جب چار روپے کا کیپسول آپ کو چار سو روپے
کا ملے اور جو نہ لے سکیں وہ سو روپے کا کیپسول اسی فارمولے کا لیں جو کہ
نقلی ہو تو بندے پہ کیا گزرتی ہے۔چارسو روپے کے خریدار کا مریض اگر اﷲ کی
مرضی ہو تو بچ جاتا ہے، اور سو روپے کے خریدار کا مریض اﷲ کی رضا سے اﷲ کو
پیارا ہوجاتا ہے۔ قصور کس کا؟ دکان دار کا؟ ڈاکٹر کا؟ یا پیسے کا؟ جہاں تک
میرا تجربہ اور علم کہتا ہے قصور سب کا ہے اور سب سے بڑھ کر اس فیکٹری کا
جس میں وہ دوائی بنائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فیکٹری نے وہ دوائی
بیچنی ہے۔ اوراپنے مسابقتی ادارے کے مقابلے میں لیڈ حاصل کرنی ہے۔ اور اتنا
کمانا ہے کہ اپنے ملازمین کو بھی دے سکے اور مالک اپنی تجوریاں بھی بھر سکے۔
اصل میں کھلی دوائی پاکستان میں آتی ہے۔ اس کو یہاں پر گولیوں کی صورت میں
تبدیل کرکے اس کی پیکنگ بنائی جاتی ہے یا پھر انہیں کیپسول میں بند کیا
جاتا ہے۔ بہت کم دوائیں ایسی ہوتی ہیں جو پاکستان میں بنتی ہیں۔لیکن ہم ایک
مثال کے طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ستر فیصد دوائی پاکستان میں بنتی ہے۔اب
ہوتا یہ ہے جو دوائی پیک ہو کر ایک صارف کے پاس پہنچتی ہے اس کی قیمت چار
سو روپے ہوتی ہے۔ اب یہ چار سو روپے کس کس پر تقسیم ہوتے ہیں یہ بھی پڑھ
لیں۔اس میں مالک کا حصہ، اس میں میڈیکل کمپنی کے نمائندے کا حصہ (کمیشن)،
اس میں ڈاکٹر کا حصہ، اس میں دکاندار کا حصہ۔ مالک، نمائندہ اور دکاندار کی
تو سمجھ آتی ہے، یہ ڈاکٹر کا حصہ کس لیے۔ کیا کوئی بھی ذی ہوش فرد یہ بتا
سکتا ہے کہ ڈاکٹر کے حصہ کی کیا تک بنتی ہے؟ ڈاکٹر کا تو کام ہے کہ وہ مریض
کو دوائی لکھ کر دے۔ اسکے پاس میڈیکل کمپنی کا نمائندہ صرف اپنا بروشر رکھ
چھوڑے اور چلا آئے۔ ڈاکٹر اس کو پڑھے اور اگر مناسب سمجھے تو وہ دوائی لکھ
دے، نہیں تو جس کمپنی کی چاہے لکھ دے۔
لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ کمپنیوں کے نمائندوں کے لیے باقاعدہ دن یا دن
میں کوئی وقت مخصوص کیاہوتا ہے۔بہت سارے نمائندے اکٹھے ہو کر یا ایک ایک ہو
کر جاتے ہیں۔ اپنا بروشر پیش کرتے ہیں اور ساتھ میں کچھ آفر بھی۔ وہ آفر
مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ جس میں دوائی کی مخصوص مقدار کے بیچنے کے متبادل
مختلف آفرز ہوتی ہیں۔مثال کے طور پر آلٹو گاڑی کی آفر، پلاٹ کی آفر ، مکان
کی آفر، یا پھر بیرونِ ملک ایک ٹرپ بشمول ویزہ اور کرایہ کے اخراجات۔ اگر
کوئی ڈاکٹر اس بات سے انکار کرتا ہے کہ ہر گز ایسی آفر نہیں ملتیں تو وہ
بتائیں کہ جب مارکیٹ میں میپرازول نامی دوائی اسی نام سے موجود ہے، جو سستی
بھی ہے اور کارآمد بھی تو وہ یہ دوائی کیوں نہیں لکھتے۔ اسکے متبادل اسی
فارمولے کی دوسری مہنگی دوائی کیوں لکھتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام
کرنے والے بتائیں کہ ان کو جو دوائی سرکاری طور پر بتائی جاتی ہے کہ یہ
لکھیں، وہ پھر بھی مہنگی دوائی کیوں لکھتے ہیں۔ ہسپتالوں میں جب ہر قسم کا
میڈیکل ٹیسٹ کرنے کی سہولت موجود ہوتی ہے تو وہ پھر بھی کسی مخصوص لیبارٹری
کی طرف کیوں بھیجتے ہیں۔ اور اگر مریض کسی دوسری لیبارٹری سے ٹیسٹ کروا کر
لے آئے تو اس کو قبول کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔ کیا کوئی ڈاکٹر بتائے گا؟
کیسے بتائے، وہ تو سر سے پاؤں تک کمیشن مافیا کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے
ہیں۔ ان کو گاڑی ، بنگلہ، پلاٹ ، تھائی لینڈ کی سیر جب مفت میں مل رہی ہو
تو انہیں کیا لگی کہ مریض مرے یا جئے۔انہیں اپنے پیسوں سے مطلب ہوتا ہے۔
ہسپتالوں میں دوائی کا نہ ملنا بھی ایک اور بڑی بیماری ہے۔ تقریباً ہر
ہسپتال کو ایک بڑی مقدار میں دوائیاں مہیا کی جاتی ہیں، جن میں ہر قسم کی
دوائیاں موجود ہوتی ہیں، لیکن پھر بھی دوائیوں کی کمی ہی ملتی ہے۔ یہاں تک
کہ آپ کو ڈکلوران کا انجکشن تو لگا دیا جاتا ہے، لیکن اگر اس سے آرام نہیں
آتا اور ڈاکٹر تھوڑا سا ہائی انجکشن لکھ دیتا ہے تو وہ مریض کو باہر سے
لانا پڑتا ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں یہ صورت حال ہر گز نہیں۔ کیوں کہ
انھوں نے تو مریض کو الٹی چھری سے ذبح کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ میں سچ کہہ رہا
ہوں۔ ابھی پچھلے دنوں ہی ایک رشتہ دار کا ایک پرائیویٹ ہسپتال میں گردے کا
آپریشن ہوا۔ صرف آپریشن کے لیے چار لاکھ پچانوے ہزار روپے ادا کرنے پڑے۔
کوئی بتائے کہ کیا انھوں نے سونے یا ہیروں سے بنے اوزار استعمال کیے ہیں
اور استعمال کے بعد پھینک دیے ہیں۔ یقینا پھینک دیے ہوں گے لیکن سٹین لیس
اسٹیل سے بنے اوزار، جن کی کل قیمت شاید پانچ ہزار روپے بھی نہ بنتی ہو۔ اب
بتائے کوئی کہ بقیہ چار لاکھ نوے ہزار کس چیز کے لیے ہیں؟ کوئی بہترین جواب
نہیں ہو گا۔ خیر بات ہو رہی تھی دوائیوں کی موجودگی کی۔ تو ہسپتالوں میں یہ
صورت حال ہے۔ صوبہ پنجاب میں البتہ نسبتاً بہتر ہے ۔ ایمرجنسی میں یا اوپی
ڈی میں وہ دوائی یا انجکشن جو ہسپتال میں ہی مریض نے استعمال کرنا ہے، وہ
لازماً موجود ہوتا ہے۔ ہاں جو دوائی ڈاکٹر گھر کے استعمال کے لیے لکھ کر
دیتے ہیں، ان میں سے تقریباً پچاس فیصد مریضوں کو دوائی مہیا کرنے والے دو
لحاظ سے انکار کردیتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کو دوائی سمجھ ہی نہیں آتی کہ
کیا لکھا ہے تو وہ نہیں ہے کہہ کر جان چھڑا دیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ سمجھ تو
آگئی لیکن دیں کیوں؟ تو نہیں ہے کہہ کر انکار کر دیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے
مہنگی دوائی انھوں نے دے دی، لیکن سستی دوائی کی موجودگی سے ہی انکار کر
دیا۔ یہ پنجاب کے اکثر ہسپتالوں میں دیکھاگیا ہے۔
صوبہ پنجاب کی نسبت کے پی کے چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں کا تو سب کچھ ہی
نرالا ہے۔ ایک ایمرجنسی ہے تو دو ڈاکٹر موجود ہیں۔ مریض سے کیفیت پوچھی اور
دوائی/ انجکشن لکھ دیا۔ یہ نہیں کہ مرض کو جانیں، اس کی جڑ تک پہنچیں کہ
ہوا کس وجہ سے ہے۔ یوں پانچ منٹ میں دس مریض بھگتائے جاتے ہیں۔ اس دوران ،
ان کے پاس میڈیکل کمپنی کے نمائندے بھی اپنے بروشرز کے ساتھ آتے ہیں۔ ان کو
ملنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ لیکن یہاں پر عقل سے کام لیا جاتا ہے۔ نمائندہ صرف
بروشر دکھا کر اور اپنی دوائی پر انگلی رکھ کر ، کس مرض کے لیے ہے ، بتا کر
چلا جاتا ہے۔ ایمرجنسی میں ہر وقت کم سے کم دس بارہ مریض موجود ہوتے ہیں ،
ایک جاتا نہیں کہ دو مزید آجاتے ہیں۔ دو ڈاکٹروں کے پاس ایک وقت میں دس سے
زیادہ مریض کھڑے ہوتے ہیں۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ جو مریض زیادہ تکلیف میں
ہوتا ہے، وہ پیچھے کھڑا یا بیٹھا ہوتا ہے، جب کہ کم تکلیف والا مریض ڈاکٹر
کے پاس کھڑا ہوتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ کم سے کم چار سے چھ ڈاکٹر موجود
ہوں۔ اور ان کو باقاعدہ کرسی میزیں دی ہوئی ہوں۔ نہ کہ سارے ڈاکٹر اس طرح
بیٹھے ہیں کہ اگر مریض بیچ والے ڈاکٹر کے پاس بیٹھا ہے تو آگے والے ڈاکٹر
کے پاس جانے کی گنجائش ہی نہیں۔ مریض کا ڈاکٹر کے پاس جانا، اس کا چیک اپ
کرنا اور نکلنا بہت آسان ہونا چاہیے۔ نہ دوسرے مریض پریشان ہوں اور نہ ان
کو چیک اپ کروانے میں کوئی تکلیف ہو۔لیکن کے پی کی گورنمنٹ واقعی میں عمران
خان کے پیچھے صرف نعرے مارنے تک رہ گئی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ تجربہ کار سٹاف ہونا چاہیے ۔ وہی چھوٹے شہروں میں دیکھا
گیا ہے کہ ناتجربہ کار سٹاف مریضوں پر تجربہ کر رہے ہوتے ہیں۔ مجھے خود
ذاتی طور پر تجربہ ہوا ہے کہ ناتجربہ کار سٹاف نے انجکشن لگانا تھا۔ اس کو
رگ ہی نہ ملی۔ سرنج کی سوئی گوشت میں اتار دی۔ شکر ہے اس کو یہ معلوم تھا
کہ جب تک رگ نہ ملے اور سرنج میں خون کو نہ کھینچ لو، تب تک انجکشن نہیں
لگانا۔ اس نے رگ ڈھونڈنے سے پہلے بازو میں دو سوراخ کیے تھے۔ میں تو چلو
برداشت کر گیا کہ تکلیف کچھ اور تھی۔ لیکن اگر کوئی مریض جو سخ درد کے مارے
لوٹ پوٹ ہو رہا ہو، اس پر اگر اس طرح کے تجربے کیے جائیں گے تو اس نے تو
اپنا مرض بھول کر سٹاف کو دو ہتڑ لگا دینی ہیں۔ اور پھر میڈیکل سٹاف اور
ڈاکٹر کہیں گے کہ مریض نے بدتمیزی کی ہے۔ ڈاکٹر حضرات سے، حکومت وقت سے
گزارش ہے کہ کمیشن مافیا کو روکیں۔ ان کا سد باب کریں تا کہ مریض کو دوائی
بھی سستی ملے اور ہر وقت بروقت ملے۔ نا کہ ہمیشہ کی طرح مریض کے لواحقین
مریض کے دوائی نہ ملنے کی وجہ سے ، یا ڈاکٹر کی عدم دستیابی کی وجہ سے
سڑکوں پر احتجاج کرتے پھریں۔
|