ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کا ایجنڈا
(Syed Ahmed Qadri, India)
اس وقت ملک میں جس طرح فرقہ وارانہ منافرت
کا ماحول ہے۔ وہ کوئی حیرت انگیز نہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کی موجودہ
حکومت والی سیاسی پارٹی، بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی ہمنوا پارٹیاں جس
طرح پورے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلا کر برسراقتدار آئی ہیں، اس سے
انھیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہے کہ ملک میں غریبی، بے روزگاری،نابرابری ،مہنگائی
،بے گناہوں پر ہونے والے جبر،ظلم و تشدد اوربربریت و استحصال کے خاتمے کے
بر خلاف ملک کے لوگوں کے اندر فرقہ وارانہ منافرت کا زہر پھیلانا زیادہ
کارگر ہوتا ہے ۔ 2014 ء کے لوک سبھا کے انتخابات کے بعد بہار کے اسمبلی
انتخاب میں بھی جیسے جیسے مُدے اٹھائے گئے ، وہ سب لوگوں کے ذہن میں تازہ
ہی ہیں ۔ ابھی ابھی بنگال ، آسام ، کیرالا، تامل ناڈو وغیرہ کے اسمبلی
انتخاب میں بھی یہ کھیل خوب کھیلا گیا ۔مجھے یاد آتا ہے کہ گزشتہ سال ہندو
مہا سبھا کے کار گزار صدر کملیش تیواری نے وزیراعظم نریندر مودی سے یہ
مطالبہ کیا تھا کہ وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیں ۔ اس کے لئے اس سال
کے ساون کے پہلے سموار کو کاشی وشوناتھ مندر میں خصوصی پوجا کر کے بھارت کو
مسلم مکت بنانے کی شروعات کئے جانے کا پروگرام بنا یا گیا تھا ۔ یہ ایسی
خبر تھی ، جس کی ملک کے امن پسند اور سیکولر لوگوں نے اس لئے کوئی خاص نوٹس
نہیں لی کہ جب سے مرکز میں آرایس ایس کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی
حکومت قائم ہوئی ہے ۔ اس وقت سے نہ صرف ملک کے عام مسلمان ، بلکہ دیگر
مذاہب کے فرقہ واریت سے شدید نفرت کرنے والے لوگوں نے کوئی توجہ نہیں دی کہ
آر ایس ایس اور اس کی ہمنوا جماعتوں مثلاََ بجرنگ دل ، شیو سینا ، وشو ہندو
پریشد ، درگا وا ہنی، ہندوستانی یووا ہندو دل، رام سینا ، رام چرتر سینا،
ہندو ویراٹھ سینا، ہندو یووا جاگرن منچ، ہندو سینا، اکھنڈ بھارت سمیتی،
ہندو جاگرن سمیتی وغیرہ جیسی فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں کے منافرت
اورفرقہ واریت سے بھرے غیر اخلاقی، غیر آئینی و غیر جمہوری بیانات ، جو
مسلسل پرنٹ میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا میں آتے رہتے ہیں ،
ایسے بیانات کو عام طور پر ہذیان سے تعبیر کر نظر انداز کر دیتے تھے اور
ایسا کرنا بھی چاہئے تھاکہ ایسے لغو، غیر منصفانہ اور غیر مہذب بیانات کا
مقصد ملک کے اندر ایک خاص طبقہ کو مشتعل کر سیاسی فائدہ اٹھانا ہوتا ہے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ان فرقہ پرست حوصلے بڑھتے جا رہے ہیں ۔ انھیں
دیکھ کر اب ہذیان نہیں بلکہ بہت منظم سازش کی اہم کڑی مانا جانا چاہئے ۔ جو
آر ایس ایس اورہندو مہا سبھا کے ’’ مسلم مکت بھارت ‘‘ کے حالیہ طئے کئے گئے
خطرناک منصوبہ کو تقویت بخشتا ہے۔ یہ لوگ ہذیان نہیں بک رہے ہیں ، بلکہ
اپنے اس منصوبہ کی حکمت عملی میں، حکومت وقت کی رضا مندی اور پشت پناہی
شامل ہے۔ اگر ہم مرکزی حکومت کے گزشتہ دو سال کی کارکردگی کے منظر نامہ پر
نظر ڈالیں ، تو سارے کے سارے عقدہ بڑی آسانی سے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارے
سپنوں کے ملک کا سیکولر کردار اور تاریخ نہ صرف دن بہ دن غیر منصفانہ ، غیر
آئینی، غیر جمہوری بلکہ فرقہ وارانہ منافرت سے شہر آلود ہوتا جا رہا ہے
۔سوریہ نمسکار ، سرسوتی وندنا، گیتا پاٹھ اور یوگا وغیرہ کو ملک کا تہذیبی
علامت بنانے کی جس طرح کوششیں ہو رہی ہیں ، وہ ملک کی جمہوری قدروں کے
بنیادی اصولو ں کے منافی ہیں ۔
کبھی مسلما نوں کی بڑھتی آبادی پر تشویش کیا جا رہا ہے ، کبھی گھر واپسی کے
نام پر مسلمانوں کو ہندو مذہب قبول کئے جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے، کبھی
اپنے خون سے سینچے جانے ملک سے مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا
جارہا ہے ۔ کبھی بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ یوگی آدتیہ ناتھ کہتے ہیں ’ ایک
کے جواب میں 100 مسلم لڑکیوں کو ہندو بناؤ‘ ، کبھی مودی کابینہ کی ایک وزیر
نرنجن جیوتی فرماتی ہیں کہ ’ رام زادوں کا مقابلہ ×××زادوں سے ہے ۔ کبھی
بہار سے تعلق رکھنے والے ایک مرکزی وزیر مملکت گری راج سنگھ کا خیال ظاہر
کرتے ہیں کہ ’جو لوگ مودی کی مخالفت کرتے ہیں ، انھیں پاکستان چلے جانا
چاہئے‘ حد تو یہ ہے کہ ایک رکن پارلیامنٹ ساکشی مہاراج راشٹر پتا مہاتما
گاندھی کے قاتل کو عقیدت کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’ گوڈسے نہ صرف شہید بلکہ سچے
دیش بھکت بھی ہیں‘ ۔ اب تو مہاتما گاندھی کی ملک کی تحریک آزادی میں دی گئی
قر بانیوں کو بھی مسترد کیا جا رہا ہے۔ ہندو سنت سماج کے جنرل اسمبلی کے
قومی صدر سوامی رتن دیو مشر نے مسلمانوں کی قبرستانوں کو نشانہ بناتے ہوئے
کہا ہے کہ ملک میں اربوں روپئے کی زمین قبرستانوں کی شکل میں موجود ہے ، جس
کی گھیرا بندی اور دیکھ ریکھ میں کافی روپئے خرچ ہوتے ہیں ۔ یہ پیسہ اکثریت
کا ہے ، جسے قبرستانوں پر برباد نہیں کیا جانا چاہئے ، رتن دیو کا یہ بھی
مطالبہ ہے کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی طرح آخری رسوم کے لئے چھوٹی جگہ دے دی
جائے اور قبرستانوں کو ہندوؤں کی ملکیت قرار دی جائے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ
مسلمان بادشاہوں کی نشانیوں مثلاََ قطب مینار، لال قلعہ اور تاج محل وغیرہ
کو بھی ہندوؤں کی تعمیر بتایا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کی سنہری حروف میں لکھی
گئی تاریخ کو الگ بدلنے کی منطم کوششیں بڑے منصوبہ بند طریقہ پرجاری ہیں ۔
مسلم بچوں کی مذہبی تعلیم پر قد غن لگانے کے لئے دینی مدارس پر بھی طرح طرح
کی پابندیاں لگانے کی مذموم کوششیں ہو رہی ہیں ۔ اقلیتی طالب علموں کے آگے
بڑھتے قدم کو روکنے کے لئے اسکالر شپ کی تعداد کوکافی کم کر دیا گیا ہے ۔
مودی حکومت میں ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے اندر اب تک
چھوٹے بڑے 300 سے زائد فسادات ہو چکے ہیں ، جن میں 157لوگ مارے گئے اور بڑی
تعداد میں لوگ زخمی ہوئے ہیں ۔
اس پورے منظر نامے کو دیکھنے کے بعد جس طرح نریندر مودی بار بار سوا سو
کروڑ عوام کی باتیں کرتے ہیں اور نعرہ لگاتے ہیں ’ سب کا ساتھ ، سب کا
وکاس‘ وہ بڑا مضحکہ خیز لگتا ہے ۔
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں جس طرح ہمارے بعض ناعاقبت اندیش اور نام نہاد
مسلمان حاکم وقت کے سامنے سجدہ ریز ہو رہے ہیں ، وہ زیادہ تشویشناک اور
افسوسناک ہے ۔ ایسے لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان فرقہ پرستوں کے جھانسے میں
آنے اور ایسے ایسے خوشنما اور سنہری خواب سے متاثر ہو کر ،ریاست بہارمیں بی
جے پی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھنے والے بہار کے کئی سرکردہ لوگ مثلاََ
سابق ممبر راجیہ سبھا اور جدیو کے رکن صابر علی ، جن کی لوک سبھا انتخاب کے
وقت بھاجپا میں شمولیت کے بعد مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے کہا تھا کہ اب
بھاجپا میں داؤد ابراہیم جیسے لوگ بھی شامل ہونے لگے، دوسر ے تھے، نیتیش
حکومت کے ذریعہ بنائے گئے ،سابق مدرسہ بورڈ کے چئیرمین مولانا محمد اعجاز
احمد ، جنھوں نے بھاجپا میں شمولیت کے بعدکافی فخر محسوس کیا تھا ۔ بہار کے
ایک سابق وزیر جمشید اشرف بھی ،جن پر نیتیش کمار کی خاص عنایتیں رہی ہیں ،
اس کا صلہ انھوں نے یہ دیا تھا کہ وہ بہار کے اسمبلی انتخاب میں بھاجپا کے
ذریعہ چلائی جا رہی مسلم بیداری مہم کے سرپرست بن کر گاؤں گاؤں قریہ قریہ
بھاجپا کے رتھ پر سوار ہو کر گھوم رہے تھے اور بہار کے مسلمانوں کو بتا رہے
ہیں کہ نریندر مودی مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں ۔ اسے ثابت کرنے کے لئے کئی
مثالیں بھی دی گئی تھیں ۔ بی جے پی کا اقلیتی سیل بھی ، جس میں ڈاڑھی ٹوپی
والے مولویوں اور مولاناؤں کی تعداد کافی بڑھتی ہوئی تھی۔ یہ سب کے سب بہار
کے اسمبلی انتخاب میں بھاجپا کی کامیابی کے لئے پوری طرح سرگرم عمل ر ہے
تھے۔لیکن ان کے کردار و عمل کا بہار کے عوام نے جس طرح جواب دیا ، انھیں
بھولنا نہیں چاہئے ۔
اس پورے منظر نامہ کو سامنے رکھنے کا میرا مقصد یہ ہے کہ اتر پردیش کاآئندہ
سال ہونے والے اسمبلی الیکشن، بہار کی طرح ہی فرقہ پرستوں کے لئے ناک کا
سوال ہے ۔ اتر پردیش جیسی بڑی ریاست پر قبضہ جمانے کے لئے یہ لوگ وہ سب کر
گزر سکتے ہیں ، جو انھیں یہاں برسر اقتدار لا سکے ۔ اس کے لئے مسلمانوں کو
رجھانے کی کی بھی حکمت عملی اپنائی جائیگی ۔کچھ لوگ ان کی لالچ میں آکر ملت
کا سودا بھی کر رہے ہیں ۔ ایسے ناعاقبت مسلمانوں کو اس بات سے کوئی غرض
نہیں کہ انھیں لالچ دینے والے لوگ حکومت میں آنے کے لئے کس کس طرح کا کھیل
کھیل رہے ہیں ۔ مرکزی حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے مظفر نگر وغیرہ میں فرقہ
وارانہ فساد کرایا ، بہاراسمبلی انتخاب کے وقت دادری میں بے گناہ اخلاق کی
بے رحمی سے ہلاک کیا ۔ فورسنک رپورٹ میں یہ ثابت ہو گیا کہ اخلاق کے یہاں
جو گوشت تھا ، وہ دراصل مٹن تھا ۔ لیکن اب اتر پردیش کے انتخاب کے پیش نظر
اب ایک دوسری رپورٹ سامنے لا کر فرقہ واریت کو ہوا دی جا رہی ہے کہ اخلاق
کے یہاں سے ملنے والا گوشت گائے کا تھا ۔ اس لئے اب اخلاق کے خاندان والوں
پر مقدمہ کیا جائے ۔ اتر پردیش کے مختلف علاقوں میں طرح بجرنگ دل آر ایس
ایس اور درگا واہنی جیسی جماعتوں کے ذریعہ ہتھیار چلانے کی مختلف کیمپوں
میں ٹریننگ دی جا رہی ہے ۔جو یقینی طور پر آنے والے وقت کے لئے نہایت
خطرناک ثابت ہوگا ۔ اس لئے اس معاملے میں جو لوگ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں
، وہ اس دور اندیشی کو بخوبی سمجھ رہے ہیں ۔ وہ یہ بھی اچھی طرح سمجھ رہے
ہیں کہ مرکزی حکومت کا اتر پردیش کے اسمبلی انتخاب میں مسلمانوں کے تئیں
کیا پالیسی اور کیا لائحہ عمل ہے۔؟ ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفادات کے حصول کے
لئے جس طرح ہمارے بعض مسلم رہنما ملک کے پورے منظر نامہ کو دیکھتے ہوئے بھی
اپنی فہم وفراست کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں ، وہ دن بہ دن ملک کے اندر
بڑھتی فرقہ واریت ، مسلمانوں کے بگڑتے حالات اوران پر تنگ ہوتی زمین کو
دیکھتے ہوئے مستقبل میں کف افسوس ملتے ہوئے اس امر کا اعتراف کرنے پر مجبور
نہ ہوں کہ لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی۔جسٹس سچر نے بھی موجودہ
صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس وقت ملک کے مسلمان
دہشت میں ہیں ۔ پھر بھی ہم خواب خر گوش میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ |
|