خدایا اب تو رحم کر

 خود وزیر اعظم اس بات کو کیوں محسوس نہیں کرتے ۔ ان کے گرد حواریوں اور چاپلوسوں نے گھیرا تنگ کر دیا ہے ، کیا وہ نہیں جانتے کہ وہ ڈوبے تو انہی کی وجہ سے ڈوبیں گے۔ ایک عام آدمی کی حیثیت سے جب چاپلوسوں اور خوشامدیوں کو دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے ۔ کیسے کیسے انداز ہائے دل پذیری ہیں جن کی دلدل میں میاں نواز شریف پھنس چکے ہیں۔ وہ پہلے بھی پھنستے رہے ہیں ، بس سبق نہیں دیکھا۔

قدرت اﷲ شہاب نے خوشامد کو ایسی قینچی کہا ہے جو عقل و فہم کے پر کاٹ دیتی ہے اور پرواز کی آزادی سے محروم ہو جاتا ہے۔برسوں اقتدار کی غلام گردشوں میں رہنے والے شہاب نے لکھا ہے کہ

’’ خوشامدیوں میں گھرا ہوا انسان شیرے کے قوام میں پھنسی ہوئی مکھی کی طرح بے بس اور معذور ہوتا ہے ۔ رفتہ رفتہ اس کے حواس معطل ہو جاتے ہیں اور وہ وہی کچھ دیکھتا اور سنتا ، بولتا، سونگھتا اور محسوس کرتا ہے جو چاپلوسی ٹٹو چاہتے ہیں ۔جس سربراہ مملکت کو کرسی کو خوشامد کی دیمک لگ جائے وہ پائیدار نہیں رہتی ۔ اس کے فیصلے ناقص ہوتے ہیں اور اس کی رائے دوسروں کے قبضے میں چلی جاتی ہے۔ ‘‘کیا وزیر اعظم ماضی کے ان خوشامدیوں کو نہیں پہچانتے جو انہیں قائد اعظم ثانی بنانے کے بعد جیل بھجوا کر نئے ہتھیاروں سے مسلح ہو ئے اور جنرل مشرف اور چوہدری شجاعت کی مالش کرنے کے بعد آپ کے حضور حاضر ہیں ۔ نئے مکھن بلکہ مکھن کی پوری فیکٹری کے ساتھ……!!

چند ایک خوشامدی تو حد پار کر گئے ۔ انہیں قائد اعظم کی جھلک کی بجائے خاکم بدھن اس حکومت میں حضرت عمر فاروق ؓ کے دور کی خوبیاں نظر آ تی ہیں ۔ کیا خوب خوشامد ہے ۔قائد اعظم کی وراثت میں بچی کچھی پارہ پارہ مسلم لیگی قیادت ۔ وہ مسلم لیگ جسے لیاقت علی خان کے بعد ہر آمر ،ہر مفاد پرست نے استعمال کیا اور ما بعد ٹشو کی طرح پھینک دیا۔

کہاں عمر ؓ کہاں یہ بد نصیب حکمران ۔ نفس پرستوں کو اس آسمان صفت ہستی سے کیا نسبت ہو سکتی ہے؟ زمانے گزر گئے پھر میرے عمر ؓ جیسا پلٹ کر نہ آیا ۔مدتیں ہوئیں ان کے گرد پا والا بھی نہ گزرا ۔ ایک روز عمر کا جنگل سے گزر ہوا ۔ بھوک سے نڈھال ایک جگہ بیٹھ گئے ۔ سامنے ایک بدو بکریوں کا ریوڑ ہانکتا آ رہا تھا ۔اسے اپنی بھوک کا حال بتایا اور کہا تم ایک بکری کا دودھ مجھے نکال کر دے دو میں اس کی قیمت ادا کردیتا ہوں ۔ بدو نے خلیفہ وقت کو دیکھا اور کہا ’’ بالکل نہیں ، یہ بکریاں میری نہیں ۔ میں تو ملازم ہوں ۔ مالک کی اجازت کے بغیر میں دودھ نہیں دے سکتا۔ ‘‘ امیر المومنین عمر ؓ نے غور سے اس بدو کو دیکھا اور پھر بدو کو آزمانے کے لیے کہا ’’ سنو تم ایک بکری مجھے فروخت کر دو مجھ سے رقم لے لو۔ میں دودھ بھی پی لوں گا اور چاہوں تو بکری ذبح کر کے گوشت سے بھوک مٹا لوں ۔ بکریاں تو ویسے بھی بھیڑیے کھا جاتے ہیں تم مالک سے بہانہ کر سکتے ہو۔ ‘‘
چرواہے نے بات سنی اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ۔
’’یا ابن الملک فاین اﷲ ‘‘

اے شہزادے تم مجھ سے کہتے ہو میں اپنے مالک سے کہوں کہ بھیڑ یا بکری کھا گیا ہے یہ بتاؤ اﷲ کہاں گیا ؟ میرا مالک تو نہیں دیکھ رہا ،اس دنیا کا مالک تو دیکھ رہا ہے نا۔ اس کے پاس جا کر میں کیا جواب دوں گا ؟
امیر المومنین ؓ نے کہا ! اے چرواہے جب تک تجھ جیسے انسان امت میں موجود ہیں ، اس وقت تک امت کے اندر کوئی فساد نہیں آ سکتا۔ ‘‘

چرواہا چاہتا تو خوشامد کر کے بکری کا ایک گلاس دودھ دے دیتا یا چند سکے لے کر پوری بکری حوالے کر دیتا ۔ جس چرواہے کا حاکم ایسا ہو کہ عین میدان جنگ میں معلوم دنیا کے سب سے بڑے سپہ سالار حضرت خالد بن ولید ؓ کو معزول کر دیا ، حضرت سعد ابن وقاص ؓ کو کوفے کی گورنری سے فارغ کیا ۔ حضرت حارث بن کعب ؓ سے گورنری واپس لے لی ۔ حضرت عمرو بن العاص ؓ سے مال ضبط کر کے گورنری سے ہٹا یا اور کہا ’’ جاؤ اونٹ چراؤ ‘‘ …… کسی ایک نے بھی انکار نہیں کیا کسی ایک نے بھی خوشامد نہیں کی۔ یہ سب جانتے تھے کہ آپ ؓ رسول اﷲ ؐ کے ان قابل رشک ساتھیوں میں سے ہیں جن کے ایسے آقائے نامدار ؐ نے فرمایا تھا ’’ میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ؓ ہوتا۔‘‘
عمرؓ بن الخطاب جب خلیفہ بنے تو اپنی مہر پر لکھوا لیا ۔
’’ عمر ! نصیحت کے لیے موت ہی کافی ہے ۔‘‘

رعایا نے دیکھا ان کے کرتے پر ایک درجن سے زائد پیوند لگے ہیں او ران میں چمڑے کے ٹکڑے بھی ہوتے۔ نیند آتی تو کسی درخت کے نیچے سر کچی اینٹ پر رکھ کر سو جاتے ۔ کسی کو گورنر بناتے تو نصیحت کرتے ۔
’’ ترکی گھوڑے پر نہ بیٹھنا ، باریک لباس زیب تن نہ کرنا ، دربان دروازے پر نہ بٹھانا، آٹا چھان کر نہ کھانا اور کسی سائل کے لیے اپنے دروازے بند نہ کرنا ۔ انسانوں کے حقوق کے لیے اپنے رفقاء سے فرمایا ،ظالم کو معاف کرنا مظلوموں پر ظلم ہے …… اور فرمایا ماؤں نے بچوں کو آزاد جنا تھا تم نے انہیں کب سے غلام بنایا۔ ‘‘
اپنے دور خلافت میں ایسی اصلاحات نافذ کیں کہ خلق خدا نے قیامت تک اسے مثال بنا لیا ۔ سترہ لاکھ مربع میل کا علاقہ فتح کیا ۔جیل ، پولیس ، آب پاشی ، عدلیہ ، مساجد ،مؤذنوں، فوجی چھاؤنیوں ، دودھ پیتے بچوں ، معذوروں ، بیواؤں ، بے آسرا لوگوں کے لیے ایسا نظام دیا جس کی مثالیں رہتی دنیا تک دی جاتی رہیں گی ۔ آپ نے ہی احتساب کا نظام قائم کیا ۔ سرکاری اداروں اور عہدیداروں کے اثاثوں کا ریکارڈ مرتب کیا ۔ راتوں کو جاگتے اور تجارتی قافلوں کی چوکیداری کرتے ، جج غلطی کرتے تو ان کو سزا دلاتے ، راتوں کو بے تاب ہو کر نکلتے اور اپنی رعایا کا حال معلوم کرتے ۔اس بے قراری پر ان کے رفقاء اور عزیز بے چین ہو کر آپ ؓ کو دیکھتے تو آپ ؓ فرماتے ۔

’’ اگر دریائے فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اس کے لیے بھی عمر سے پوچھا جائے گا ۔ ‘‘
حضرت عکرمہ بن خالد ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ؓ کی صاحبزادی سیدہ حفصہ ؓ اور بیٹے حضرت عبداﷲ ؓ نے ایک بار عرض کیا اگر آپ اچھی غذاکھائیں تو امور خلافت اور زیادہ مستعدی سے انجام دے سکیں گے اور امر حق پر بھی زیادہ قوی ہو جائیں گے۔یہ سن کر فرمایا بچو! اس مشورے کا شکریہ لیکن میں نے اپنے دونوں دوستوں رسول خدا ؐ اور ابو بکر صدیقؓ کو ایک خاص دستور کا پابند دیکھا ہے اگر میں ان کے دستور او رروش پر عمل نہیں کروں گا تو ان کی منزل کس طرح پا سکوں گا ؟
آپ ؒ نے اپنے صاحب زادے کو نصیحت فرمائی ۔

میرے کفن پر بے جا خرچ نہ کرنا ، اﷲ کے نزدیک میں بہتر ہوا تو وہ اس معمولی کفن کو بدل دے گا ۔ اگر میں اس کے نزدیک بہتر نہیں تو یہ کفن بھی چھن جائے گا ۔ میری قبر لمبی چوڑی نہ کھدوانا کیونکہ اگر میں خدا کے نزدیک بہتر ہوں تو وہ اس کو حد نگاہ تک کشاہ کر دے گا۔ ورنہ کتنی ہی وسیع قبر ہو اتنی تنگ ہو جائے گی کہ پسلیاں ٹوٹ جائیں ۔‘‘
آپ ؓ کی شہادت پر مدینہ منورہ سے میلوں دور ایک چرواہا شہر نبی ؐ کی طرف بھاگتا ہوا آیا اور بلند آواز میں پکارنے لگا۔
’’لوگو! امیر المومنین عمر ؓ کا وصال ہوگیا۔ ‘‘
کسی نے حیرت سے پوچھا اتنے دور جنگل میں کیسے اطلاع ہوئی ۔ وہ چلایا …… ’’ لوگو بھیڑیا میری بھیڑ کے بچے کو اٹھا کر لے گیا ہے ۔ جب تک عمر ؓ زندہ تھے میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں ۔ آج جب بھیڑیے نے یہ جرات کی تو مجھے یقین ہوگیا آج عمر ؓ وفات پا گئے ہیں ۔ ‘‘
کیا حکمران تھے، کیا رعایا تھی ، کیا مشیر تھے۔ کیسا اعتماد تھا، کیسا یقین تھا۔
اب کیا حکمران ہیں اور کیسے مشیر …… خدایا اب تو رحم کر……!!
Saghir Qamar
About the Author: Saghir Qamar Read More Articles by Saghir Qamar: 51 Articles with 34154 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.