آج کل سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی
ہیں کہ خیبر پختونخواہ کے سابق وزیراعلیٰ اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما
مرحوم اعظم ہوتی کے بیٹے امیر حیدر ہوتی کے خلاف خیبر پختونخوا نیب میں
جاری تحقیقات بند کر دی گئی ہیں ۔ فوری نتیجہ اس تبدیلی کا یہ آیا ہے کہ
جناب حیدر ہوتی کے بیانات تبدیل ہو گئے ہیں ۔پہلے وہ پختونوں کی پگڑیاں
اُچھالنے کی شکایت کرتے تھے اب کرپشن کے خلاف شکایت کرتے نظر آرہے ہیں ۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط
حکومت نے 2008ء سے 2013ء تک جس ’’ اندازِ حکمرانی‘‘ کی بنیاد رکھی تھی
اُس سے وطن عزیز کی نہیں تو کم از کم پختو نخوا اور پختون قوم کی بنیادیں
ہل گئی ہیں ۔ ایک طرف تو یہ الزامات تھے کہ پختون قوم کی ’’موروثی قیادت ‘‘
نے خفیہ طور پر امریکہ جاکر اس وقت کے نائب صدر ڈک چینی سے ’’معاملات‘‘ طے
کیے اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی ہر غلط کاری پر آنکھیں بند کرکے
پختون روایات واقدار کو لمبی نیند سُلا دیا گیا۔
مقامی طو ر پر سوات آپریشن اور آئی ڈی پیز کے معاملے میں بے رحمی ،
بدعنوانی، بُری حکمرانی اور ’’حصہ بقدر جثہ‘‘ کی وصولی کے بعد ہر انسانی
حقوق کی خلاف ورزی پر بدترین خاموشی نے تحریک طالبان پاکستان جیسی خطرناک
تحریک کو اُبھرنے کا موقع دیا۔ اَمن کی فاختہ کے نام پر فاختاؤں کی خرید
وفروخت کی گئی اور کل تک 78ء اور 81ء ماڈل کی گاڑیوں میں گھومنے پھرنے
والوں کے دن ایسے پھر گئے کہ انہوں نے پختون قوم کی طرف پھر کر بھی نہیں
دیکھا۔ کسی نے پوچھا بھی تو کہا گیا کہ وہ دن گزر گئے جب خلیل خان فاختہ
اُڑایا کرتے تھے۔ اب خلیل خان دوبئی اور ملایشیاء کی طرف اُڑان کرنے والے
طیاروں میں اُڑتے رہتے ہیں ۔ سب سے غضب کی بات تو یہ ہے کہ ہیرے جواہرات کے
پجاریوں نے نہ صرف پختون قوم کا کفن بیچا بلکہ اس بدنصیب قوم کی حفاظت کے
لیے آنے والے َاسلحہ اور بارود کے پولیس فنڈز پر بھی ایسی غضبناک نگاہ ڈالی
کہ سب کچھ خاک ہو گیا اور بات آپریشن ضرب عضب تک پہنچ گئی۔ جو کوئے یا رسے
نکلے تو سوئے دار چلے۔ اسلحہ اسکینڈل وہ بدنامِ زمانہ اسکینڈل ثابت ہوا جس
میں کئی پردہ نشینوں کا پردہ چاک ہوا اور خشک لکڑیوں کے ساتھ بعض گیلی
لکڑیاں بھی جل گئیں۔ افسوس کہ ان نقاب پوش پردہ نشینوں نے عدالتی احکامات
کے پردوں کے پیچھے منہ چھپا یا اور بعض نیب کے ہتھے چڑ گئے ۔ اس پکڑ دھکڑ
میں سابق صوبائی وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی کے قریبی مشیر اور رازداران سید
نیازعلی شاہ اور سید معصوم شاہ اپنے حصے کی نذرونیاز دے کر آزاد ہو گئے اگر
چہ قوم ان کی ’’معصومیت‘‘ پر یقین نہیں کر رہی ہے کہ معاملات کسی اور جگہ
طے پاگئے ہیں ۔’’نوجوان پختون قیادت‘‘ کے امیر جناب امیر حیدر ہوتی کے سگے
بھائی غزن ہوتی بھی اس چمک کے عشق میں سرِ بازار رُسوائی کا داغ سہہ گئے۔
اس کوچہ وبازار میں پختون قوم کی سادہ لوحی بیوقوفی کی حد پھلانگ گئی اور
عزتِ سادات گنوا بیٹھی ۔خیبر پختونخوا نیب کو لوگوں نے شاندار کارکردگی پر
عزت کی نگاہ سے دیکھا اور قدرت نے ہر کمالے راز والے کا منظر دکھایا ۔ ابھی
قوم ایک کڑے احتساب کا انتظار کر رہی تھی اور امیر جماعت اسلامی سینیٹر
سراج الحق کے ٹرین مارچ میں مفت کے سفر کا سوچ رہی تھی کہ سوشل میڈیا پر یہ
خبر نظروں سے گزری کہ خیبر پختونخوا نیب کی ایک تفتیشی ٹیم جو جناب امیر
حیدر ہوتی کے محل نما گھر کا حدود اربعہ ناپنے کے لیے گئی تھی اور واپس
ناکام لوٹی۔ٹیم کو اننگز کھیلنے ہی نہیں دیا گیا۔ ریفری نے انگلی نہیں
اُٹھائی اور نیب کے بے دست وپا تفتیشی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔ ایسا
خیبر پختونخوا میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی پختون رہنما کے گھر سے کوئی سائل
خالی ہاتھ لوٹا ہو۔ ہم نیب خیبرپختونخوا کے ساتھ پوری ہمدردی رکھتے ہیں مگر
معاملات کی تہہ تک پہنچنے کے لے جب نیب کے بعض ذرائع سے رابطہ کیا گیا تو
معلوم ہوا کہ سرے سے وہ تحقیقات ہی بند ہو گئی ہیں جس کے لیے نیب کی ٹیم
مردان گئی اور پھر اس نئے ، وسیع اور محافظوں سے بھر پور گھر کو دُور سے
دیکھنے کے بعد واپس آگئی تھی۔ ذرائع نے یہ دُکھ بھری داستان سنانے سے
انکارکیا البتہ اسلام آباد کے بعض اعلیٰ حلقوں کی زبانی معلوم ہوا کہ
پانامہ لیکس سے قبل سی پیک پر پختون قوم کے بعض حلقوں ، غیر سرکاری تنظیموں
اور قوم پرست جماعتوں نے مغربی روٹ کے مسئلے پر شدید احتجاج شروع کیا تھا۔
وفاقی حکومت کو خیبر پختونخوا میں ساتھیوں کی تلاش ہوئی۔ اس موقع سے فائدہ
اُٹھاتے ہوئے جناب اسفندیار ولی خان نے وزیراعظیم میاں محمد نواز شریف سے
ملاقات کی اور سی پیک پر ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ تاہم جذبۂ خیر سگالی
کے طور پر چیئر مین نیب سے گزار ش کی گئی کہ وہ قومی سطح کے معاملات میں
نرمی اور حُسن ِ سلوک کا مظاہرہ کریں ۔ دورغ برگردن راوی کہ درخواست
باقاعدہ طور پر منظور ہوئی اور یوں نیب میں پہلی بار ’’قومی اور حساس
معاملات‘‘ کے پیش نظر وہ سب کچھ بھلا دیا گیا جس کے لیے امیر جماعت اسلامی
نے لاکھوں لوگوں کا جینا حرام کرکے ٹرین مارچ چلادی ہے۔ سوشل میڈیا، ادبی
تنظیموں ، سیاسی جماعتوں، نیب زدگان، دانشوروں ، سرکاری حلقوں ، اخباری
نمائندوں اور نجی محفلوں میں قانون کی حکمرانی اور امتیازی سلوک کی موت کا
نوحہ پڑھا گیا کہ اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر سید نیازعلی شاہ اور سید
معصوم شاہ سمیت غزن ہوتی کا کیا قصور تھا؟ پھر اسلحہ اسکینڈل میں گرفتار
ہونے والے کئی سرکاری وغیر سرکاری افراد اور پاک فوج کے چھ افسران کے کورٹ
مارشل اور ریکوری کا کیا مقصد تھا؟ اس سلوک نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس
ملک میں سب کچھ ممکن ہے ۔ آخر قوم جنرل راحیل شریف کی طرف کب تک دیکھے گی؟
کیا پاک فو ج کے سربراہ جنرل راحیل شریف جو سی پیک کے تحفظ کے بارے میں کئی
بیانات دے چکے ہیں بتا سکتے ہیں کہ سی پیک کا پہلا فائدہ کس کو ہوا؟ کیا
یہی اقتصادی فوائد ہیں جو سی پیک کے آغاز ہی سے ہمارے انجام کا پتہ دے رہی
ہیں ؟قومی مفادات کے بارے میں لوگ سوال کرتے ہیں ۔ کیا عوام کو قومی مفادات
کے بارے میں سوال کرنے کا حق نہیں ہے؟ کیا یہ ملک پاکستان کے باشندوں کا
نہیں ہے؟ کیا کسی جاگیردار اور سرمایہ دار سے کبھی پوچھ گچھ نہیں کی جائے
گی؟ کیا چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ بتا سکتے ہیں کہ
کیا قانون واقعی سب کے لیے برابر ہے؟ اس سے قبل ایک دوسرے پختون رہنما
آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے خلاف بھر پور تحقیقات ہوئی تھیں ۔ ان کو ملک تک
چھوڑنا پڑا۔ واپسی پر گرفتار بھی ہوئے۔ عدالتوں اور ضمانتوں کے چکر سے بھی
گزرے اور مردانہ وار مختلف تحقیقات کا مقابلہ بھی کیا جو بھی ہوا مگر قانون
کے تقاضے پورے کئے گئے ۔ کیا مذکورہ کسی میں بھی ایسا ہی ہوا؟ کیا کے پی کے
پولیس کا اَسلحہ سکینڈل میں بھی ایسا ہی ہوگا؟ واقفان ِ حال کا کہنا ہے کہ
پانامہ لیکس سے حکومتِ وقت پر جو سخت وقت آن پڑا اُس میں نیکی کا بدلہ نیکی
نے کا م کر دکھایا اور جناب اسفندیار ولی خان نے بار بار بیان دیا کہ کوئی
مائی کا لال بھی وزیراعظم سے استعفیٰ طلب نہیں کر سکتا۔ پتہ نہیں جناب
اسفندیار خان کس کو للکار رہے تھے؟ کیا ان کا اشارہ فوج کی طرف تھا؟ جو بھی
شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قسم کے بیانات خان صاحب نے دیئے اس کے بدلے
وزیراعظم نے ولی باغ کو چند گلدستے بھیج دیئے گویا آملے ہیں سینہ چاکانِ
چمن سے سینہ چاک۔
نیب کے بعض قریبی حلقوں نے بتایا کہ انہی سوالات کو لے کر نیشنل پارٹی (ولی
گروپ) کی سربراہ بیگم نسیم ولی خان نے نیب پشاور کے اعلیٰ افسران سے ملاقات
کی اور ان کے سامنے اپنی کل موروثی جائیداد کی تفصیل رکھ دی اور پھر سوال
اُٹھایا کہ آخر اُن کے حقیقی بھانجوں اور جناب اسفندیار ولی خان کے پاس
اتنی دولت یا اتنے وسائل کہاں سے آئے ہیں ؟ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ محترمہ
بیگم نسیم ولی نے نیب کے افسران کو کیا کیا معلومات دی ہیں مگر اتنا تو بہر
حال طے ہے کہ لالچ، بدعہدی اور قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے
کے خلاف خود ان بڑے بڑے گھرانوں سے آوازیں اُٹھ رہی ہیں ۔ اس گھر کو آگ لگ
گئی گھر کے چراغ سے ۔ ذاتی طو رپر مجھے ولی باغ کے اس باغ کو اس طرح اُجڑتے
دیکھ کر سخت دُکھ ہو رہا ہے۔ اس بات پر میرا دل یقیناً شدید زخمی ہے ۔ کاش
ہم لوگ درہم اور دینار کے بندے نہ بنتے اور صرف اپنے خالق ومالک کے بندے
بننے پر راضی رہتے ۔ دُنیا کی اس عارضی چمک دَمک نے ہمیں اندھا کر دیا ہے ۔
دولت کی ہوس نے ہمیں پاگل کر دیا ہے ۔ ملک وقوم اورضمیر کا سودا کر نے
والوں پر کبھی حملے ہو رہے ہیں اور کبھی ان کی پگڑیاں اُچھلتی رہتی ہیں ۔
کیا وہ اپنے آپ سے سوال کر سکتے ہیں کہ وہ کس عذاب میں مبتلا ہیں ؟ آخر ان
کو اس عذاب کا سامنا کس وجہ سے ہو رہا ہے؟ کیا ان کے لیے یہ دُنیا جہنم سے
کم ہے؟ کیا ان کو کسی اور جہنم کا انتظار ہے؟ |