چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی
بالآخر مخدوم امین فہیم اور رحمان ملک کے بعد وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے
بھی مولانا فضل الرحمن کی وزراء کالونی میں واقع اُس سرکاری رہائش گاہ(جو
حکومت کی جانب سے وزیر کا درجہ اور مراعات دینے کے باعث دی گئی ہے) کی
یاتراکر ہی لی، دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی اِس ملاقات میں وزیر اعظم
نے مولانا محمد خان شیرانی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنانے سمیت
دیگر مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کرا کر آخر کار مولانا کو منا ہی لیا،
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اس سے قبل یہ کہہ چکے تھے کہ اگر مطالبات
تسلیم نہ کئے گئے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہوجائیں گے، اسی وجہ سے گزشتہ دنوں
انہوں نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے مجلس عمل کو فعال کرنے کا عندیہ دیکر
غیر فعال مجلس عمل کے رہنماؤں کی پر تکلف دعوت کا بھی اہتمام کیا تھا، تاہم
لاہور کے اجلاس میں جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے
مجلس عمل کی فعالی سے پہلے اُن سے حکومت سے علیحدہ ہونے کا مطالبہ کیا تو
وہ یہ کہہ کر دامن بچا گئے کہ پہلے مجلس عمل کو بحال کیا جائے پھر وہ حکومت
چھوڑنے کا سوچیں گے، باخبر ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کے ایم ایم
کے اجلاس بلانے اور رہنماؤں کے ساتھ رابطہ رکھنے کی اصل وجہ یہ تھی کہ ایک
طرف حکومت کو مستقل دباؤ میں رکھا جائے تو دوسری طرف اگر وسط مدتی الیکشن
کی کوئی صورت پیدا ہو تو حکومتی گاڑی چھوڑ کر ایم ایم اے کا پرچم اٹھا لیا
جائے، موجودہ صورتحال میں غیر فعال مجلس عمل کا اجلاس بلاکر مولانا اپنی
حکمت عملی میں بظاہر کامیاب نظر آتے ہیں اور وہ وزیر اعظم جنہوں نے کابینہ
کے بجٹ اجلاس سے جے یو آئی کے وزراء کے بائیکاٹ کے موقع پر برہمی کا اظہار
کرتے ہوئے اُن سے استعفے دے کر جانے کا مطالبہ کیا تھا ،26جون کو خود
مولانا کو منانے کیلئے اُن کی سرکاری رہائش گاہ پہنچ گئے، اِس ملاقات کے
بعد مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ وہ حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھیں
گے، انہوں نے کہا کہ جمہوریت میں اختلافات چلتے رہتے ہیں، ہم نظام بچانے
کیلئے حکومت میں شامل ہیں، لیکن دوسرے ہی روز لاڑکانہ میں مولانا نے لوگوں
کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں عہدوں اور وزارتوں کا کوئی لالچ نہیں،
انہوں نے کہا”ہم وزارتوں اور عہدوں کے لالچی نہیں بلکہ نظریاتی ترجیحات
کیلئے حکومت میں کا حصہ ہیں، اگر وہ پیش رفت (یعنی مطالبات منظور) کریں گے
تو خود کو اتحادی تصور کرینگے ورنہ نہیں.....۔“
قارئین محترم ایسا پہلی بار تو نہیں ہوا ہے، مولانا فضل الرحمن تو ہر حکومت
میں اسی وجہ سے شامل رہتے ہیں کہ اُن کے پیش نظر جمہوری نظام کی بقاء اور
نظریاتی ترجیحات ہوتی ہیں، اب وہ نظریاتی ترجیحات مالی منفعت، جاہ و منصب
اور ذاتی مراعات کے گرد گھومتی ہوں یا جمہوری نظام کسی فوجی آمریت کی کوکھ
سے جنم لیتا ہو، مولانا ہمیشہ اپنی نظریاتی ترجیحات کیلئے اُس جمہوری نظام
کو بچانے کی تگ و دو ضرور کرتے ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اُس جمہوری نظام
کو بچاتے بچاتے مولانا کو کچھ نہ کچھ فائدے، مراعات اور مفادات حاصل ہوجاتے
ہیں، دراصل مولانا فضل الرحمن کارزار سیاست کے ایک ایسے شہسوار ہیں، جنہوں
نے اپنے اسی انداز سیاست سے ملک کے سادہ لوح عوام کے ساتھ ساتھ دیندار طبقے
کو بھی حیران و ششدر کر رکھا ہے، اُن کی اعلیٰ ترین سیاسی بصیرت کا اِس سے
بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ عوام تو عوام خود ماہر سیاستدان بھی اُن کی
اِس طرز سیاست پر حیران اور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ مولانا کی سیاست کے
رنگ ڈھنگ اتنے انوکھے، نرالے اور عقل و خرد میں نہ آنے والے کیوں ہیں؟
مولانا فضل الرحمن، مفتی محمود کے ایسے ہونہار اور لائق فرزند ہیں جنہوں نے
سیاست میں آنے کے بعد سب سے پہلا کام ہی یہ کیا کہ دنیا کو ہی اپنا اوڑھنا
بچھونا بنالیا اور اُن کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار، وزارتیں اور شاہانہ
ٹھاٹ باٹ کے مزے لوٹنا ہی رہ گیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مولانا فضل الرحمن پرویز مشرف کے دور
میں بھی”اصولی سیاست“ کر رہے تھے اور آج بھی اصولی سیاست کر رہے ہیں، یہ
الگ بات کہ آپ اور ہم جیسے چھوٹے دماغ کے لوگ اُن کی اِس مشہور و معروف
اصولی سیاست کو شاید ہی کبھی سمجھ سکیں، قربان جائیے مولانا کی اِس اصولی
سیاست پر کہ قاضی حسین احمد جیسا زیرک سیاستدان بھی اُن کے دامِ تزویر سے
خود کو نہ بچاسکا اور سترہویں ترمیم پر صاد کر بیٹھا، لیکن جب اگلے سال
پرویز مشرف نے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تو قاضی حسین احمد بھونچکا رہ
گئے، یقیناً پرویز مشرف کے اس طرز عمل پر مولانا فضل الرحمن کو کوئی حیرت
نہیں ہوئی ہوگی اور نہ ہی انہیں غصہ آیا ہوگا کیونکہ اُن کی اور پرویز مشرف
کی اصولی سیاست میں بڑی مماثلت پائی جاتی تھی، اِس کا ثبوت یہ ہے کہ جب
پارلیمنٹ کے ذریعے دوسری بار صدر منتخب ہونے کا مرحلہ آیا تو مولانا فضل
الرحمن نے سرحد حکومت کو برقرار رکھ کر صدر کے انتخابی کالج کو مکمل رکھا
اور قاضی حسین احمد سمیت مسلم لیگ(ن) لکیر ہی پیٹتے رہ گئے، گستاخی معاف آپ
مولانا کے انداز سیاست سے تو اختلاف کرسکتے ہیں، لیکن اُن کی شاطرانہ
صلاحیتوں سے انکار نہیں کر سکتے، حقیقت یہ ہے کہ ابن الوقتی اُن کی شناخت
اور حکمرانوں کی کاسہ لیسی اُن کی پہچان ہے، ہمیشہ اُن کا ہاتھ سیاست کی
نبض پر رہتا ہے اور خراب سے خراب حالات میں وہ بھی اپنے لئے کوئی نہ کوئی
دلیل، گنجائش اور راستہ نکال ہی لیتے ہیں، انہیں دلائل کے ساتھ بات کرنے
اور اپنے مدمقابل کو لاجواب کرنے کا فن خوب آتا ہے اور اُن کی انہی خوبیوں
کی وجہ سے آج اُن کا ”اصولی مؤقف“ اردو میں ایک مشہور ضرب المثل بن چکا ہے۔
ہمیں حیرت ہے کہ مصالحتی اور مفاہمتی سیاست کے خوگر مولانا فضل الرحمن نے
اُس وقت کوئی مصالحتی کردار کیوں ادا نہیں کیا، جب جامعہ حفصہ کی معصوم
بچیوں کو گھیرے میں لے کر فاسفورس بموں کے ذریعے کوئلہ بنانے کی منصوبہ
بندی ہو رہی تھی، اگر وہ اپنے ساتھ علمائے کرام کو لے کر جامعہ حفصہ کے
سامنے کھڑے ہو جاتے اور صرف اتنا کہہ دیتے کہ پہلے ہمیں گولی مارو اس کے
بعد ہماری لاشوں سے گزر کر جامعہ حفصہ کی بچیوں پر گولی چلاﺅ تو یقین جانئے
کہ جنرل مشرف بے بس ہو جاتا اور پاکستان کی تاریخ کا اتنا بڑا سانحہ رونما
نہ ہوتا، وزیرستان سے لے کر باجوڑ تک اور باجوڑ سے لیکر سوات تک بے گناہ
سنی العقیدہ شہریوں پر نام نہاد اسلام پرستوں نے ظلم کے پہاڑ توڑے، لیکن
مولانا نے کسی لانگ مارچ کی کال نہیں دی، کیونکہ وہ لانگ مارچوں پر نہیں
مصالحت اور مفاہمت کی سیاست پر یقین رکھتے ہیں، طرفہ تماشا تو دیکھئے کہ
پاکستانی عوام ہی نہیں کشمیری عوام بھی مولانا کی مصالحتی اور مفاہمتی
پالیسی کے خوف سے تھر تھر کانپتے ہیں، جن دنوں یہ خبریں اڑ رہی تھیں کہ
مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنایا جارہا ہے، اُن دنوں ہم نے پاکستان
میں موجود کشمیری مہاجرین کے چہروں پر ہوائیاں اڑتی دیکھیں، سال گزشتہ جب
اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجاکر رکھ دی، لیکن مولانا نے اسرائیلی ظلم
و بربریت کے خلاف بھی کوئی بھی مؤثر آواز بلند نہیں کی، حالانکہ وہ چاہتے
تو اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں کو سڑکوں پر لاسکتے تھے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی
کے بھی زبردست مخالف تھے، لیکن جب افتخار محمد چوہدری صاحب بحال ہوگئے تو
انہوں نے آگے بڑھ کر انہیں بحالی کی مبارکباد دی، کیا پاکستان میں اِس سے
بڑھ کر اصولی سیاست کا مظاہرہ کوئی اور کرسکتا ہے؟ آپ نے دیکھا ہوگا کہ
قومی معاملات میں بات کرتے ہوئے مولانا کے چہرے پر اکثر سنجیدگی چھائی رہتی
ہے، اگر بیچ میں کہیں ہنستے ہیں تو اُن کی اس ہنسی پر قربان جانے کو جی
چاہتا ہے، ایک مرتبہ اُن سے ایک منہ پھٹ صحافی نے پوچھ لیا، مولانا وعدہ
خلافی پر قرآن و حدیث کیا کہتے ہیں تو مولانا نے سوال کا جواب دینے سے ہی
انکار کر دیا، صحافی نے تو یہ سوچ کر سوال پوچھا کہ مولانا سیاسی شخصیت کے
ساتھ ساتھ ایک عالم دین بھی ہیں لیکن اُس بے چارے کو کیا معلوم کہ مولانا
جب سیاسی مفاہمتی مشن کو لے کر نکلے ہوئے ہوں تو وہ دین کے حوالے سے پوچھے
گئے سوالوں کا جواب نہیں دیتے، یہ بھی سچ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو
حکومتی کشتی میں سوار ہونے کا طویل اور کامیاب تجربہ ہے، وہ آصف زرداری
حکومت کی کشتی میں یہ کہہ کر سوار ہوئے تھے ”ناخدا جس کا کوئی نہ ہو، اس کا
خدا ہوتا ہے“ لیکن آج کل انہوں نے زیرِ لب کہنا شروع کردیا ہے کہ ”نہ خدا
ہی ملا نہ وصالِ صنم“یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مولانا فضل الرحمن
اور اسفند یار ولی صوبہ سرحد کی سیاست میں ایک دوسرے کے سخت ناقد اور حریف
رہے ہیں، لیکن بھلا ہو سیاسی مفاہمت کا کہ دونوں صاحبان نے بیک وقت آصف
زرداری کا پیغام رساں بن کر شریف برادران سے ملاقاتیں کرنے کی ذمہ داری
قبول کی، دراصل مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی کی مفاہمت اور مصالحت
آصف زرداری کی کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کی کوشش تھی، کیوں کہ ُاس کشتی میں
وہ خود دونوں بھی سوار تھے،”ہائے رے اقتدار کی مجبوریاں“ کیا کیا کراتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی اسی انداز سیاست کو ”ترجمان الحدیث “ یوں بیان کرتا
ہے کہ ”مولانا کے بیشتر سیاسی معاملات اسلام اور مسلمانوں کے لئے شرمندگی
اور ندامت کا باعث بنے ہیں، وہ ہر حکومت کو بلیک میل کر کے مفادات حا صل
کرتے ہیں اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہوتا ہے،
مولانا کی طرف سے حکومت کو ستمبر تک نفاذ اسلام کی ڈیڈ لائن دینا اور پھر
اسے واپس لینے کے حوالے سے جریدہ لکھتا ہے کہ مولانا کا اسلام وہ والا نہیں
ہے جس کا اللہ نے حکم دیا ہے بلکہ جس اسلام کی وہ بات کرتے ہیں وہ انہیں
اچھی طرح مل گیا ہے، دراصل مولانا امریکہ کی طرف سے ملنے والی امداد میں
اپنا حصہ بٹورنے کے لئے یہ ناٹک کر رہے تھے،زرداری کے ملک میں واپس آنے کے
بعد ایک ہی ملاقات میں سارے معاملات طے ہوگئے تو مولانا بھی مطمئین ہو گئے
اور نفاذ اسلام کا مطالبہ واپس لے لیا، البتہ امریکہ کی طرف سے کڑی شرائط
کے باعث مولانا فضل الرحمن سمیت امریکہ کے ہاتھوں ملک اور قوم کو فروخت
کرنے والے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔(شذرہ”مولانا “کا اسلام....زندہ
باد“ ماہنامہ ”ترجمان الحدیث“ اکتوبر ۲۰۰۹ءفیصل آباد)
درحقیقت مولانا فضل الرحمن پاکستان کی سیاست کا انتہائی اہم کردار ہیں، ان
کے سیاسی بیانات بھی بہت دلچسپ اور ذومعنی ہوتے ہیں، مثلاً کچھ عرصہ قبل
انہوں نے فرمایا تھا کہ میں صدر آصف علی زرداری کا ساتھی ہوں اور اس پر
مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن کے اس بیان سے یہ نہیں معلوم
ہوتا کہ آخر صدر آصف علی زرداری کے کسی سیاسی حلیف کو یہ وضاحت کرنے کی
ضرورت ہی پیش کیوں آئی کہ انہیں صدر آصف زرداری کا ساتھی ہونے پر کوئی
شرمندگی نہیں، اس کا ایک مطلب تو یہ سمجھ آتا ہے کہ جناب آصف زرداری کی
سیاست کے کئی پہلو قابل اعتراض ہیں، لیکن میں اُن کے ساتھ کھڑا ہونے پر
شرمندہ نہیں ہوں، مولانا فضل الرحمن جنرل پرویز مشرف کے دور میں قائد حزب
اختلاف تھے، پرویز مشرف کو جب آئین میں 17ویں ترمیم کی ضرورت پیش آئی اور
فوجی آمروں کا من پسند اختیار پرویز مشرف نے حاصل کرنا چاہا تو اُس وقت
مولانا فضل الرحمن کندھے سے کندھا ملا کر فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ آرٹیکل 58 ٹو
(بی) کو دوبارہ آئین میں شامل کرانے کیلئے کھڑے تھے، واضح رہے کہ ایک اور
فوجی آمر جنرل ضیاءالحق نے پہلی دفعہ آرٹیکل 58 ٹو (بی) متعارف کروائی تھی،
اس آرٹیکل کی تلوار سے ایک بار خود جنرل ضیاءالحق دو مرتبہ غلام اسحاق خاں
اور ایک دفعہ فاروق لغاری نے اپنے اپنے دور میں پارلیمنٹ کو قتل کیا، جسے
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے مل کر دو تہائی اکثریت سے ختم کر دیا تھا،
لیکن پرویز مشرف کے دور میں فوجی صدر کو دوبارہ پارلیمنٹ توڑنے کا اختیار
مولانا فضل الرحمن جیسے سیاست دانوں کے تعاون سے ایک مرتبہ پھر فراہم کر
دیا گیا، یہ کردار اس دور کی پارلیمنٹ کے ارکان کیلئے یقیناً باعث شرمندگی
تھا کہ وہ خود پارلیمنٹ کو توڑنے کا اختیار ایک فوجی آمر کو سونپ رہے ہیں،
لیکن اس دور میں بھی اور بعد میں بھی کسی مرحلہ پر مولانا فضل الرحمن نے
ایک فوجی ڈکٹیٹر کو قوم کی منتخب پارلیمنٹ توڑنے کے لئے آئینی ترمیم کیلئے
مطلوبہ دو تہائی اکثریت کا تعاون فراہم کرنے پر کبھی شرمندگی کا اظہار نہیں
کیا، حالانکہ اس دور میں اپوزیشن کے اس کردار سے دنیا بھر میں پاکستان کی
بہت بدنامی ہوئی تھی، لوگ حیران تھے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں یہ کس طرح
کے ارکان ہیں جو خود ایک فوجی آمر کو پارلیمنٹ کے ڈیتھ وارنٹ جاری کرنے کا
اختیار سونپ رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو پارلیمنٹ توڑنے کا
آمرانہ اختیار حاصل کرنے میں کبھی کامیابی نہ ہوتی اگر مولانا فضل الرحمن
اُن کا ساتھ نہ دیتے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا فضل الرحمن وطن عزیز کے ایک ایسے سیاست دان ہیں
جن کے بارے میں آپ کبھی بھی وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کس کے ساتھ
ہیں اور کس کے خلاف، کبھی وہ طالبان کے دکھ میں روتے ہیں، تو کبھی پاکستان
کے، کبھی طالبان کے نعرے مارتے ہیں تو کبھی گو طالبان گو چلاتے ہیں، کبھی
طالبان کے خیالات پر تف کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی ان کی پذیرائی میں طالبان
سے زیادہ طالبان کے وفادار نظر آتے ہیں، اُن کا کمال یہ ہے کہ وہ حکومت میں
رہ کر اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر وزارت کے
مزے لوٹتے ہیں، اپنے اس فن میں طاق ہونے کی وجہ سے آج وہ اپنی ذات میں ایک
انجمن بن گئے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن ایک ایسے چکری سیاست
دان ہیں جو دوسروں کو چکر دے کر اپنا مقصد حاصل کرلیتے ہیں، انہوں نے جنرل
مشرف کیساتھ آٹھ سالہ دور میں اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کے مزے ایک ساتھ
لینے کا نیا ریکارڈ قائم کیا ہے، عام زندگی میں تو ایسے شخص کو دوغلا، بے
ضمیر اور دھوکے باز کہا جاتا ہے جو دشمنوں اور دوستوں دونوں سے اس طرح بے
وقوف بنا کر رکھے کہ ہر کوئی سمجھے کہ وہ ان کا ساتھ دے رہا ہے، لیکن آج کی
سیاسی زندگی میں ایسے شخص کو سیاست کا کامیاب کھلاڑی کہتے ہیں، ایم ایم اے
میں یہ کریڈٹ اکیلے مولانا فضل الرحمٰن کو ہی جاتا ہے جنہوں نے ایل ایف او
کو آئین کا حصہ بنانے کیلئے ایم ایم اے کو جنرل مشرف کی مدد کیلئے راضی کیا
اور اس کے بدلے سرحد کی پوری حکومت، بلوچستان کی آدھی اور قائد حزب اختلاف
کی کرسی حاصل کی، یہ انہی کا اعجاز ہے کہ اے پی ڈی ایم کے استعفوں کے
باوجود سرحد اسمبلی نہیں ٹوتی اور پرویز مشرف دوبارہ صدر منتخب ہوگئے، کمال
ہے کہ ایک طرف مفتی محمود ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا ساتھ دیتے ہیں تو
دوسری طرف اُن کے بیٹے مولانا فضل الرحمان جنرل مشرف کی آمریت کو مضبوط
بنیاد فراہم کرتے ہیں، اگر ایک طرف مفتی محمود جنرل ضیا کی آمریت کو جائز
سمجھتے ہیں تو دوسری طرف مولانا فضل الرحمان سابقہ فوجی آمر پرویز مشرف اور
موجودہ سیکولر حکمران آصف زرداری کا ساتھ دیتے ہیں، پاکستان سیاست کا المیہ
یہ ہے کہ جب بھی کوئی سیکولر جماعت برسراقتدار آتی ہے وہ اِن نام نہاد
مذہبی سیاستدانوں کو ضرور اپنے ساتھ ملاتی ہے، جس طرح جنرل مشرف کے دور کے
درباری مولوی آج موجودہ حکومت کی جھولی میں بیٹھے ہوئے اُس کے ہاتھ مضبوط
کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح کوئی بعید نہیں کہ کل یہ کسی اور کے ہاتھ مضبوط
کرتے نظر آئیں گے، سابق وفاقی وزیر شیر افگن نیازی درست کہتے ہیں کہ مولانا
فضل الرحمن اقتدار کی خاطر اپنے نظریات تبدیل کرنے میں عار محسوس نہیں
کرتے، اُن کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت نے کبھی کھل کر
کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت نہیں کی، لیکن وہ کشمیر کمیٹی کے
چیئرمین بن کر بیرونی دوروں کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں، وہ ہمیشہ وقت کے دھارے
میں بہتے ہیں اور وہ وقت کے مخالف کبھی نہیں رہے۔
قارئین محترم آج ایک بار پھر مولانا فضل الرحمان کارزار سیاست میں دلچسپ
کھیل کھیل رہے ہیں،ایک جانب وہ اپنی اتحادی حکومت کے ساتھ آنکھ مچولی کرتے
ہیں تو دوسری طرف مذہبی سیاسی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد متحدہ مجلس عمل کے
رہنماؤں کے ساتھ اجلاس منعقد کر کے اپنی سودے بازی کی صلاحیت میں اضافہ
کررہے ہیں، ان کے وزراء ٹیلی وژن چینلز پر حکومت کے بجائے حزب اختلاف کا
حصہ نظر آتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ حکومت میں شامل ہیں اور سرکاری جاہ و
حشمت ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہیں، کل تک وہ پرویز مشرف کے ہمراہ لیلائے
اقتدار سے لطف اندوز ہوتے تھے آج صدر آصف زرداری کے ہم رکاب ہیں، وہ امریکا
کے سخت ناقد ہیں لیکن امریکا کی حامی حکومت کے ساتھ شریک اقتدار بھی ہیں،
حقیقت یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان ایک ایسے سودے باز سیاستدان ہیں جو
حالات کو اپنے حق میں تبدیل کرنے کے فن جانتے ہیں، وہ سیاسی بساط پر ایک
ماہر کھلاڑی کی طرح اپنے مخالفین کو زیر کرنے یا سرکار سے زیادہ سے زیادہ
مراعات حاصل کرنے کی خاطر مختلف چالیں چلتے رہتے ہیں، اکثر اوقات کسی بھی
ایشو پر دو ٹوک مؤقف اختیار کرنے کے بجائے ابہام پیدا کرنے کو ترجیح دیتے
ہیں تاکہ وہ کسی مشکل سے دوچار نہ ہوں، پاکستان کے اندر جاری دہشت گردی کی
کاروائیوں میں ملوث96فیصد سے زائد افراد کا تعلق انہیں کے مکتب فکر سے ہے،
لیکن اس کے باوجود انہیں ایک متوازن مزاج سیاستدان کے طور پر متعارف کرایا
جاتا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مولانا صوبہ سرحد اور
قبائلی علاقوں میں پائے جانے والی شدت پسندی کے سامنے بندھ باندھنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن یہ حقیقت آشکارہ ہوچکی ہے کہ و ہ طالبان اور اُن کے
حامی حلقوں میں کوئی غیر معمولی اثرو رسوخ نہیں رکھتے ہیں بلکہ انہیں اپنی
جان بچانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں، جب ریاستی اداروں نے انہیں مجبور کیا کہ
وہ خودکش حملوں کے خلاف علما سے فتویٰ جاری کرائیں تو اُن کے ایما پر جامعہ
اشرفیہ لاہور میں دو دن تک دیوبندی مکتبہ فکر کے 150کے لگ بھگ علما کرام کے
سامنے ملک اور دیوبند کو درپیش چیلنجز کا جائزہ پیش کرتے ہوئے استدعا کی
گئی کہ وہ اجتماعی طور پر خودکش حملوں کے خلاف فتویٰ جاری کریں، لیکن
طالبان کے حامی جوشیلے علماء نے مولانا فضل الرحمان کی ایک نہ چلنے دی اور
خودکش حملوں کی مذمت کرنے اور انہیں حرام قرار دینے کے بجائے امریکا کے
خلاف پہلے سے منظور شدہ قراردادوں کے انبار میں مزید ایک اور قرار داد جس
میں کہا گیا کہ ”پاکستان کے موجودہ حالات میں نفاذ شریعت اور ملک کو غیر
ملکی تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے پرامن جدوجہد ہی بہترین حکمت عملی ہے
اور مسلح جدوجہد شرعی اعتبار سے غلط ہونے کے علاوہ مقاصد کے لیے بھی سخت
مضر ہے، اگر کوئی شخص اخلاص کے ساتھ اسے دین کا تقاضہ سمجھتا ہے تو یہ
اجتماع اس بات پر اتفاق کرتا ہے کہ ایسے حضرات کو حالات کے تقاضوں اور
ضرورتوں سے آگاہ کر کے مثبت کردار کی ادائیگی پر آمادہ کرنے کے لیے ناصحانہ
اور خیر خواہانہ روش اختیار کی جائے” کا اضافہ کردیا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ خود مولانا فضل الرحمان بھی صرف امریکا کے خلاف بیان
بازی پر اکتفا کرنا چاہتے تھے اور اس سے بڑھ کر وہ کسی سرگرمی کے حق میں
نہیں ہیں تاہم شدت پسندوں کا دباؤ کم کرنے کے لیے مولانا کبھی حکومت سے
باہر نکلنے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو کبھی ایم ایم اے کی بحالی کی کوششوں میں
سرگرم پائے جاتے ہیں، ہماری رائے میں وہ حکومت سے الگ ہونے کی پوزیشن میں
نہیں ہیں، کیونکہ ایسا کرنے سے انہیں دستیاب حفاظتی چھتری اور سرکاری
پروٹوکول برقرار نہیں رہتا ہے، جس کے بناء اب اُن کی زندگی بے کیف ہوجاتی
ہے، وہ تمام سیاسی راستے کھلے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کسی بھی طرف
جاسکیں، عجیب بات ہے کہ آج وہ ایم ایم اے(جس کے توڑنے میں ان کا سب سے بڑا
حصہ ہے)کو بحال بھی کرنا چاہتے ہیں اور لیلیٰ اقتدار کی غلام گردش سے نکلنا
بھی نہیں چاہتے ہیں، ایک ہی سانس میں دو مختلف چاہتیں، حیرت کی بات ہے،
دراصل ایم ایم اے کی بحالی کی آڑ میں وہ پیپلزپارٹی پر دباؤ ڈال کر اپنے
مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب وہ دیکھتے ہیں کہ پی پی پی اُن کے مطالبات
تسلیم نہیں کررہی تو وہ فوراً ایم ایم اے کی بحالی کی کہانی شروع کردیتے
ہیں، آج ایک بار پھر انہوں نے مجلس عمل کی فعالیت کی آڑ میں جمعیت علمائے
پاکستان، جماعت اسلامی، جمعیت اہلحدیث و دیگر مذہبی جماعتوں کو بطور چارہ
استعمال کر کے حکومت سے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ اور باخبر
ذرائع کے مطابق بلوچستان کی گورنری جیسے مطالبات منوا کر اپنے مقاصد میں
کامیابی حاصل کر لی ہے، یہی اُن کا طریقہ واردات ہے، اگر حکومت ان کے
مطالبات پورے کردیتی ہے تو وہ جمہوری نظام کی بقاء اور نظریاتی ترجیحات
کیلئے حکومت میں شامل رہیں گے، بصورت دیگر ان کے پیٹ میں پھر مجلس عمل کی
بحالی کا درد اٹھنے لگے گا، معلوم نہیں مولانا فضل الرحمن خود کو دھوکہ دے
رہیں، یا دینی جماعتوں اور اُن کے قائدین کو یا پھر قوم کو، ہوسکتا ہے کہ
دینی جماعتیں اور اُن کے قائدین شاید مولانا سے نیکی اور خیر کی کوئی توقع
رکھتے ہوں، لیکن پاکستان کے عوام اب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا
فضل الرحمن کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں اور وہ ہمیشہ بادشاہ گروں
کی خواہشات پر ہی متحرک ہوتے ہیں۔ |