وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کے نام ایک کھلا خط

عام طور پر تنقید کے لہجے میں کہاجاتاہے کہ وزیر اعلی نے پنجاب کے آدھے فنڈ لاہور شہر میں ہی لگا دیئے ہیں ۔عمران بھی اٹھتے بیٹھتے لاہور اور اس میں ہونے والے ترقیاتی منصوبوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔ لاہور کے خلاف بات کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ اس وقت یہاں لاہور کے مقامی شہریوں کی تعداد صرف 10 فیصد ہے جبکہ باقی ماندہ90 فیصد لوگ پنجاب کے دیگر شہروں اور دوسرے صوبوں سے یہاں ملازمت اور روزگار کی تلاش میں آبسے ہیں ۔میں جس گلی میں رہتا ہوں اس گلی میں ایک سو مکان ہوں گے ۔ ایک دن سروے کیا تو وہاں ایک بھی لاہور کا مقامی شہری نہیں نکلا ۔ جبکہ سرگودھا ٗ اوکاڑہ ٗ حویلی لکھا ٗ ملتان ٗپشاور ٗ فیصل آباد ٗکشمیر اور کراچی کے لوگ یہاں آباد ہیں ۔اگر میری بات کا یقین نہ آئے تو عید یا بقرعید کے موقع پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جب لاہور شہر کی سڑکیں سنسان ہوجاتی ہیں بسیں ٹرینیں بھربھر کے مختلف شہروں کی طرف جاتی ہیں جن میں پاؤں رکھنے کی جگہ بھی نہیں بچتی۔ اس کے علاوہ آدھے سے زائد لوگ ایسے بھی ہیں جو مستقل طور پر لاہور میں قیام پذیر ہوچکے ہیں۔ اگر لاہور کے مقامی شہری دیکھنے ہوں تو وہ صرف اندرون شہر کے تھڑوں پر سارا دن گپیں ہانکتے دکھائی دیں گے۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھی جائے کہ لاہور شہر اب سو مربع میل تک پھیل چکا ہے ۔اب اس کی سرحدیں گوجرانوالہٗ شیخوپورہ ٗ پتوکی اور واہگہ تک پھیل چکی ہیں۔ کوئی وقت تھا جب مال روڈ پرسب سے بڑی شاہراہ سمجھی جاتی تھی۔ اب اس سے دوگنی کشادہ سڑکیں بھی ٹریفک کے ہجوم کی وجہ سے بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہیں ۔جوہر ٹاؤن کی طرف جائیں تو سمجھ نہیں آتی کہ کونسی سڑک کس طرف جارہی ہے لیکن ایک ہجوم بیکراں ہر طرف سرگرداں دکھائی دیتا ہے ۔لاہور رنگ روڈ کی لمبائی 75 کلومیٹر بتائی جاتی ہے ۔ جبکہ بے شمار ہاؤسنگ سوسائٹیاں رنگ روڈ سے باہر بھی موجود ہیں ۔ آپ نے (شہباز شریف) نے ہر ممکن کوشش کی کہ سگنل فری سڑکیں بنا کر ٹریفک کے اژدھام کو کسی طرح کنٹرول کیا جائے ۔ جیل روڈ اور اس سے ملحقہ مین بلیوارڈ گلبرگ کو سگنل فری بنایا پھر ملتان روڈ سے فیروز پور تک نالے کے ساتھ ساتھ کشادہ سڑک کی تعمیر کی جس سے ٹریفک کے بہاؤ میں کچھ بہتری آئی ۔ فیروز پور روڈ بطور خاص قینچی اور جنرل ہسپتال کے نزدیک تو فلائی اوور اور پلوں کاایسا جال بچھادیا کہ وہاں سے گزرنے والا انسان گھوم جاتا ہے ۔ جن لوگوں کا گڑھی شاہو سے شملہ پہاڑی آنے کا اتفاق ہوا ہو وہاں ہر روز بطور خاص کوئین مری کالج کی چھٹی کے وقت قیامت کا سماں برپا ہوتا ہے ۔وہ لوگ جو اپنے بچے اور بچیوں کو کالج سے لینے آتے ہیں ان کا ہجوم پوری سڑک کو بلاک دیتا ہے اس حالت میں وہاں سے گزرناناممکن ہوجاتاہے اس سے تھوڑ ا سے آگے چلیں تو لاہورپریس کلب کا ایریا شروع ہوجاتاہے۔ یہ عوامی احتجاج کا مرکزی مقام بن چکاہے۔شاید ہی کوئی دن جاتاہوگا جب وہاں احتجاج نہ ہورہا ہو ۔اب رہی بات مال روڈ کی تو یہاں بھی جلسہ اورجلوس کاہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ پنجاب اسمبلی کے اردگرد توراستے ویسے ہی بندکردیئے گئے ہیں لیکن چیئرنگ کراس پر ہونے والے جلسے اور جلوس ٹریفک جام کو اس طرح جام کردیتے ہیں کہ ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی شدید متاثر ہوتی ہے ۔ اس کے باوجود کہ ہائی کورٹ کی جانب سے مال روڈ پر جلسے اور جلوسوں پر پابندی عائد ہے لیکن دھرنوں اور جلسوں کے لیے یہی شاہراہ دکھائی دیتی ہے ۔یہ درست ہے کہ آپ ( شہباز شریف ) نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ سڑکوں پر ٹریفک کی روانی برقرار رکھی جائے پھر بھی چندایسے مقامات ہیں جہاں فلائی اوورز اور انڈر پاسز کی اشد ضرورت ہے ۔میٹرو سسٹم بہت اچھا ہے لیکن بڑھتے ہوئے ٹریفک کے لوڈ کو کم کرنے کے لیے اگر میٹروبس کے روٹ پر عام کاروں اور موٹرسائیکلوں کو بھی جانے کی اجازت دے دی جائے جو لمبی مسافت پر بغیر کہیں روکے جانا چاہتے ہیں تو ٹریفک کالوڈ بہت حد تک کم ہوجائے گا ۔حکومت پریس کلب کے سامنے عوامی احتجاج تو روک نہیں سکتی اس لیے بہتر ہوگا کہ گڑھی شاہو سے کوئین مری کالج اور شملہ پہاڑی تک ایسا فلائی اوور یا انڈرپاسز بنائے جائیں جہاں سے ایبٹ روڈ ٗایمپریس روڈ ٗ ڈیوس روڈ اور ایجرٹن روڈ کے راستے بھی آسانی سے نکل سکیں ۔اس طرح صرف مقامی لوگ نیچے سفر کریں گے یا بچوں کو کالج سے لینے آئے ہوں گے۔گورنر ہاؤس سے لوئر مال تک بھی ایک ایکسپریس وے کی تعمیر بہت ضروری ہے۔ کیونکہ چیئرنگ کراس سے پی ایم جی آفس کے درمیان جتنے بھی ٹریفک سگنل آتے ہیں وہاں ہر لمحے ٹریفک الجھی دکھائی دیتی ہے جو ذہنی دباؤ اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہے۔ لاہور اسٹیشن سے براستہ سرکلر روڈ ٗ راوی کے پل تک ایکسپریس وے کی تعمیر نہایت ضروری ہے ۔ اسی طرح والٹن روڈ بے شک دو رویہ کشادہ سڑک ہے لیکن یہ سڑک نہ صرف جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے بلکہ اس پر جتنے موڑ(کٹ) آتے ہیں ان تمام کٹس پر بطور خاص دن کے اوقات میں تکلیف دہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بارش کے بعد سڑک کا ایک بڑا حصہ پانی کی زد میں آجاتا ہے۔جبکہ بائیں ہاتھ پر گزرنے والا گندا نالہ گزرنے والوں کا اپنی بدبو سے استقبال کرتا ہے ۔ اگر جناح فلائی اوور کیولری گراؤنڈ سے براستہ والٹن روڈ پیکجزلمیٹڈ تک ایکسپریس وے بنا دیاجائے جس سے ڈی ایچ اے جانے اور آنے والوں کو بھی آسانی ہوگی اور چونگی امرسدھو جانے والے بھی آسانی سے گزر سکیں گے ۔میاں صاحب کرنی تو آپ نے اپنی مرضی ہے ۔ لیکن مشورہ دینے میں حرج نہیں ہونا چاہیئے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 786843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.