صبح شام تیرا نام

لسّی کو پہلے پہلوانوں کا مشروبِ خاص سمجھا جاتا تھا۔ویسے کہنے میں حرج تو نہیں۔۔لسّی کی بدنامی کرنے میں پہلوانوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔ پہلے تو لسّی کے لیے بڑے بڑے لمبے گلاس منتخب کیے گئے( کیونکہ آج بھی چھوٹے گلاسوں میں لسّی پینے کا تصور نہیں) پھر لسّی میں مکھن کی ڈلی اور کھوئے کے پیڑے ڈال کر اسے اتنا مقوی بنا دیا گیا کہ عام انسان کی پہنچ سے دور کر دیا گیا۔۔وہ تو بھلا ہو شائقین کا جنہوں نے اپنا مطلوبہ ڈرنک جلد ہی تیار کر لیا۔پاکستان میں لاہور، گوجرانوالہ،فیصل آباد اپنی روایتی لسّی کی وجہ سے بھی شہرت میں رہتے ہیں۔
کچھ چیزیں پورا سال روز مرہ کی روٹین میں ایسے شامل رہتی ہیں کہ ہم انھیں زندگی کا بس ایک جزو سمجھ کر چلتے رہتے ہیں ۔ نظر میں ہوتی ہیں اور نہیں بھی۔۔لیکن ماہِ رمضان آتے ہی ان کی قدرو قیمت از خود بڑھ جاتی ہے۔ سب ان کی طرف یوں متوجہ ہونے لگتے ہیں ،
صبح نہ آئی شام نہ آئی
کس دن تیری یاد نہ آئی

جی ہاں۔۔ٹھیک سمجھے!دہی۔۔ پاکستان میں ہر گھرمیں صبح ناشتے کی میز ، دسترخوان پر ایک لازمی غذا ہے جسے ہر عمر کے لوگ بڑے شوق سے استعمال کرتے ہیں۔یہ دودھ سے بنتا ہے اسلیے اسکی غذائیت دودھ کے برابر ہے۔پنجاب کے رہنے والے دہی کا بکثرت استعمال کرتے ہیں۔ان کی اچھی صحت کا راز اسی میںچھپا ہے۔ دہی لایا تو بازار سے جاتا ہے لیکن پھر بھی خواتین کی اکثریت اسے گھر پر تیار کرنا جانتی ہے۔ نیم گرم دودھ میں کھٹی دہی جسے ’’جاگ‘‘ کہاجاتا ہے ملا کر رات بھررکھ دیا جاتا ہے ۔ ایک لیٹر دودھ میں دو چمچے ۔۔جاگ۔۔ جوصبح تک دودھ کی بجائے دہی کی ٹھوس حالت میں آ جاتا ہے ۔ اس کے اوپر ملائی بھی آ جاتی ہے۔ موسم گرما میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ عموما چھ سے آٹھ گھنٹے کا وقت لیتا ہے جبکہ موسم سرما میں بارہ سے سولہ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ اس کا آغاز مصر سے ہوتا ہواایران، روس، عرب، بلقان اور متحدہ ہندستان میں رواج پاگیا۔وقت گزرنے کے ساتھ دہی بنانے کے طریقے بہتر اور نئے انداز میں آنے لگے۔جیسے بیرونی ملکوں میں اس میں مختلف پھل وغیرہ ملا لیے جاتے ہیں۔ ساری دنیا میں اس کا بول بالا کہ یہ بکثرت استعمال ہوتا ہے اور انسانی صحت کے لیے بہت مفید ہے۔

دہی کی تاریخ بھی بڑی دلچسپ ہے،

دودھ صدیوں سے انسانی خوراک کا حصہ ہے۔ قبل از تاریخ کا انسان بھی گائے‘ بکری‘ بھینس‘ اونٹ اور بھیڑ کے دودھ کو بطور غذا استعمال کیا کرتا تھا۔ ان کے مویشیوں کے دودھ کی مقدار کم ہوتی تھی اس لیے وہ اسے جانوروں کی کھالوں یا مٹی کے برتنوں میں جمع کرلیتے تھے تاکہ بہ وقت ضرورت آسانی سے استعمال میں آجائے۔شروع شروع میں اسے کچی حالت میں رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن کچے دودھ کو محفوظ حالت میں رکھنا‘ وہ بھی اس طرح کہ اس کی غذائیت بھی برقرار رہے ناممکن سی بات ثابت ہوئی۔ اس مسئلے کا حل اتفاقی طور پر دریافت ہوا ۔ جنوب مغربی ایشیا کے وسیع علاقوں میں سفر کرنے والے ”نوماد“ قبیلے کے لوگ دودھ کی شکل میں اپنی رَسد کو بھیڑ کی کھال سے بنے ہوئے تھیلے میں رکھا کرتے اور اسے اپنے جانوروں کی پیٹھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔ ایام سفر میں وہ تھیلے مسلسل ہلتے رہتے اس پر سورج کی تپش بھی اپنا اثر دکھاتی رہتی۔ نتیجتاً ہ دودھ خمیر بن کر نیم ٹھوس شکل اختیار کرلیتا۔ وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ بھیڑ کی کھال کے اندرونی حصے میں چھپے ہوئے بیکٹریا نے دودھ کو خمیر کرکے دہی کی شکل دے دی تھی۔۔

ابتداءمیں دودھ کی اس شکل کو بہت کم مقدار میں استعمال کیا جاتا تھا کیوں کہ نوماد قبیلے والے اسے زہریلا سمجھتے تھے پھر آہستہ آہستہ تجربے سے یہ بات سامنے آئی کہ دودھ کی یہ نئی شکل مضرِ صحت نہیں بلکہ معجزاتی غذا ہے۔ جب اس کی افادیت سامنے آئی تو اسے بنانے کا طریقہ دریافت کیا گیا۔ دودھ کو جمانے کے لیے انہوں نے اس میں تھوڑا سا دہی ملالیا۔ اس تجربے نے کامیابی عطا کی اور پھر دھیرے دھیرے یہ بات ثابت ہوگئی کہ کھٹا اور خمیر کیا ہوا دودھ بصورت دہی تازہ دودھ سے زیادہ فائدہ مند ہے۔اسطرح نہ صرف زیادہ عرصے تک اچھی حالت میں رہتا ہے بلکہ اس کا ذائقہ بھی مزیدار ہوجاتا ہے۔ پھر تو اسکے بے شمار فوائد سامنے آنے لگے۔
بلغاریہ کے لوگوں کی طبعی عمر دیگر ممالک سے زیادہ ہے۔ سائنسدانوں نے مسلسل تجربوں اور تجزیہ کے بعد پتا چلایا کہ اس کی ایک وجہ دہی ہےکیونکہ وہاں کے لوگ دہی کا استعمال بہت زیادہ کرتےہیں۔

فرانس میں اسے حیاتِ جاوداں کا نام دیا گیا۔ کہتے ہیں کہ 1700 میں فرانس کا کنگ فرسٹ کسی بیماری میں ایسا مبتلا ہوا کہ کوئی علاج کارگر نہیں ہوتا تھا۔ بادشاہ سوکھ کا کانٹا ہوگیا ۔ نقاہت اس قدر بڑھ گئی کہ وہ بیٹھنے کی قوت بھی کھو چکا تھا۔ اس کے علاج کے لیے مشرق بعید کے ایک معالج کو بلایا گیا۔ اس نے بادشاہ کو صرف دہی کا استعمال کرایا اور کنگ فرسٹ صحت یاب ہوگیا۔

فرانس ہی کے ایک ماہر جراثیم پروفیسر میچسنٹکو لکھتے ہیں کہ دہی درازی عمر کی چابی ہے۔ اس کے استعمال سے نہ صرف انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے بلکہ طویل عمر پاتا ہے۔

دہی میں اچھی قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں ، جس سے جسم کو کئی طرح سے فائدہ ملتاہے ۔ آیور ویدک کے مطابق موسم گرما میں دودھ کے مقابلے دہی کھانے کے فوائد زیادہ ہیں ۔ روزانہ ایک کٹوری دہی نہ صرف بیماریوں کو دور رکھتا ہے بلکہ جسم کوصحت مند بناتا ہے ۔ دودھ میں ملنے والی موٹی ملائی اور چکنائی جسم کو ایک خاص عمر کے بعد نقصان پہنچاتی ہے جبکہ اس کے مقابلے دہی سے ملنے والا فاسفورس اور وٹامن ڈی جسم کے فائدہ مندہے ۔دہی میں کیلشیم ایسڈ کے طور پر سما لینے کی بھی خوبی ہوتی ہے ۔انسانی صحت کے لئے یہ اتنا ہی فائدے مند ہےجتنا کہ دودھ۔

تو یہ دہی جس پہ ماہرین نے اتنی عمیق نظر ڈالی، ماہِ رمضان کی سحری ہو یا افطاری اس میں لازم وملزوم بن کر رہ جاتا ہے۔اگر سالن نہ ملے تو اس سے بھی روٹی کھا لی جاتی ہے۔اس کی ملائی پہ چینی چھڑک کر کھانے سے تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔ دہی کی ملائی دودھ کی ملائی سے کسی طرح کم نہیں۔دودھ دہی والے کی دوکان پہ دہی جمائی ہوئی کنالیوں میں ان کے اوپر دہی کی پروفیشنل ملائی، آہا کیا خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔بچپن میں ایک بار ان گنہگار آنکھوں نے دیکھا تھا کہ ایک صاحب دوکان سے دہی خرید کر گھر لے جارہے تھےلیکن راستے میں ہی اس پر موجود ملائی اتار کر ہڑپ کرگئے تھے۔یقینابے چارے گھر والوں کو انھوں نےبغیر ملائی کا دہی کھلایا ہو گا۔

سحری میں لوگ چائے کو پس پشت ڈال کر خود بخودد ہی کی لسّی کے متوالے بن جاتے ہیں۔ افطاری میں کئی اقسام کی چاٹ بنتی ہے۔دہی بڑے، دہی پھلکیاں، چنے کی چاٹ جو یقینا دہی کے محتاج ہیں ،ان میں دہی ایک لازمی عنصر ہےورنہ۔۔!
اس کے بغیر چنے سوکھے سوکھے رہیں گے۔۔
پاپڑی ناراض ہو جائے گی ۔۔
اِملی اور ہری چٹنی کے پیرہن کو بہترین سطح نہیں ملے گی۔۔
اور پھر شان، نیشنل والوں کا چاٹ مصالحہ، کس پہ اپنا جلوہ بکھیرے گا۔ ۔؟

چاٹ کے علاوہ دہی اب شیک میں بھی استعمال ہونے لگا ہے۔۔ پہلے صرف مینگو شیک ہی شہرتِ دوام پر تھا۔اب مینگو لسّی بننے لگی ہے۔ کئی اقسام کی پھلوں کی اسموتھی میں اب یہ دودھ کے بالمقابل ہے۔دہی ڈاکٹر، حکیم کا بھی پسندیدہ ہے۔ڈاکٹری علاج معالجہ ہو یا حکمت کا،معدہ کی خرابیوں،گیس، اپھارے اورپیٹ کے دیگرامراض میں وہ دہی کا ہی تواستعمال کراتے ہیں۔پیٹ میں مروڑ اٹھیں یا پیچش کی بدولت حاجت خانے میں آنا جانا لگا ہو تواسپغول دہی میں ملا کر مریض کو کھلوانا ان کا کامیاب نسخہ ہے۔ زخمی اور سوجی آنتوں کی تکلیف میں موثر علاج۔ اس بات پرڈاکٹر، حکماء سب متفق ہیں کہ دہی میں پائے جانے والا کیلشیم، پروٹین ، رائیوفلیون، وٹامن بی، فولک ایسڈ انسانی صحت کیلئے بہت کارآمد ہے۔

سر میں دہی کی مالش اور دہی کی لسّی سےدھونا بالوں کی افزائش اور خشکی کے لیے بہت مفید نسخہ ہےاور آزمودہ بھی۔۔ ایک بار سکول ختم ہونےپر چند سہیلیوں نے بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کو انوکھا چیلنج دیاکہ اب تین ماہ بعد ملاقات ہو گی تو اس دورانیے میں بال لمبے کرنے کے نسخے آزمائے جائیں ۔ دیکھتے ہیں کون کامیاب ہو پاتا ہے۔۔! کچھ ماہ بعد۔۔ جب دوبارہ ملیں تو وہ سہیلی جیت چکی تھی جس نے پوری چھٹیاں دہی کی لسّی سے خوب بال دھوئے تھے ۔۔ لمبے گھنے خوبصورت بال سب کے سامنے تھے۔دیگر لوگ بھی دیکھ کر حیران ہوا کرتےتھے کہ اس نے ایسا کونسا جادائی نسخہ استعمال کیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق دودھ کی مقدار میں اگر دہی استعمال کیا جائے تو اس میں کیلشیم کی مقدار دودھ کی نسبت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ دودھ سے بیس فیصد زیادہ پروٹین کا حامل ہے۔ دہی بنتا تو دودھ سے ہی ہے اور دودھ میں پائے جانے والے کیلشیم کو ہضم کرنا آسان نہیں لیکن اگر دودھ کی بجائے دہی استعمال کیا جائے تو یہ کیلشیم بہت جلدی ہضم ہو جاتا ہے نا الٹے بانس بریلی کو،

ماہرین نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ دل ی تکالیف کی سب سے بڑی وجہ کولیسٹرول ہے جسے دہی کم کرتا ہے۔ اگر روزانہ دو پیالے دہی کھایا جائے تو حیران کن رفتار سے کولیسٹرول میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔ اس کے علاوہ انسانی جسم میں رَواں دَواں خون میں ہونے والے انفیکشن کے تدارک کیلئے اس سے بہتر کوئی دوسری غذا نہیں۔سودہی کو اینٹی بائیوٹک کا ذخیرہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آنتوں میں پائے جانے والے انتہائی خطرناک بیکٹریا کو یہ گردوں اورمثانے میں جانے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔ مدافعتی نظام کو بہترکرنے میں اسکا کوئی ثانی نہیں۔۔جو لوگ تین ماہ تک روزانہ دو سے تین پیالے دہی استعمال کرتے ہیں، ان کا مدافعتی نظام بہت تیزی سے بہتر ہوتا ہے۔

عام لوگوں کو اندازہ نہیں کہ نمک کا زیادہ استعمال کس قدر خطرناک اور مہلک ہوتا ہے۔ اس لاعلمی کی وجہ سے وہ ضرورت سے زیادہ نمک استعمال کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہائی بلڈ پریشر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے لوگ اگر دہی کا استعمال کرتے ہیں تو دہی ان کے جسم میں پائے جانے والے سوڈیم کی شدت کم کر کے بلڈ پریشر کو کنٹرول میں کرتا ہے۔ روزانہ دو سے تین پیالے دہی کھانے والے عموماً ہائی بلڈ پریشر سے محفوظ رہتے ہیں۔ کمزور نظام ہضم والے افراد کو بھی دودھ کی بجائے دہی استعمال کرنا چاہیے۔

ڈائٹنگ کرنے اور وزن کم کرنے والوں کے لیے بھی دہی ایک آئیڈیل خوراک ہے کیوں کہ اس کے اندر حراروں کی تعداد انتہائی کم ہوتی ہے۔نظام ہضم کو قوت فراہم کرنے کے علاوہ یہ غذا کو ہضم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وزن کم کرنے میں بھی معاون ہے۔ موٹے مرد و خواتین کے لیے تو یہ بڑے پتے اور گُر کی بات ہے کہ دہی وزن کم کرتا ہے۔ایک امریکی تحقیق کے مطابق دہی استعمال کرنے والے افراد 22 فیصد وزن کم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ81 فیصد افراد اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کو کم کرنے میں کامیاب رہتے ہیں،درحقیقت دہی میں موجود کیلشیم پیٹ کو کم کرنے میں مددگار ہوتا ہے۔دہی میں لیکٹو بیکٹیریا پایا جاتا ہے ۔ بڑی آنت کے کینسر سے بچاتاہے۔ دہی میں کیلشیم کی بھر پور مقدار موجود ہوتی ہے سوبوڑھے لوگوں کیلئے دہی صحت کی علامت ہے ،یہ ان کا معدہ اور نظام انہضام کو فعال اور بہتر رکھتا ہے۔

جب اتنے گنوں کی چیز ہو تو کیا اسے اپنی بقاء کی فکر نہ ہو گی ۔۔ جس کا نام و کام جاوداںہے۔کیونکہ یہیں پر دہی نے اپنا مزید کمال کردکھایا۔۔لسّی کی صورت، اب لوگ اگردہی کو بھول بھی جائیں تولسّی کو کسی صورت نہیں بھولیں گے۔

لسّی، دہی سے بنایا جانے والا ایک روایتی پنجابی مشروب ہےجو عام طور پر دہی میں پانی ملا کر مدھانی سے بلویا جاتا ہے ۔پھر اس میں سے مکھن علیحدہ کر لیا جاتا ہےاور حسب منشا نمک اور مزید پانی ملالیا جاتا ہے۔تو لیجئے گاڑھی گاڑھی لسّی تیار۔۔ کچھ لوگ اس میں چینی ملاتے ہیں۔ یوں میٹھی لسّی، نمکین لسّی چائے کو اچھا خاصا ٹاکرا دیتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں کے دیہاتی علاقوں خصوصا پنجاب میں لسّی بہت مقبول ہے۔ سخت گرمی میں ٹھنڈک، اطمینان اور نیند کا باعث ۔ زیادہ مقبولِ عام لسّی میں دہی، پانی اور نمک کا شامل کیا جاتا ہےلیکن میٹھی لسّی اور اَدھ رڑکا بھی پیاجاتا ہے۔ میٹھی لسّی میں دہی کے ساتھ دودھ اور چینی شامل کی جاتی ہے اور یہ عام لسّی سے زیادہ گاڑھی ہوتی ہے۔ عمومایہ ناشتے میں پی جاتی ہے حالانکہ اس میں نیند آور خصوصیات زیادہ ہوتی ہیں۔ پہلے وقتوں شہریوں کی صبح بیڈ ٹی کے بغیر نہیں ہوتی تھی اور گاؤں والوں کااَرلی مارننگ ناشتہ لسّی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب دونوں پارٹیوں نے کچھ اَدلا بدلی کر لی ہے۔ لسّی اب شہروں میں پی جانے لگی ہے اور گاؤں والے بھی چائے پینے لگے ہیں۔۔ روزے کی حالت میں بھی پیاس کی شدت سے گھبرانے والوں کو مختلف اقسام کی لسّی یاد آنے لگتی ہے۔ اس لیے سحری میں اسے بطور خاص پینے کو ترجیح دئیے جانے لگی ہے۔

مزے کی بات یہ ہےکہ لسّی کو پہلے پہلوانوں کا مشروبِ خاص سمجھا جاتا تھا۔ویسے کہنے میں حرج تو نہیں۔۔لسّی کی بدنامی کرنے میں پہلوانوں نے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔ پہلے تو لسّی کے لیے بڑے بڑے لمبے گلاس منتخب کیے گئے( کیونکہ آج بھی چھوٹے گلاسوں میں لسّی پینے کا تصور نہیں) پھر لسّی میں مکھن کی ڈلی اور کھوئے کے پیڑے ڈال کر اسے اتنا مقوی بنا دیا گیا کہ عام انسان کی پہنچ سے دور کر دیا گیا۔۔وہ تو بھلا ہو شائقین کا جنہوں نے اپنا مطلوبہ ڈرنک جلد ہی تیار کر لیا۔پاکستان میں لاہور، گوجرانوالہ،فیصل آباد اپنی روایتی لسّی کی وجہ سے بھی شہرت میں رہتے ہیں۔

ہمارے حساب سے تو قومی مشروب بھی گنے کے رس کی بجائے لسّی کو ہونا چاہیئے تھا۔۔کیونکہ دہی تو تقریبا ہر گھر کے کسی فرج، کونے، ہانڈی، چاٹی یا دودھ دہی والے کی کنالیوںمیں مل ہی جائے گی اور جھٹ پٹ لسّی تیار ہو جائے گی۔۔ پر گنے کا رس پینے کے لیے اوّل تو گھر سے باہر نکلنا ہو گا۔ پھرگنے کا رس نکالنے والی مشین کی تلاش میں طول و عریض میں نظریں دوڑانی پڑیں گی۔ دس بندوں سے اس کا جائے مقام پوچھنا ہو گا۔پھرگنے کی عدم دستیابی پہ یہ مشینیں غائب ہو جائیں گی۔ یوں دوبارہ گنے کے موسم کا انتظار کیا جائے گا۔۔ اور اگر آپ گھر سے نکل کر یہ جھنجھٹ نہیں کرنا چاہتے تو پھر بہتر ہےکہ جان مار کر گنے کا کھیت خود اُگا لیں اور گھر بیٹھے گنے چوپ چوپ کر اس کارس نکال لیں۔۔اور قومی مشروب کے گُن گائیں۔

لیکن اتنے جھنجھٹ پالنے کے بعد تو یقینا بندے کا دل دہی اور لسیّ کی طرف بخوبی مائل ہو ہی جائے گا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 53246 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More