پاکستان کے خلاف بھارتی آبی دہشت گردی
(Shumaila Javed Bhatti, )
پاکستان پانی کے زیریں خطے میں واقع ہونے
کی وجہ سے پانی کی شدید کمی کا بُری طرح شکار ہے خاص طور پر مقبوضہ کشمیر
سے آنے والے دریاؤں کا پانی بھارت آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ
صرف روک رہا ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بھارتی
وزیر اعظم نریندر مودی کے حکم پر دریائے چناب کے پانی کا رُخ موڑ کر دریائے
بیاس میں ڈالا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کو صحرازدگی کا شکار بنا کر خشک سالی
کے شکار افریقی ممالک صومالیہ اور ایتھوپیا جیسی صورتحال سے دو چار کردیا
جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بہنے والے بہت سارے دریاؤں کے پانی کے بہاؤ پر
کنٹرول حاصل کرکے بھارت نہ صرف اس پانی کو روک سکتا ہے بلکہ دوہری آبی
جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اچانک پانی چھوڑ کر 48گھنٹے میں پاکستان کو
اپنے ڈیموں کے گیٹ کھول کر ڈبو سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پوری دنیا کو
متاثر کررہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں پانی پر لڑی جائینگی۔
بھارتی آبی جارحیت کے تناظر میں تو یہ بات زمینی حقیقت بن چکی ہیں۔
ماضی میں بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کے خلاف دھمکی اور دھونس
کی زبان استعمال کرنا شروع کردی تھی مگر پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور اس
وقت کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے یکے بعد دیگرے چھ ایٹمی دھماکے
کرکے بھارت پر پاکستان کی ایٹمی قوت ہونے کا اعلانیہ اظہار کردیا جس کے بعد
سے آج تک بھارت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ پاکستان کو ایٹمی دھونس اور
برتری کی نفسیاتی جنگ کے ذریعے زیردست نہیں کرسکتا کیونکہ پاکستانی قوم
زبردست قوت مزاحمت رکھتی ہے مگر یہ جان لینے کے بعد کہ پاکستان پر فوجی
جارحیت مسلط نہیں کی جا سکتی بھارت نے پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے آبی
جارحیت کا آغاز ایک طے شدہ منظم منصوبہ کے تحت کررکھا ہے۔
بھارتی آبی جارحیت میں ایک نیا اضافہ چند روز قبل اس وقت دیکھنے میں آیا جب
بھارت نے دریائے جہلم کا پانی بند کردیا جس کا بنیادی ہدف نیلم ویلی
پروجیکٹ کے لئے دستیاب پانی کی بندش ہے تاکہ آزاد کشمیر میں نیلم ویلی
ہائیڈرو پروجیکٹ کو ناکام بنایا جاسکے۔ بھارتی دوہری آبی جارحیت کے تحت
جہاں دریائے جہلم کے پانی کی بندش کی گئی ہے وہاں مقبوضہ کشمیر میں کشن
گنگا ڈیم کی تعمیر کے ذریعے دریائے جہلم کے پانی کا رُخ ہی تبدیل کردیا
جائیگا۔ حالانکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت حقیقت یہ ہے کہ سندھ طاس
معاہدے کے تحت بھارت پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ دریا کا رخ تبدیل نہیں کرسکتا۔
پاکستان کے اعتراضات میں سب سے اہم نکتہ پانی کے رخ کی تبدیلی ہے۔ جھگڑا یہ
ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں دریائے جہلم پر 330 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے
کا ایک منصوبہ شروع کرچکا ہے۔ یہ ڈیم مظفر آباد سے 160 کلو میٹر اوپر کی
طرف واقع ہے۔ اس ڈیم کی بننے سے کشن گنگا دریا (جسے پاکستان میں دریائے
نیلم کہا جاتا ہے) کا پانی ایک اور نالے میں جاگرے گا۔ نتیجتاً دریائے نیلم
کا پانی کم ہو جائے گا جس کا نقصان پاکستان کو بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت
میں کمی کی صورت میں برداشت کرنا پڑے گا۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ یہ
منصوبہ معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی ہے۔ 2004ء میں پاکستان کے لاتعداد
اعتراضات کی وجہ سے بھارت نے ڈیم کے ڈیزائن میں چند تبدیلیاں کیں لیکن
پاکستان کے بنیادی اعتراضات دور نہیں کئے۔ بھارت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ
پاکستان نے نیلم ویلی منصوبہ بعد میں تشکیل دیا گیا جبکہ کشن گنگا ڈیم کا
منصوبہ پہلے شروع کردیا گیا تھا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ کون سا منصوبہ پہلے شروع
کیا گیا اور کون سا بعد میں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا کشن گنگا ڈیم کا بننا
معاہدہ سندھ طاس کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟۔
معاہدہ سندھ طاس کے مطابق بھارت میں جتنا پانی ذخیرہ کیا جائے گا اتنا ہی
پانی چھوڑنا بھی پڑے گا۔ پانی کے رخ کی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو گرمیوں
میں 11 فیصد اور سردیوں میں 27 فیصد پانی سے محروم ہونا پڑے گا کیونکہ پانی
کی اس کمی کی وجہ سے پاکستان کو نیلم جہلم پلانٹ پر 11 فیصد کم بجلی حاصل
ہوگی۔ پاکستان میں ایکوسسٹم بُری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے فصلوں اور
ماحولیات کا جو نقصان ہوگا وہ ناقابل تلافی ہے۔ دوسری طرف بھارت پاکستان کی
طرف سے اٹھائے گئے ان اعتراضات کو نہیں مانتا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پانی کا
رخ تبدیل کرنے سے پاکستان کا پانی کم نہیں ہوگا بلکہ پہلے جتنا ہی رہے گا۔
فرق صرف یہ پڑے گا کہ پہلے نیلم اور جہلم دریا آزاد کشمیر میں آکر ملتے تھے
لیکن اب مقبوضہ کشمیر میں ہی جائیں گے۔
اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کے پالیسی ساز و منصوبہ ساز ادارے اور قائدین
بھارت کی ’’مذاکرات مذاکرات کھیلو‘‘ کی چال کو سمجھیں، ماضی سے سبق حاصل
کریں اور کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھارت سندھ طاس معاہدے کی جو صریحاً
خلاف ورزی کررہا ہے اس کے خلاف عالمی سطح پر جارحانہ سفارت کاری کے ذریعے
آواز بھی اٹھائی جائے اور مسئلہ اجاگر بھی کیا جائے۔ بڑی عالمی طاقتوں نے
جس طرح پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لئے کاوشیں کی ہیں وہ دنیا کی دو ایٹمی
طاقتوں کو جنگ سے بچانے کے حوالے سے لائق تحسین ہیں۔ اب انہی طاقتوں کا فرض
ہے کہ وہ بھارت کو سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں کی صورت میں
پاکستان کے خلاف جاری آبی جارحیت سے بھی روکیں۔ |
|