چکے ہوتے ہیں مزید کے لئے تو تبدیلی چاہتے ہیں۔
لیکن تبدیلی کا رستہ امریکیوں کے ہاں سے ہو کر گزرتا ہے۔ اسے ملک کے عوام
اچھی طرح جانتے ہیں۔
عدلیہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سیاسی سرکس لگائی بیٹھی ہیں اور عوام کی
توجہ صل معاملے یعنی امریکی ڈرون حملے سے ہٹانا چاہتی ہیں۔ غیر ملکی مداخلت
پر اب تو احتجاج بھی کرتی نظر نہیں آتیں نہ حکمران نہ فرینڈلی اپوزیشن۔ نہ
اسمبلی میں قرارداد آتی ہے۔ معلوم نہیں یہ لوگ اپنے ملک سے وفاداریاں کب
نھائیں گے۔ |