قصرسفیدکے فرعون کی باقاعدہ منظوری
اورتصدیق کے بعد بلوچستان کے علاقے نوشکی کے قریب امریکی برہنہ درندگی
کاشکاربالآخر طالبان کے دوسرے امیرملامنصوراختراپنے خالقِ حقیقی سے جاملے
ہیں۔پہلے چندروزپاکستانی حکومت اس خبر کی تصدیق سے گریزکرتی رہی لیکن
طالبان کی طرف سے نئے امیرملاہیبت اللہ کی تقرری کے بعدوزارتِ خارجہ کے
مشیر سرتاج عزیزکے پاس بھی تصدیق کے علاوہ کوئی چارۂ کارنہ رہا۔پاکستان
کیلئے یہ غیرمعمولی صورتحال اس وقت پیداہوئی جب ایک دن کے بعدوزیراعظم
نوازشریف اپنے معمول کے چیک اپ کیلئے لندن روانہ ہونے والے تھے۔یہی وجہ ہے
کہ اس حساس معاملے پروزیراعظم پاکستان کاپہلاردّعمل لندن سے ہی سامنے
آیا۔یہ امریکی کاروائی کم ازکم صوبہ بلوچستان میں پہلا''ڈرون حملہ''ہے لیکن
حیرت ہے کہ ڈرون میزائل سے ایک معمولی سی کارکے پرخچے اڑ جاتے جبکہ
ایسانہیں ہوالیکن اس میں سوارولی محمد(ملامنصور) کا چندگزدورپاسپورٹ
اورشناختی کارڈتوبالکل سلامت رہالیکن اس میں مسافر جل کرراکھ
ہوگئے۔پاکستانی حکومت کوامریکانے اس حملے کی اطلاع سات گھنٹے گزرنے کے
بعددی تاکہ ایک اطلاع کے مطابق بلیک واٹرحملہ آور محفوط ومامون واپس
افغانستان پہنچ جائیں لیکن جس شدت کے ساتھ امریکی صدراوبامانے پاکستان کے
احتجاج کے بعد کہاہے کہ جہاں سے بھی امریکا کیلئے خطرہ ہوگا،امریکاکاروائی
کرے گا۔کہنامشکل ہے کہ بلوچستان یا کسی اورپاکستانی علاقے میں امریکاکایہ
حملہ آخری ثابت ہوسکے گا۔
اگرچہ وزیرداخلہ چوہدری نثارنے بڑے صاف الفاظ میں اس امریکی حملے کو
غیرقانونی،بلاجواز،ناقابل قبول،پاکستان کی آزادی،خودمختاری کے منافی اور
اقوام متحدہ کے چارٹرڈ بین الاقوامی قوانین کی مکمل نفی کہاہے لیکن
وزیرداخلہ نے یہ بھی کہاہے کہ اس حوالے سے نیشنل سیکورٹی کااجلاس
بلایاجارہا ہے اور پاکستان کاتفصیلی مؤقف وزیراعظم کی لندن واپسی پرسامنے
آئے گاگویااُس وقت تک پلوں کے نیچے سے کافی پانی گزرچکاہوگا۔
امریکاکی جانب سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں آنے والے حالیہ نشیب کے بعد
پاکستان کے ایسے صوبے میں پہلا''مشکوک حملہ''نہ صرف بجائے خودغیر معمولی
بات ہے بلکہ اس واقعے کواگرصوبہ بلوچستان کے ہمسائے میں بھارت، ایران
اورافغانستان کے درمیان ہونے والے معاہدات اوربڑھنے والی قربت کے ماحول میں
دیکھاجائے توصاف سمجھ میں آتاہے کہ یہ اس واقعے کومحض ایک آغازکے
طورپرلیاجاناچاہئے۔پاک چین اقتصادی راہداری کے سلسلے میں تیزی سے ہونے والی
پیش رفت اوراس کے بارے میں بھارت،امریکااوراس کے بعض نئے وپرانے دوستوں کے
مذموم خیالات یااہداف پہلے سے ظاہر ہیں اس لئے ملا اخترمنصورکے مبینہ
طورپرایران سے پاکستان میں داخل ہونے پہلے محفوظ رہنے اورپاکستان میں داخل
ہونے کے چندگھنٹے بعدامریکی حملے کی زدمیں لائے جانے کوایک سادہ سے معاملے
کے طورپرلینا،بدترین سادگی اورتغافل کے زمرے میں آئے گا۔یہ کھیل ایک ایسے
موقع پرکھیلنے کی کوشش کی گئی ہے جب اگلے ہی روزچاہ بہارفیم کلبھوشن
کاوزیراعظم نریندرمودی ایران میں پہلے سرکاری دورے پرپہنچنے
والاتھااورگوادربندرگاہ کے متوازی طورپرایرانی بندر گاہ چاہ بہارکوفعال
کرنے کے منصوبوں کیلئےوسائل فراہم کرنےکے معاہدے پر دستخط کرنے آرہاتھا۔
یقیناًایران نے نریندرمودی کے اس اہم دورے کوچاہ بہاری کلبھوشن کے تذکرے سے
پاک رکھنے کی کوشش کی ہوگی تاکہ دوطرفہ اقتصادی ساجھے داری کو زک نہ
پہنچے۔اس امریکی جارحیت سے فوری فائدہ امریکاکے نئے اتحادی بھارت کواس طرح
ہواہے کہ مودی کے جس ایرانی دورے کے موقع پرچاہ بہاری کلبھوشن یادیوکے بارے
میں عالمی میڈیاذرائع ابلاغ یاکم ازکم پاکستانی میڈیا سوالات
اٹھاسکتاتھا۔اس نوشکی حملے کے بعد پاکستانی میڈیابھی بالکل دفاعی پوزیشن
پرکھڑاہے۔اس سے ایرانی حکومت کوبھی غیرمعمولی مددملی ہے کہ وہ چاہ بہارمیں
بھارتی جاسوسی مراکزکی بات کرکے بھارت کے ساتھ معاملات پر بات کرنے سے بچ
جائے۔
افغانستان میں امن کی دیرینہ عالمی آشاکی راہ میں اب کی بارامریکانے براہِ
راست دیوارکھڑی کردی ہے ۔پچھلے سال ماہ جولائی میں امریکاکی جگہ یہ فرض آتش
وآہن میں جلنے والے افغانستان کی اشرف غنی حکومت نے اس وقت انجام دیاتھاجب
پاکستان کی کوششوں سے محض تین دن بعدطالبان بھی امن مذاکرات کیلئے اپنے
نمائندوں کواسلام آبادبھیجنے پرآمادہ ہوچکے تھے۔ پاکستان کی امن کیلئے
کوششوں اورطالبان کی آمادگی کوروکنے کیلئے اشرف غنی حکومت نے
جوبنیادملاعمرکے انتقال کی خبربریک کرکے رکھی تھی،امریکا نے
ملااخترمنصورکوپاکستان کے اندرنشانہ بناکرایک مضبوط دیوارکھڑی کر دی ہے ،یہ
دیوارایک جانب طالبان میں موجوداس رائے کے حامل رہنماؤں اورکمانڈروں
کوکمزورکرنے میں کام آئے گی جواس سے پہلے مذاکرات کے زیادہ حامی مانے جاتے
تھے اوردوسری جانب طالبان میں مذاکرات سے ہٹ کررائے رکھنے والوں کومضبوط
کیاہے جن کامؤقف ہے کہ امریکاہویاافغانستان کی امریکانوازحکومت، کوئی بھی
قابل قبول اورقابل اعتمادنہیں ہے۔
یہی نہیں پاکستان جوامن کے اس اصولی مؤقف کہ''امن کوششوں کی ذمہ داری سب کی
ہے،صرف پاکستان کی نہیں ہے'' حتی المقدوراس کوشش میں رہاہے کہ طالبان
پراپنااثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں مذاکرات کی میزپرلائے اور
افغانستان میں امن کیلئے اپنامثبت کرداراداکرے لیکن حالیہ امریکی ننگی
جارحیت کے بعدطالبان کورام کرنے میں جہاں پہلے سے کہیں زیادہ دقتو ں
کاسامناہوسکتا ہے،وہیں خودپاکستان میں بھی اس نکتہ نظرکوردکرناپہلے کے
مقابلے میں مشکل ہوگا کہ امریکاکیلئے کب تک اپنی خدمات جاری رکھیں کہ وہ جب
چاہے ایک جوہری پاکستان کی عزت خاک میں ملاتے ہوئے خود مختاری پرنہ صرف
حملے کرتا رہے بلکہ پاک چین اقتصادی راہداری کی راہ کھوٹی کرنے کے لئے
پاکستان دشمنوں کی سازشوں کامدد گار بنتا رہے،اب توبلوچستان میں پہلی مرتبہ
ننگی جارحیت کرکے آئندہ دنوں امریکابلوچستان میں پاکستان میں امن کوششوں
کوسبوتاژکرنے کی مسلسل کوششیں کرسکتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے دوسرے
علاقوں سمیت بلوچستان میں امن کی خاطرجاری آپریشن کوکمزورکرنے کیلئے ایک
نئی آگ لگانے کی کوشش اورافغانستان میں امن کی پاکستانی کوششوں کی راہ میں
رکاوٹیں پیداکرکےامریکا براہِ راست امن پرحملہ آورہواہے۔
مگرکیوں؟وہ اس لئے کہ افغانستان میں امن کی کوششیں امریکاکے مختصراور مدتی
طویل مدتی اہداف کے حوالے سے خصوصاًاگلے سال امریکی صدارتی انتخابات کے
تناظرمیں قابل قبول نہیں ہیں۔امریکاپاکستان اورچین کے ہمسائے میں امن
کواپنے تذویراتی ہی نہیں ،معاشی مفادات کیلئے بھی نیک شگون نہیں سمجھتااس
لئے افغانستان کوآگ میں جھلسائے رکھنے کیلئے تیل ڈالتے رہنا اوروقفے وقفے
سے ایسی سازش کرنا تاکہ ایک جانب افغانستان میں حربی فضا قائم رہے اوردوسری
جانب ڈیموکریٹس کے حق میں امریکی رائے عامہ ہمواررکھنے کیلئے بھی ضروری ہے
تاکہ اگلے نومبرمیں صدارتی انتخاب کاپانسہ ری پبلکن کی جانب نہ پلٹ سکے۔یہ
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب چارسال پہلے امریکی صدارتی انتخابات میں اوباما
کودوسری مدت کیلئے صدرمنتخب کرانے میں اسامہ کے خلاف ایبٹ آبادآپریشن نے
اہم کرداراداکیاتھا۔اب جبکہ امریکی کانگرس میں ری پبلکن کاپلہ بھاری
ہوچکاہے،ڈیموکریٹس کی یہ انتہائی ضرورت تھی جو نوشکی میں امریکی سرکاری
خبروں کے مطابق پوری ہوچکی ہے۔ پچھلے صدارتی انتخابات میں القاعدہ کے
سربراہ کی لاش گرائی گئی تھی اوربقول امریکی قیادت کے طالبان کے
امیرملااختر منصور کوکامیابی سے نشانہ بنایاگیا ہے۔
یہ ایک کثیرالجہت واردات ہے۔اوباماانتظامیہ کوافغانستان میں اپنی ایک اور
کامیابی کاڈھنڈورہ پیٹنے کاموقع میسرآگیاہے۔ پاکستان میں آج بھی طالبان
کیلئے نرم گوشہ پایاجاتا ہے۔بلوچستان جوپاک چین اقتصادی راہداری گوادرکی
وجہ سے محورومرکزہے،کوامن وامان کے حوالے سے جیساچاہے،ثابت کرسکے، اس کا
براہِ راست اثراس راہداری کے موافقانہ ماحول پرمرتب ہوگاجسے اگلے ماہ نومبر
سے پہلے پہلے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل اپنااہم ہدف بتا چکے ہیں لیکن
کیایہ ممکن ہے کہ ساری سازشوں کے کامیاب ہونے کاسدابہارموقع ہمہ وقت
میسررہے ۔پاکستانی قوم کی کمٹمنٹ اقتصادی راہداری کیلئے غیرمعمولی ہے۔
بھارت کے بارے میں اہل پاکستان کی رائے کوخودبھارتی پالیسیاں،اقدامات اور
بھارت میں تعصب خیزواقعات باربارواپس لے آتے ہیں کہ نریندرمودی کے بنگلہ
دیش کے دورے کے موقع پریہ کہناپاکستان کوتوڑنے میں بھارت کاکرداراہم تھا ،
بلاشبہ مودی طرزکے بھارتی لیڈروں کی موجودگی میں بھارت کے حق میں اہل
پاکستان کی سوچ میں استحکام ممکن نہیں ہے۔
یہی معاملہ طالبان کے ہاں ہونافطری بات ہے کہ ایک جانب طالبان قیادت
کونشانہ بنایاجارہاہو،ان کے خلاف افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکاکے
اعلانیہ اورغیراعلانیہ دوستوں کوشریک کاربنارہے ہوں اورامیدیہ رکھیں کہ وہ
چپ چاپ امن کی راہ اختیارکرکے امریکی خوشنودی پالیں۔مستقبل بعیدمیں نہیں،
مستقبل میں بھی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی کہ طالبان جنہوں نے پندرہ
سال سے امریکا اوراس کے نیٹواتحادیوں کاجوانمردی سے مقابلہ کیاہے اورآج بھی
مزاحمت کیلئے موجودہیں،نہ صرف یہ بلکہ طالبان کوامن مذاکرات کی طرف لانے
میں پاکستان کواگلے مہینوں میں پہلے سے زیادہ مشکلات رہیں گی۔ طالبان کی
نئی قیادت کو فطری طورپرایک طرف بہت سارے پہلوؤں کاازسرنوجائزہ لیناہوگا
بلکہ نئی قیادت کواپنی حکمت عملی طے کرنے میں بھی وقت لگے گا۔
پاکستان کی طرف سے ایک تسلسل کے ساتھ یہ مؤقف مختلف سطحوں پرعالمی برادری
اورمتعلقہ ممالک کے ساتھ شیئرکیاجاچکا ہے کہ امن مذاکرات کیلئے اکیلا
پاکستان کچھ نہیں کرسکتا،سب ملکوں اوراسٹیک ہولڈروں کواپنااپناحصہ
ڈالناہوگا۔ اہل پاکستان یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ کیونکرممکن ہوسکتا
ہے کہ پاکستان طالبان کوکھینچ کھینچ کرمذاکرات کی میزپرلاتارہے
اورقصرسفیدکابے رحم فرعون جب چاہے اس مذاکراتی عمل کوسبوتاژکردے۔اس لئے
لامحالہ یہی ہوگاکہ طالبان کی نئی قیادت کومذاکرات کی میزکی طرف لانے میں
ماضی کے مقابلے میں زیادہ مشکل پیش آئے گی کہ امریکاطالبان کوجنگ کی طرف
کھینچ رہاہے،ایسے میں پاکستان انہیں امن کی طرف آسانی کے ساتھ نہیں لاسکے
گا۔
امریکانے حالیہ بزدلانہ اوراوچھی حرکت کرکے نہ صرف خودکوافغان امن کی راہ
سے دورکردیاہے بلکہ خودسے پاکستان کوبھی دورکردیاہے جبکہ دوسری جانب اشرف
غنی حکومت بھی اس معاملے میں مسلسل کنفیوزاورتذبذب کی شکار ہے۔یہ اپنی جگہ
درست ہے کہ حزبِ اسلامی کواشرف غنی حکومت نے ایک معاہدے میں گانٹھ لیاہے
لیکن طالبان کے امیرکوجس امن مذاکرات کے ماحول میں نشانہ بنایاگیاہے،اس کے
اثرات اس معاہدے پربھی مرتب ہوسکتے ہیں لیکن ایسے موقع پراس پہلوکوبھی مکمل
طورپرنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ افغانستان کے پشتون اس واقعے کوبنیادبناتے
ہوئے ایک مرتبہ پھرباہم قریب آجائیں لیکن پاکستان کی آئندہ کیلئے حکمت عملی
کیاہوگی،اس کازیادہ ترانحصاروزیراعظم کی آمدپر نیشنل سیکورٹی کونسل کے
اجلاس میں ہوگا۔ ادھرمولانافضل الرحمان جوپاناما لیکس پرکامیاب جہادکے جواب
میں آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے دھڑادھڑ اپنے علاقے کے ترقیاتی کاموں
کی کئی اسکیموں پروفاق کاتعاون بھی حاصل کر چکے ہیں،انہیں بہرحال اپنے
بنیادی حلقہ نیابت پربھی کان دھرنا ہوں گے اور علماء کورام کرنے کیلئے
وزیراعظم سے کچھ ایسی پالیسیوں کی توقع ضرور کریں گے جوپاکستان میں افغان
کے حق میں کلمٔہ خیرکے حوالے سے اہم ہوں تاہم پاکستانی قوم جوآئے دن فلسطین
اورکشمیرکے آٹھ سالہ بچوں کواسرائیلی ٹینکوں اورہندودرندوں پرپتھرپھینکتے
ہوئے دیکھ رہی ہے وہ اپنے حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ سولہ سال پہلے ایٹمی
قوت بننے والاپاکستان امریکی ڈرون حملوں پر کیوں خاموش ہے؟ |